فساد کے بعد کی ایک لنچ پارٹی

مشرف عالم ذوقی

وہ ایکیوریم کے قریب آکر ٹھہر گیا تھا۔ شیشے کے اندر ایک عجیب و غریب دنیا روشن تھی۔ پانی، جلتے بجھتے قمقموں کی طرح روشنی کی بارش کر رہے تھے۔ اور ان کے درمیان سونے کی طرح جھل مل کرتی مچھلیاں، اپنے رقص سے ماضی کے سارے قصّے بھلانے میں اس کی مدد کر رہی تھیں۔ اُس نے غور سے دیکھا… ایکیوریم کی بلوا ہی زمین پر ایک ٹنی فش ساکت تھی۔ خاموش مردہ حالت میں۔ ہلٹی ڈولتی ناچتی مچھلیوں کے درمیان ’بلوا ہی‘ ریت کے چمکتے پتھروں کے پاس بے دم—
’مر گئی ہے؟‘
’نہیں مری نہیں ہے،‘
’نہیں مر گئی ہے۔‘
’نہیں ناٹک کر رہی ہے… ابھی اٹھے گی۔ دوسری مچھلیوں کے ساتھ پھر شروع ہو جائے گا رقص۔
’’میری بلا سے ‘‘… اُسے مچھلیوں پر ناراضگی تھی… ’’میری بلا سے… مر گئی تو میں کیا کروں۔ چھو کر دیکھ… اے… ایک… دو… تین…‘‘
وہ آہستہ آہستہ اپنی انگلیاں ایکیوریم کے شیشے کی طرف بڑھا رہا ہے…
کنارے دائیں طرف کونے میں کل ملا کر چار لوگ کھڑے تھے۔ ہاتھ میں شراب کے گلاس تھے۔ ان میں سے ایک کی نظر ایکیوریم کی طرف چلی گئی۔ اس نے باقی کو اشارہ کیا۔
’دیکھ … دیکھ… وہ کیا کر رہا ہے۔‘
’بیچاری مچھلیاں۔‘
’مچھلیاں نہیں۔ اُسے … اُسے دیکھ…‘
’’ اوہ… ہاؤ رومانٹک…‘‘
’’— رومانٹک؟‘‘
— ہاں…
— تمہیں ہر چیز میں رومانس دکھتا ہے۔
— رومانس ہوتا ہی ایسا ہے…
— لیکن اس میں رومانٹک جیساکیا ہے؟
— دیکھ اس کی آنکھوں میں، اُف… ایک نہیں ختم ہونے والی جستجو۔ اور جستجو کس شئے کے لیے ہے، وہ تمہارے سامنے ہے— باریک شیشے کے محل میں ناچتی ڈولتی جل پریاں… ہاؤ رومانٹک ۔
’— یہ جل پریاں نہیں ہیں۔‘
— وہی تو، جل پریاں نہیں ہیں، ہوتی بھی تو… مجھے فیوژن پسند نہیں ہے۔ دو چیزوں کو ملا کر ایک ریمپ پیش کردینا۔ یہ مچھلیاں ہیں… شیشے کے محلوں میں بے نیازی سے ناچنے والی… ایک سپنیلی دنیا، سپینلا آئی لینڈ…
— لیکن اسے تو دیکھ…
— دیکھنے کی چیز وہی ہے، یعنی وہ، کس طرح سے اُسے چھونے یا دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اُس کی باڈی لینگویج دیکھی؟ دیکھ… اس کی آنکھیں چھوٹی ہیں —بدن میں لوچ ہے— ہاتھ میں چھو لینے کی جستجو کے ساتھ پیشینس یعنی صبر بھی ہے… اور پاؤں میں… جیسے گھنگھرو باندھ دو —صرف کویل کے چہچہانے کا سُر ابھرے…
— لیکن گھنگرو میں تو…
— ایک ہی بات ہے…
— نہیں ایک بات نہیں… دیکھو… اس نے ہاتھ پیچھے کر لیا ہے۔
— میں کہتا ہوں وہ پھر ہاتھ آگے بڑھائے گا…
— میں کہتا ہوں…
— شرط لگا لو…
— لگ گئی…
— کتنے کی شرط…
— جام خالی ہو رہا ہے
— بات مت پلٹو…
— لگ گئی شرط
— نہیں شرط نہیں… کہیں تم نے کچھ ایسا ویسا مانگ لیا تو…
— مثلاً؟
— شبنم کو،
’ شبنم‘ وہ جو دنگے میں ملی تھی۔ دانی لمڈا کے ایک گھر میں۔ بے سہارا… اوہ شٹ۔ اُس کے بدن کا ایک ایک گداز یاد ہے— اُس کے گھر کے سارے لوگ…‘ وہ ہنس رہا تھا— اوپر چلے گئے تھے۔ پھر شاید تم اُسے گھر لے گئے تھے— داسی بنانے یا… لیکن وہ ہے مزیدار چند… لیکن تم بھلا شبنم کو کیوں دو گے؟‘
— نہیں شبنم نہیں
— شبنم کو نہیں مانگوں گا…
مت مانگو۔ یو ڈرٹی فول
— مثلاً … وہ … وہ جو تمہارا انکلیو بن رہا ہے، اُس میں سے…
— طے رہا، یہ بھی نہیں مانگوں گا…
— مثلاً؟
— مثلاً یہ کہوں کہ وقت آنے پر۔
— چویتے… سالے…
ان میں سے ایک نے زور سے گلاس زمین پردے مارا۔ باقی نے روکنے کی کوشش کی— نو… نو… نو… مسٹر…
چھناک کی آواز کے ساتھ بھی کہیں کچھ نہیں بدلا تھا۔ منظر بالکل ویسا ہی تھا جیسا پہلے تھا۔ پارٹی میں کافی لوگ تھے، سب اپنے آپ میں مصروف، جیسے گلاس سے ہونے والے دھماکے، شیشے کی کرچیوں کے بکھرنے کی کسی کو بھی ذرا بھی پرواہ نہیں ہو— کسی نے بھی اُس طرف پلٹ کر نہیں دیکھا۔
چاروں اب ہنس رہے تھے…
ایکیوریم کے پاس کھڑے چاروں اب دونوں پیر سکوڑ کر کسی فکر میں ڈوب گئے تھے۔
— دیکھ … دیکھ اس کو…
— ارے یہ تو وہی بات ہوئی، ناچت ناپٹ والی، سکّہ کھڑا ہوگیا۔
— لیکن تُو اتنا غصہ کیوں ہوا…
— کیوں نہیں، سالے اچھا بھلا موڈ خراب کردیا۔
— تو شبنم کیوں نہیں مانگ سکتا تھا، کیوں… ارے کیا وہ بس میری ہے… اُسے تو…
— ہاں اُسے تو…
دوسرے نے لمبی سانس بھری۔
— اور سالے تو اِس انکلیو میں… ایک چھوٹی سی جگہ… کیا وہ صرف اس لیے میری ہے کہ میں نے اُسے— وہ ’لوٹا ہے‘ کہتے کہتے ٹھہر گیا تھا۔وہ کیا غالب کا شعر ہے…
— غالب کا تمہیں، میر کا…
— ابے سالے میر کا نہیں، بہادر شاہ ظفر کا … اس نے پڑھ کر بتایا…
کتنا ہے بد نصیب ظفر‘ دفن کے لیے
دو گز زمین مل نہ سکی کوئے یار میں
— کیا شعر ہے یار… جب سنتا ہوں جھوم جاتا ہوں، لیکن … سالا مجھے تیری اسی بات پر غصہ آیا، کیا وہ زمین میری ہے۔
— نہیں
— اس کی ہے؟
— نہیں…
— پھر؟ کس کی ہے سب کو پتہ ہے، پھر تو ایک زمین کا ٹکڑا کیوں نہیں مانگ سکتا تھا۔
— غلطی ہوگئی…
— نہیں غلطی نہیں ہوئی۔ کیوں کہ ابھی بھی آپ اُس بچکانی ذہنیت سے باہر نہیں نکلے ہیں، جس میں ہمارے رنگ… ہماری چیزیں… یعنی اتنا تو آپ سب کو سمجھنا ہی چاہئے کہ وہ سب… اور اس سے زیادہ میں کیا کہوں۔

پارٹی سے اُس کو کوئی بہت زیادہ غرض نہیں تھی۔ ایسی پارٹیاں اُس نے بہت دیکھی تھیں۔ یا کہا جاسکتا ہے، اس سے بھی اچھی پارٹیوں کے کتنے ہی قصّے نہ صرف اس نے سنے تھے، بلکہ دیکھے بھی تھے۔ خاص کر جنگ کے خاتمہ کے بعد جشن منانے کے طور پر دی جانے والی پارٹیاں، میجر جنرل ، بڑے عہدے ، سیاست سے متعلق گفتگوؤں سے پرہیز کرتے فوجیوں کی بیویاں، آپس میں ہنسی مذاق کرتیں— ایک بار ایسی ہی کسی پارٹی کے لیے اُسے کینٹین کا انتظام دیکھنے کے لیے کہا گیا تھا۔
’لیکن یہ پارٹی تو…‘
’جنگ اور فساد…‘
’’نہیں اُسے کچھ بھی سوچنا ہے، سوچنے سے دماغ کی رگیں تن جاتی ہیں… دماغ پھٹنے لگتا ہے، ’’ گھر جانا ہے…‘‘

ستّار نے ٹھان لیا تھا۔ گھر جانا ہے… گھر… اُسے گھر جانے سے کوئی روک نہیں سکتا اور کوئی روکے گا بھی کیوں؟
’’مزا آیا؟‘‘
کٹّو نانگدیو پوچھ رہے تھے—
’’ ہوں… ہوں… ہوں…‘‘
‘‘ کیوں دل لگا کہ نہیں ستّار…‘‘
’’ کیوں نہیں لگے گا، چھپ چھپ کر ہماری عورتوں کو دیکھ رہا تھا… کیوں بے …‘‘
ستیش پانڈیا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی…
’’ ہوں… ہوں…‘‘
’’ تو کیا ارادہ ہے اب…‘‘
’’ گھر جاؤں گا…‘‘
’’کیوں…‘‘
’’ گھر جاؤں گا… اس کے ہونٹوں پر طفلانہ مسکراہٹ تھی، آپ جانے دیں گے نا…؟‘‘
’’ ہاں… ہاں… کیوں نہیں…‘‘
’’ میں گھر جاؤں گا…‘‘
اُس نے تیسری بار کہا۔
’’ ہاں… ہم کہاں روک رہے ہیں ستّار۔ چلے جانا، مگر ابھی… تم سمجھ رہے ہو نا…‘‘ کسی پاگل بچّے کی طرح سُنی ان سنی کرتے ہوئے ایک بار پھر وہی پرانا ٹیپ چل گیا تھا…
’’ مجھے گھر جانا ہے، آپ جانے دیں گے نا…‘‘
وہ ایک بار پھر ایکیوریم کے قریب آکر ٹھہر گیا جہاں اندر کی ’بلوا ہی‘ زمین پر وہ ٹنی فش مردہ حالت میں پڑی تھی۔ اس کی آنکھیں ایک ٹک ٹنی فش پر ٹک گئی تھیں۔ ہلٹی ، ڈولتی، ناچتی دوسری مچھلیوں کے کھیل میں اب اس کی کوئی دلچسپی نہ تھی۔

تبصرے بند ہیں۔