فضیل جعفری

جاوید جمال الدین

میرے مدیر اوّل ریاض احمد خان نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیاتھا اورانقلاب سنڈے میگزین کے مدیر پروفیسر فضیل جعفری کو ان کی جگہ کارگزارمدیر مقررکردیا گیا، غالباً1990میں یہ واقعہ پیش آیا، ریاض احمد خان جاتے جاتے میری مستقل ملازمت کے پروانہ پر دستخط کرچکے تھے، لیکن اچانک ان کے استعفے کے سبب مجھے مزید دوتین مہینے ’پروبیشن ‘پر رہ کر ذمہ داری ادا کرنی پڑی تھی، اس عرصے میں فضیل صاحب کی کارگزاری ختم ہوگئی اور وہ ’فل فلیش‘ ایڈیٹر بن چکے تھے، چند روز بعد میں نے مستقل ملازمت کے بارے میں اپنی بات پیش کی اور انہوں نے اسی شام شعبہ  ادارت میں تمام سب ایڈیٹرس اور عملے کے ساتھیوں سے میرے تعلق سے سرسری بات چیت کی، ان ساتھیوں میں ندیم صدیقی، رفیع خان نیازی، جہانگیر کاظمی، مرحوم اقبال پٹنی، عالم رضوی، مرحوم وسیم انصاری وغیرہ شامل تھے، سبھی نے بلاجھجھک میرے کام اور جذبہ پر مہر ثبت کردی، پھر ایک مہینے بعد ہی مجھے مستقبل ملازمت یعنی ’کنفرمیشن‘کا خط تھمادیا گیا، کبھی سوچا نہ تھا کہ روزنامہ انقلاب جیسے بڑے اخبار میں کام کرنے کا موقعہ ملے گا، مراسلات تولڑکپن سے شائع ہوتے رہے تھے، انقلاب پہنچنے کی بھی لمبی کہانی ہے، اس کا کریڈٹ میرے خالص صحافی دوست، عبدالرحمن صدیقی کو جاتا ہے۔ یہ دوستی کافی پرانی ہے، البتہ اب ملاقاتیں کم ہوتی ہیں، یہ واحد اردوصحافی ہے جوکہ صحافت اورخصوصاً اردواخبارمیں ہونے والے ضرورت کے کاموں کے ہرفن سے واقف ہے۔ فی الحال مجھے اس کا علم نہیں کہ عبدالرحمن کو اردوڈی ٹی پی کا فن آتا ہے یا نہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ان کی اور میرے بھائی جیسے دوست شکیل رشید کی قدر پہلے اردوٹائمزمیں اور پھر ممبئی اردونیوز میں کی گئی ہے اور وہ ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز ہیں۔ دونوں کو ان کا حق مل گیا ہے۔

روزنامہ اردوٹائمزمیں بحیثیت ٹرینی رپورٹر اور سب ایڈیٹرکی حیثیت سے کام کے دوران وسط جون 1989میں روزنامہ انقلاب میں ٹرینی رپورٹر کی ضرورت کا ایک اشتہار صفحہ اوّل پر شائع ہوا، اس اشتہار پرنہ صرف عبدالرحمن صدیقی نے توجہ مبذول کرائی بلکہ اس بات پر بھی اکسایا کہ میں روزنامہ انقلاب میں اس پوسٹ کے لیے درخواست روانہ کروں۔ کیونکہ انقلاب ایک بڑا اخبار کہلایا جاتا تھا، اور دل میں طرح طرح کی باتیں تھیں، ان کے زوردینے پرمیں نے مشورے پر عمل کیا اور بسم اللہ کہہ کر اپنی ’سی وی ‘روانہ کردی، چند روز بعد ہی کال لیٹر موصول ہوا اوردودن کے انٹرویو کے بعد مجھے 35امیدواروں میں سے منتخب کرلیا گیا، ترجمہ کا شوق بچپن سے رہا تھااور رپورٹنگ اور سبینگ ایک سال میں اردوٹائمز میں سیکھ لی، اس کے لیے معروف صحافی حنیف اعجاز ذمہ دارہیں، جنہوں نے ایک اچانک فیصلے میں مجھے پروف ریڈرسے نیوزڈسک پر بیٹھا دیا اور ایک دوسال کے تجربے نے مجھے انقلاب کا رپورٹر اور پھر اس کے بانی مرحوم عبدالحمید انصاری کا ’بائیو گرافر ‘بنادیا، جب میں نے انقلاب جوائن کیا تھا، اسی سال1989میں، میں نے12 ویں کے امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی، لیکن ملازمت کے ساتھ ساتھ میں نے تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا، پہلے گریجویشن اور پھرکے سی کالج کے ماس کمیونکیشن شعبہ سے 1994میں جرنلزم کیا، میرے ساتھ جہانگیرکاظمی نے بھی داخلہ لیا تھا۔ معروف بزرگ کالم نویس اور ایکٹویکٹ فیروز اشرف کے صاحبزادے فرودس اشرف بھی ہمارے ساتھ تھے، جو ریدف ڈاٹ کام میں اعلیٰ عہدہ پر فائزہیں، جرنلزم میں ڈپلومہ اور پھر پوسٹ گریجویشن مکمل کرنے میں روزنامہ انقلاب یعنی مڈڈے ملٹی میڈیا کے انتظامیہ کی مالی اعانت کی پالیسی کے تحت کیا تھا۔ جو کہ پوسٹ گریجویٹ کورس کرنے کے لیے اپنے ملازمین کی اعانت کرتے رہے ہیں، فی الحال یہ سلسلہ ہے کہ نہیں مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ البتہ جہانگیر کاظمی مرحوم جعفری صاحب کے عتاب کاشکار بن گئے اور جرنلزم ان ڈپلومہ کا ایک سالہ کورس مکمل کرسکے۔

مرحوم جعفری صاحب، مرحوم ریاض صاحب کے بعدمیرے دوسرے مدیرتھے اور بحیثیت مدیر انقلاب سے دومرتبہ وابستہ رہے، پہلے 1990سے 1995اور پھر 2000میں ہارون رشید صاحب کی رحلت کے بعد تین مہینے کی تلاش کے بعد تھک ہار کرانہیں مدیر مقررکیا گیا، تب تک عزیز کھتری ایڈیٹر بنے رہے۔ فضیل صاحب انگریزی ماہنامہ ’ون انڈیا، ون پیوپلز‘ کے ایسوسی ایڈ ایڈیٹر تھے، اردوہفتہ روزہ بلٹز بند ہوجانے کے بعد اس انگریزی ماہنامہ سے وابستہ ہوگئے تھے، جوکہ مہالکشمی چیمبرس حاجی علی پرواقع ہے۔ فضیل جعفری مرحوم میں کئی خوبیاں تھیں، ایک یہ کہ دونوں دورمیں ایچ آر شعبہ کی اُس فہرست کو واپس لوٹاتے رہے، جس میں کاتب حضرات اور ادارتی عملہ کی تعداد پرسوال اٹھایا جاتا تھا، لیکن اکادکا واقعات کے علاوہ انہوں نے اس بات کا خیال رکھا کہ اپنے دورمیں کسی معاون کو باہر کا راستہ نہ دکھایا جائے، خیر جو واقعات پیش آئے تھے، ان کے لیے ہمارے ساتھی بھی ذمہ داررہے۔ دوسرے دورمیں بھی ’کوسٹ کٹنگ ‘ کی مہم پر راضی نہ ہونے پر انہیں گھر بیٹھنا پڑا، ان کے ساتھ جوسلوک کیا گیا، فی الحال میں اس کا ذکرنہیں کرﺅنگا، لیکن اتنا کہنے کا حوصلہ رکھتا ہوں کہ ان کے جانشین نے پہلے دن سے اس مہم کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا، میرے ساتھ یہ ہواکہ 2002میں میری کتاب ’عبدالحمید انصاری انقلابی صحافی اورمجاہد آزادی ‘ کی اشاعت کے چار مہینے بعدمیراتبادلہ شہر پُرفضاءپونے کردیاگیا، 2005میں پھرایک بار حق گوئی اور بے باکی کا نتیجہ کا صلہ انتظامیہ نے یہ دیا کہ مجھے نئی دہلی پہنچادیا، خیر جوہوا، اس میں اللہ کی مرضی ورضاشامل رہی، میرے نئے دوست بنے اورتعلقات وسیع تر ہوئے ہیں، دہلی اور پونے چھوڑیئے پٹنہ اور لکھنو ¿ میں حالیہ دورہ میں لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ فضیل صاحب کے 1995میں عہدہ چھوڑنے کے بعد دراصل ایک نئے نظام اور سسٹم کا شکار سب سے زیادہ کاتب حضرات بنے اور ایک عرصہ تک کورٹ کچہری کا چکر چلتا رہا اور کئی ایک آج بھی اُمیدپر جی رہے ہیں۔ کچھ اللہ کو پیارے ہوگئے اور چند ایک نے حساب کتاب کرلیا تھا، جبکہ روزنامہ انقلاب انصاری فیملی کے بجائے 2010سے جاگرن پبلیکشنزکی ملکیت ہوچکا ہے۔ ان کاتب کو اردوڈی ٹی پی نے بے روزگار کردیا، یہ سچ ہے کہ کمپیوٹرمیں تیزی سے کام ہوتا ہے اور1993میں اردوان پیچ کے نافذ ہونے کے بعد کاتب حضرات کے ساتھ ساتھ شعبہ ادارت سے وابستہ تین لوگوں نے ان پیج ڈی ٹی پی اردومنظرحسن سے سیکھا تھا، ان تینوں میں بھی شامل رہا اوردوسرے دوعالم رضوی اور ریحانہ بستی والا تھے۔ ۔

مجھے مرحوم انصاری صاحب کی سوانح عمری لکھنے کا موقعہ اس طرح ملا کہ ایم اے کے بعد ایم فل میں داخلہ کے انٹرنس ٹیسٹ میں کامیاب مل گئی اور میں نے آسانی کی غرض سے ممبئی میں اردوجرنلزم جیسے موضوع کا انتخاب کیا، اُس درمیان مرحوم عبدالحمید انصاری کا ایک خط میرے ہاتھ لگ گیا، جس میں انہوں نے 1948میں پاکستان ہجرت کرجانے والی کئی شخصیات کے اس مطالبہ کو ٹھکرادیا تھاکہ وہ کراچی آجائیں اور روزنامہ انقلاب کو یہاں سے جاری کریں اور انہوں نے ہرممکن مددکا یقین بھی دلایا تھا، اُس خط کو سنڈے میگزین کے انچارج شاہد لطیف نے سال 2000کے انقلاب کے سالانہ نمبر میں شائع کردیا، جس کا انگریزی ترجمہ طارق انصاری صاحب، منیجنگ ڈائرکٹرکی ایماءپر سنڈے مڈڈے میں شائع ہوا جو خود فضیل صاحب نے کیا تھا اور پھر چیئرمین خالد انصاری نے اپنے ایک خواب کا ذکر پرنٹر اور پبلشرجناب عزیز کھتری سے کیا کہ وہ اپنے والدمرحوم کی سوانح عمری لکھوانا اہتے ہیں، جنہوں نے فضیل صاحب تک یہ بات پہنچائی اور ایک میٹنگ کے دوران فضیل جعفری نے خود یہ کام کرنے سے معذوری ظاہرکرتے ہوئے صاف طورپر کہاکہ ”میرے لیے اب ممکن نہیں ہے، جاوید نے اس خط کو تلاش کیا ہے اور ایم فل میں اسی موضوع پر کررہا ہے، اس لیے وہی اس کا حقدار ہے، اسے یہ ذمہ داری سونپی جائے۔ “ان کی سفارش کے بعد خالدانصاری نے ’اوکے‘ کردیا، مجھے یہ خوشخبری دی گئی تو فرط مسرت سے میری آنکھیں نم ہوگئیں، مجھے اس کام کے لیے مالکان کی ہدایت پر وقفہ وقفہ سے تقریباً ایک سال چٹھی دی گئی، اس کام میں فضیل صاحب کے ساتھ ہی جناب عزیز کھتری کا بھی اہم رول رہا، ان کے تعاون اور حمایت کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا، لیکن میری اس دوسالہ محنت کا صلہ یہ ملا کہ جولائی میں مجھے پونے شہر پہنچا دیا گیا، جواز یہ پیش کیا گیا کہ وہاں کام کررہے اسٹنگرکے کام سے وہ مطمئن نہیں ہیں، خیر بیرون ممبئی بھی کام کرنے کا موقعہ ملا اور آج بھی پونے کے لوگ قدرکا نظر سے دیکھتے ہیں۔

بس، فضیل جعفری کی خوبی اور ناراضگی کے بارے چند باتوں کے بعد مضمون مکمل کردونگا کہ میرے ساتھ ایک باردوروز کی حاضری کا مسئلہ پیدا ہوا، اس مسئلہ کو وہ خود جانتے تھے، اور اس کی اطلاع انہوں نے ایچ آرکے حاضری شعبہ کو دے دی تھی، اس کے باوجود میری تنخواہ کاٹ لی گئی، اس بارے میں میں نے مرحوم کو مطلع کیا تب انہوں نے ایچ آرشعبہ کے کلرک کواتنا ڈانٹا کہ اسے اپنی غلطی تسلیم کرنی پڑی اور دوسرے مہینے میری پوری تنخواہمل گئی، جبکہ ایک دوسرے واقعہ میں میں نے ایک جلسہ کی رپورٹنگ کی اور جہاں ایک بڑے لیڈر نے اردواخبارات کے بارے میں نامناسب باتیں کیں، فضیل جعفری صاحب کی رضامندی سے خبر شائع بھی ہوگئی اورجب لیڈرنے تردید کی تو انہوں نے میری حمایت کرتے ہوئے، اس کا منہ توڑجواب دیا تھا، انہوں نے ان لیڈر کا خط شائع کرنے کے ساتھ ہی اداریہ کی طرف سے آخر میں ایک چھوکھٹالگیا کہ ” آج بھی ہم اپنے رپورٹر کی بات کی حمایت کرتے ہیں۔ “چند دن بعد اس معاملہ میں مصالحت ہوگئی۔ جیتنی خوبیوں کے مالک تھے، اتنے کان کے کچے بھی تھے، جناب عالم نقوی تک کو نہیں بخشا، حالانکہ وہ ”نمبر ٹو“ تھے اور ساتھ ہی ایک مخلص انسان۔ ریحانہ کو ایک معمولی غلطی پر تین دن معطل کردیا تھا، میمو لکھنے کے لیے جیسے تیار بیٹھے رہتے، ایک معلم کا انداز بنائے رکھا، ’کرسی ‘پر بیٹھ جاتے تھے تو ’جلال‘نظرآتا تھا، کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، ہارون رشید کے ذریعہ سرکولیشن اور ریڈرشپ کے گراف کو 2000کے بعد نیچے کی طرف جھکا کر رکھ دیا تھا، اس کا اعتراف کرتے رہے کہ ہارون رشید کے دورمیں انقلاب نے کافی ترقی کی تھی، قارئین قریب آئے اوران کی کوششوں سے یہ ممکن ہوا تھا، دراصل مرحوم ہارون رشید نے تعلیم کو’ٹارگٹ‘بنایا اور یہ چیز ’کلک ‘کرگئی، ترقی اور کامرانی نے قدم چوم لیے۔

فضیل جعفری، کا تعلق الہ آبادسے تھا، اردوادب میں برصغیر میں طنزوتنقید میں اپنا مقام رکھتے تھے، اورنگ آباد مہاراشٹر منتقل ہوئے اور گورنمنٹ کالج میں انگریزی پڑھاتے رہے، برہانی کالج ممبئی کے قائم کے بعد ڈاکٹر رفیق زکریا کے توسط سے ممبئی منتقل ہوئے، جہاں نائب پرنسپل کے عہدہ پر فائز کیے گئے، لیکن بوہرہ انتظامیہ سے الجھ پڑے، حسن کمال صاحب نے اردوبلٹز کا آخری صفحہ، خواجہ احمد عباس کے انتقال کے بعد ان کے حوالے کردیا، ان کے دوستوں میں دوافرادکو میں قریب سے جانتا ہوں، الہ آباد سے تعلق رکھنے والے ممبئی کے معروف تاجر اور سابق صدراسلام جمخانہ ذکاءاللہ صدیقی اور سبکدوش پروفیسر سیّد اقبال۔ اقبال صاحب اور فضیل جعفری دنوں برہانی کالج میں درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ رہے، دونوں کے مزاج میں زمین وآسمان کا فرق تھا، ان کے دوکالم سائنس اورسماج اور ڈائری انقلاب میں کافی مشہوررہے، لیکن جعفری صاحب کے انقلاب چھوڑ جانے پر انہوں نے بھی کالم لکھنا بندکردیا تھا، ابھی چندسال سے شاید ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد سے دوبارہ انہوں نے قلم اٹھالیا ہے۔ بقول جعفری صاحب”سیّد اقبال نے برہانی کالج میں ایک موقعہ پر انتظامیہ کے دباﺅ کے باوجود ان کا ساتھ دیا تھا۔ “یہی سبب تھا کہ دونوں میں عمر کا کافی فرق ہونے کے باوجود دونوں اچھے دوست بنے رہے۔ میں نے اردوجرنسلٹ ایسوسی ایشن کے زیراہتمام ان کے انتقال پر تعزیتی جلسہ کے لیے کوشش کی تو ذکاءاللہ صدیقی صاحب نے بھر پور تعاون کیا اور اسلام جمخانہ کے کانفرنس ہال میں اس کا بخوبی انعقاد کیا گیا۔ ذکاءصاحب نے کہا کہ ”تمہاری وجہ سے یہ ممکن ہوا، ورنہ تعزیتی جلسہ کی کس کو پڑی رہتی ہے اور کون اس میں وقت ضائع کرنا چاہتا ہے۔

فضیل جعفری مرحوم اور میرے درمیان 1995تا2000تک بھی بہتر تعلقات رہے، پھر 2002کے بعدبھی ہم رابطہ میں رہے، لیکن چند سال سے ہم دونوں میں رابط نہ رہا، دراصل وہ بہت کم کسی تقریب میں شرکت کرتے تھے، پھر علیل رہنے لگے، آخری دورمیں ان سے رابطہ نہ رہنے کا مجھے افسوس ہے۔ کسی نے علالت کی خبر بھی نہ دی اور اچانک موت کی خبر سننے ملی، اب ایک سال کا عرصہ بھی گزرچکا ہے۔ مرحوم جعفری صاحب کی پہلی برسی پر اس مضمون کی شکل میں میری تعزیت پیش ہے۔

تبصرے بند ہیں۔