فقہ اور اجتہاد کا سلسلہ کیسے شروع ہوا؟

ائمہ اربعہ کی پیدائش سے پہلے کس قانون پر عمل کیا جاتا تھا؟

ایک صاحب نے میرے ایک مضمون جو تقلید اور عدم تقلید کے عنوان سے لکھا گیا ہے پڑھ کر سوال کیا کہ ’’براہ کرم یہ بتائیں کہ چاروں ائمہ جب پیدا نہیں ہوئے تھے تو اس وقت لوگ کس قانون کو مان کر زندگی گزارتے تھے؟‘‘

موصوف کا سوال یہ ہے کہ فقہ اسلامی سے پہلے کس فقہ یا قانون کے مطابق لوگ زندگی گزارتے یا فیصلہ کرتے تھے۔

سائل نے اپنے سوال میں مسلمان کے بجائے لفظ ’’لوگ‘‘ لکھا ہے لیکن ائمہ کرام کے ذکر سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ’’لوگ‘‘ سے مراد مسلمان ہیں۔ اگر لوگ کی بات کی جائے تو لوگ کس سم و رواج یا کس قانون کے تحت زندگی گزارتے تھے تو یہ ایک وسیع تر مضمون کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس کی بھی ایک تاریخ ہے جسے بہت سے لوگوں نے لکھی ہے۔

اسلامی قانون رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے شروع ہوتا ہے جس میں ابتدا میں کچھ پرانے رسم و رواج جو مکہ میں تھے وہ بھی شامل رہے۔ رفتہ رفتہ اس کی ترمیم و اصلاح قرآن و حدیث کے ذریعہ ہوتی رہی ۔ اس میں اور چیزوں کو بھی گوارا کیا جاتا رہا، جیسے معاہدات سابقہ امتوں کی شریعتیں جو اسلام نے برقرار رکھیں اور اسی طرح کی بعض اور چیزیں جب رسول اکرمؐ کی رحلت ہوگئی اور قانون کا ایک سر چشمہ بند ہوگیا یعنی جو وحی کے ذریعے قانون بنانے اور بدلنے کی صلاحیت اللہ کے رسولؐ کی موجودگی میں پائی جاتی تھی وہ ختم ہوگئی تو رسول اکرمؐ کی حیات میں جو چیزیں چھوڑی گئی تھیں انہی پر مسلمانوں کو اکتفا کرنا ضروری ہوا۔ عام حالتوں میں مسلمانوں کیلئے یہ بات مشکلات کا باعث بن جاتیں اگر اس قانون کی ترقی کی صورت خود قانون ساز یعنی خدا اور رسولؐ نے ہمیں نہ بتائی ہوتی۔

’’یہ چیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دنوں سے تعلق رکھتی ہے۔ یمن کو جب ایک گورنر بھیجا گیا یعنی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، تو ان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا ’’فبم تحکم‘‘ (کس طرح احکام دیا کرو گے؟) ۔ جواب دیا ’’بکتاب اللہ‘‘ (اللہ کی کتاب کے مطابق)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’فان لم تجد‘‘ (اگر تم قرآن میں مطلوبہ چیز نہ پاؤگے تو کیا کروگے؟) تو انھوں نے جواب دیا ’’فبسنۃ رسول اللہ‘‘ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق احکام دیا کروں گا)۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مزید سوال کیا ’’فان لم تجد‘‘ (اگر سنت میں بھی مطلوبہ چیز نہ ملے تو کیا کروگے؟) تو ان کے الفاظ تھے ’’اجتھد برأی ولاآلو‘‘ (میں اپنے رائے کے مطابق اجتہاد کروں گا اور کوئی دقیقہ نہیں چھوڑوں گا)۔ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف پسند فرمایا بلکہ دعا دی اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر یہ کہا کہ ’’اے اللہ تو نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے رسول کو جس چیز کی توفیق دی ہے اس سے تیرا رسول خوش ہے‘‘۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی تعریف نہیں ہوسکتی۔ یہ چیز اسلامی قانون کو زندگی دینے والے، برقرار رکھنے والی اور ہر ضرورت میں کام آنے والی ہے۔ اس کی وجہ سے ایک غیر جانبدار شخص بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ اسلامی قانون چودہ سو سال سے لے کر آج تک چلا آرہا ہے اور اس میں آئندہ بھی چلنے کی قوت باقی ہے۔ اگر چیز نہ ہوتی، تو صرف قرآن اور حدیث پر اکتفا کرنے کی صورت میں ممکن ہے کہ بعض لوگ قرآن کریم کی آیتوں اور حدیثوں سے استنباط نہ کرسکتے اور حیران رہ جاتے کہ ہم کیا کریں۔ واقعتا یہ صورت بعض وقت پیش آتی ہے کہ ایک ہی چیز سے بعض لوگ کچھ سمجھ لیتے ہیں اور استنباط کرلیتے ہیں اور بعض دوسرے لوگوں کی نظر اس تک نہیں پہنچتی اور ورہ ششدر و حیران رہ جاتے ہیں‘‘۔

خلفائے راشدین اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے تھے اور ہر فیصلہ کو آپ کی ہدایت کے مطابق کرتے تھے۔ پہلا اجماع عہد صحابہؓ میں ہوا ہوگا لیکن کس مسئلے پر کب ہوا یہ کہنا دشوار ہے۔ ممکن ہے خلیفۂ اول حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں ہوا ہو۔ مثلاً زکوٰۃ نہ دینے والوں سے جنگ کے متعلق کیونکہ یہ اولین مسئلہ تھا جس میں کچھ اختلاف پیدا ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ جیسے جید صحابی کی رائے تھی، فی الحال اس پر اصرار نہ کیا جائے۔ جو لوگ صرف زکوٰۃ دینے سے انکار کرتے ہیں انھیں کافر نہ قرار دیا جائے۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو جواب دیا نہ قرآن میں صلوٰۃ اور زکوٰۃ دونوں کو ایک ہی سانس میں بیان کیا گیا ہے ’’اقیمو الصلوٰۃ و آتوالزکوٰۃ‘‘ جس طرح ایک شخص نماز پڑھنے سے انکار کرے تو میں مرتد قرار دینے پر مجبور ہوں۔ یہی معاملہ زکوٰۃ کا بھی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کے اس استدلال کو سارے صحابہ مان گئے۔ اس طرح جو بھی خلفائے راشدین کے زمانے میں اختلا ف ہوا صحابہ اتفاق رائے سے یا کثرت رائے سے مسئلہ کو حل کرلیتے تھے۔ حضرت عثمان غنیؓ کے زمانے میں شورش ہوئی جس کے نتیجے میں صحابہ کے درمیان بعض معاملات میں اتفاق نہ ہوسکا اور جنگ کی نوبت آگئی۔ حضرت معاویہؓ کا زمانہ آتے ہی خلافت کی جگہ ملوکیت نے لے لی۔ اس زمانے میں سیاسی اور دینی دو قسم کی قیادتیں ابھر کر سامنے آئیں۔

قیادت کی تقسیم

’’خلافت راشدہ کی اصل خوبی یہ تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل نیابت تھی۔ خلیفۂ راشد محض راشد (راست رو) ہی نہ ہوتا تھا بلکہ مرشد (راہ نما) بھی ہوتا تھا۔ اس کا کام محض مملکت کا نظم و نسق چلانا اور فوجیں لڑانا نہ تھا بلکہ اللہ کے پورے دین کو مجموعی طور پر قائم کرنا تھا۔ اس کی ذات میں ایک ہی مرکزی قیادت تھی جو سیاسی حیثیت سے مسلمانوں کی سربراہی بھی کرتی تھی او رعقیدہ و مذہب، اخلاق و روحانیت، قانون و شریعت، تہذیب و تمدن، تعلیم و تربیت، اور دعوت و تبلیغ کے تمام معاملات میں ان کی امامت و رہبری کے فرائض بھی انجام دیتی تھی۔ جس طرح اسلام ہر پہلو کا جامع ہے اسی طرح یہ قیادت بھی ہر پہلو کی جامع تھی اور مسلمان پورے اعتماد کے ساتھ اپنی اجتماعی زندگی اس کی رہنمائی میں بسر کررہے تھے۔

سیاسی قیادت

ایک حصہ سیاسی قیادت کا تھا جسے طاقت سے بادشاہوں نے حاصل کرلیا تھا اور چونکہ اسے نہ طاقت کے بغیر ہٹایا جاسکتا تھا نہ سیاسی قیادت بلا طاقت ممکن ہی تھی، اس لئے امت نے بادل ناخواستہ اسے قبول کرلیا۔ یہ قیادت کافر نہ تھی کہ اسے رد کر دینے کے سوا چارہ نہ ہوتا۔ اس کے چلانے والے مسلمان تھے جو اسلام اور اس کے قانون کو مانتے تھے۔ کتاب اللہ و سنت رسولؐ اللہ کے حجت ہونے کا انھوں نے کبھی انکار نہ کیا تھا۔ عام معاملات ان کی حکومت میں شریعت ہی کے مطابق انجام پاتے تھے۔ صرف ان کی سیاست دین کی تابع نہ تھی اور اس کی خاطر وہ اسلام کے اصولِ حکمرانی سے ہٹ گئے تھے۔ اس لئے امت نے ان کی سیاسی قیادت اس حد تک قبول نہ کرلی کہ ان کے تحت مملکت کا انتظام چلتا رہے امن و امان قائم رہے، سرحدوں کی حفاظت ہوتی رہے، اعدائے دین سے جہاد ہوتا رہے، جمعہ و جماعت اور حج قائم ہوتا رہے اور عدالتوں کے ذریعہ سے اسلامی قوانین کا اجراء برقرار رہے۔ ان مقاصد کیلئے صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین نے اگر اس قیادت کی بیعت کی تو وہ اس معنی میں نہ تھی کہ وہ انہی بادشاہوں کو امام برحق اور ان کی خلافت کو خلافت راشدہ و مرشدہ مانتے تھے بلکہ وہ صرف اس معنی میں تھی کہ وہ اس امر واقعی کو تسلیم کرتے تھے کہ اب امت کی سیاسی قیادت کے مالک یہی لوگ ہیں‘‘۔

دینی قیادت

دوسرا حصہ دینی قیادت کا تھا جسے بقایائے صحابہ، تابعین و تبع تابعین، فقہاء و محدثین اور صلحائے امت نے آگے بڑھ کر سنبھال لیا اور امت نے اپنے دین کے معاملہ میں پورے اطمینان کے ساتھ ان کی امامت تسلیم کرلی۔ یہ قیادت اگر چہ منظم نہ تھی۔ اگر چہ اس کا کوئی ایک امام نہ تھا جسے سب نے اپنا مرشد مان لیا ہو۔ اگر چہ اس کی کوئی بااختیار کونسل نہ تھی کہ جو دینی مسائل پیدا ہوں، ان کے بارے میں بر وقت وہ ایک فیصلہ صادر کر دے اور وہ پوری مملکت میں مان لیا جائے۔ یہ سب لوگ اپنی انفرادی حیثیت میں الگ الگ کام کر رہے تھے اور ان متفرق افراد کے پاس اخلاقی اثر و وقار کے سوا کوئی طاقت نہ تھی لیکن چونکہ یہ سب ایک ہی چشمۂ ہدایت … کتاب اللہ و سنت رسولؐ اللہ سے فیضیاب تھے اور نیک نیتی کے ساتھ دینی رہنمائی کر رہے تھے، اس لئے جزئیات میں مختلف الرائے ہونے کے باوجود مجموعی طور پر ان کا مزاج ایک ہی تھا، اور دنیائے اسلام کے گوشے گوشے میں پراگندہ ہونے کے باوجود ان کا پورا گروہ مسلمانوں کو ایک ہی فکری و اخلاقی قیادت فراہم کر رہا تھا۔

دینی اور سیاسی قیادتوں کا تصادم اور تعاون

ان دونوں قسم کی قیادتوں میں تعاون کم اور تصادم یا کم از کم عدم تعاون زیادہ رہا۔ سیاسی قیادت نے دینی قیادت کو اس کے فرائض انجام دینے میں بہت کم مدد دی اور جتنی مدد وہ دے سکتی تھی، دینی قیادت نے اس سے بھی کم اسے قبول کیا، کیونکہ اس مدد کے بدلے میں جو قیمت اسے سیاسی قیادت کو ادا کرنی پڑتی اسے ادا کرنے کیلئے اس کا ایمان و ضمیر تیار نہ تھا۔ پھر خود امت کا حال بھی یہ تھا کہ دینی قیادت کے لوگوں میں سے جو بھی سلاطین کے قریب گیا اور جس نے بھی کوئی منصب یا وظیفہ ان سے قبول کرلیا، وہ مشکل ہی سے قوم میں اپنا اعتماد برقرار رکھ سکا۔ سلاطین سے بے نیازی اور ان کے قہر و غضب کے مقابلے میں ثابت قدمی، مسلمانوں کے اندر دینی قیادت کی اہلیت کا معیار بن گئی تھی۔ اس معیار سے ہٹ کر اگر کوئی اللہ کا بندہ چلا تو قوم بڑی کڑی نگاہوں سے اس کا جائزہ لیتی رہی اور اس کی بزرگی کو اس نے صرف اس وقت تسلیم کیا جب سلطان کے قریب جاکر بھی اس نے دین کے معاملہ میں کوئی مصالحت نہ کی۔ عام مسلمان تو درکنار، خود وہ لوگ بھی جو سیاسی قیادت کے ہاتھ بک چکے تھے اس بات کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہ تھے کہ دین کا امام و پیشوا کسی ایسے شخص کو مان لیں جو انہی کی طرح بک جانے والا ہو یا طاقت سے دب کر احکام دین میں تحریف کرنے لگے۔

اس طرح پہلی صدی ہجری کے وسط سے ہی دینی قیادت کا راستہ سیاسی قیادت کے راستے سے الگ ہوچکا تھا۔ علمائے امت نے تفسیر، حدیث، فقہ اور دوسرے علوم دینیہ کی تدوین اور درس و افتاء کا جتنا کام کیا، حکومت سے آزاد رہ کر اس کی مدد کے بغیر بلکہ بارہا اس کی مزاحمت کے باوجود اور اس کی بے جا مداخلتوں کا سخت مقابلہ کرتے ہوئے کیا۔ صلحاء امت نے مسلمانوں کے ذہن اور ان کے اخلاق و کردار کی تربیت و تہذیب کیلئے جو کام کیا وہ بھی سیاسی قیادت سے پوری طرح غیر متاثر رہا۔ اور اسلام کی اشاعت بھی زیادہ تر انہی بزرگوں کی بدولت ہوئی۔ سلاطین نے زیادہ تر صرف یہ خدمت انجام دی کہ ممالک فتح کرکے کروڑوں انسانوں کو اسلام کے دائرہ اثر میں لے آئے۔ اس کے بعد ان کروڑوں انسانوں کا دائرۂ ایمان میں داخل ہوجانا بادشاہوں کی سیاست کا نہیں بلکہ صالحین امت کے پاکیزہ کردار کا کرشمہ تھا۔

اسلام کا اصل منشا

’’لیکن یہ ظاہر ہے کہ اسلام کا منشا قیادت کی اس تقسیم سے پورا نہیں ہوتا۔ سیاسی قیادت سے الگ ہوکر دینی قیادت نے اسلامی اقدار کے تحفظ کیلئے جو بیش بہا خدمات انجام دیں وہ بلا شبہ نہایت قابل قدر ہیں۔ آج یہ انہی خدمات کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں اسلام زندہ ہے اور امت مسلمہ اپنے دین کو اس کے صحیح خد و خال میں دیکھ رہی ہے مگر اسلام کا ٹھیک ٹھیک منشا تو اسی صورت میں پورا ہوسکتا ہے جبکہ اس امت کو ایک ایسی قیادت میسر ہو جو خلافت راشدہ کی طرح بیک وقت دینی قیادت بھی ہو اور سیاسی قیادت بھی، جس کا سیاسی اقتدار کا اصل مقصد دین ہی کے مقاصد کی تکمیل ہو۔ یہ صورت حال اگر ڈیڑھ دو صدی بھی باقی رہ گئی ہوتی تو شاید دنیا میں کفر باقی نہ رہتا یا اگر رہ بھی جاتا تو کبھی سر اٹھانے کے قابل نہ ہوتا‘‘۔

آج چار اماموں کا فقہ الحمد للہ محفوظ وموجودہے، اس سے مدد لیتے ہوئے اجتہاد اور اجماع قرآن و حدیث کی روشنی میں ہوتا رہتا تو مسلمان فروعات اور خرافات کے پیچھے ہر گز نہیں پڑتا اور نہ ہی جو لوگ قرآن و سنت سے استنباط کرکے دورِ جدید کے نئے ابھرتے مسائل کا حل پیش کرتے ان سے زور آزمائی کا معاملہ درپیش نہیں ہوتا بلکہ امت کا ہر فرد ہر ایک کے ساتھ تعاون کرتا اور آج جو صورت حال امت مرحوم میں دیکھی جارہی ہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگ بدظن و بدگمان ہیں وہ ہر گز بدظن و بدگمان نہیں ہوتے اور غیروں کو بھی قرآن و سنت کی سیدھی راہ نظر آتی۔

تبصرے بند ہیں۔