مزدور

یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن بڑے جوش و خروش سے منایا گیا۔ مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے سرکاری ، نیم سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر مختلف تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔اس طبقے کے ساتھ اظہار ہمدردی کی رسم کو بھر پور طریقے نبھایا گیا ، پھر سے دلاسے دیے گئے ، معقول دیہاڑی کے سبز باغ اس سال بھی دور سے دکھائے گئے۔ان کی ہر طرح کی ضروریات کو پورا کرنے کے عزائم بھی دہرائے گئے۔ ان کے بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں تھمانے کے نعرے بھی بلند کیے گئے۔
اس دن جب اس طبقے کا عالمی دن منایا جا رہا تھا ان کے گھروں پر غربت و افلاس کے گدھ منڈلا رہے تھے ، اس دن بھی اس کے بچوں چہروں پر افسردگی و مایوسی کے ملے جلے تاثرات ابھر رہے تھے اس دن بھی کئی نواب زادے انہیں ڈانٹ پلاتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
مزدور کی اولاد ہے مزدور رہا کر!
مزدوروں کے عالمی دن کی تقریبات پورے زوروں پر تھیں ، ٹی وی شوز پر اشرافیہ طبقے کی چنگھاڑیں میرے کان کے پردے پھاڑ رہی تھیں، مزدور اپنے حقوق کے لیے ان کی جملوں پر کان دھرے بیٹھا تھا،ان کی پروقار تقریبات میں اگرچہ اسے داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی یہ اس دن بھی تقریبات میں مزدور بنا ہوا تھا۔ پھر بھی یہ منتظر تھا کہ میرے حقوق پر بڑھ چڑھ کر دنیا کو پیغام دینے والے میرے حقوق خود کب ادا کریں گے ؟
میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور چودہ صدیاں پیچھے لے گیا۔ میں نے اپنے مزدور بھائی سے کہا کہ دیکھ !یہ شاہ عرب و عجم ، مقصود کائنات، مخدوم ملائک ، محبوب کل جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہے اس کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا ہے ، سامنے بکریوں کا ریوڑ ہے ، عرب کی چلچلاتی دھوپ ، تپتے ہوئے صحراء میں بکریاں چرا رہا ہے۔
صحرا سے نکل کر میں اسے حرم کعبہ میں لے گیا،میں نے اپنے مزدور بھائی سے کہا کہ دیکھ !بیت اللہ کی تعمیر ہو رہی ہے تیرے کام کو عزت بخش کر پتھر کون اٹھا رہا ہے ؟ اس نے کہا کہ یہ تو وہی مبارک ہستی ہے جو کل صحرا میں بکریوں کے ریوڑ کی گلہ بانی کر رہا تھا۔
میں مکہ سے مدینہ آیا یہ مزدور بھی میرے ہمراہ آیا ، میں نے اپنے مزدور بھائی سے کہا کہ دیکھ !یہ قباء کی بستی ہے یہاں اللہ کا گھر تعمیر ہو رہا ہے اس مزدور کو پہچان یہ کون ہے؟ اس نے بغور دیکھا : اور تعجب میں ڈوبتے ہوئے کہا : یہ تو وہی ہے جو کل بیت اللہ کی تعمیر میں مزدوری کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ جانثاروں کا ایک گروہ بھی ہے جو اس کے ایک اشارہ ابرو پر اپنا سب کچھ لٹا دیتے ہیں وہ بھی اس کے ساتھ مزدوری میں برابر کے شریک ہیں۔
قبا سے اٹھ کر میں مدینہ طیبہ آیا۔ میں نے اپنے مزدور بھائی سے کہا کہ دیکھ !یہ وہ مسجد تعمیر ہو رہی ہے جہاں آنے کے لیے تاقیامت لوگوں کے دلوں میں نیک جذبات اور خواہشات مچلتی رہیں گی ، مسجد نبوی۔ وہ مجھ سے دو قدم آگے بڑھا دیکھا کہ عمار بن یاسر کی کمر سے ایک شخص مٹی جھاڑ رہا ہے اس کا اپنا چہرہ گرد آلود ہے اور اس کی زبان سے یہ صدائیں بلند ہو رہی ہیں :
لا عیش الا عیش الآخرۃ
اللھم ارحم الانصار و المہاجرۃ
مزدور اس کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا یہ تو کل قباء کی بستی میں مسجد کے تعمیراتی کام میں جفاکش مزدور کی طرح کام کر رہا تھا۔ہاں یہ وہی ہے جس کی خاک پاء عرش معلیٰ پہنچی ہے۔
میں مدینہ طیبہ سے کچھ باہر ہی طرف نکلا وہ مزدور بھی میرے ساتھ ہو لیا۔ ہم نے دیکھا کہ عرب کے تمام چھوٹے بڑے قبائل مدینہ منورہ پر شب خون مارنے کے لیے پر تول رہے ہیں ، ان کی آنکھوں میں ناپاک عزائم چھلک رہے ہیں وہ مدینہ پر چڑھائی کرنا چاہتے ہیں۔ سردی کی ٹھٹرتی راتیں ، نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا پتہ ،مزمل و مدثر کی کملی والااپنے پیٹ پر تین تین پتھر باندھ کر تین ہزار مزدوروں کو ساتھ لیے خود کدال اٹھائے پورے شہر کے ارد گرد پانچ گز گہری خندق کھود رہا ہے۔اور جو مٹی وہاں سے نکلتی ہے اسے کجھور کے پتوں سے بْنی ہوئی ٹوکریوں میں بھر کر سر پر لادے دور پھینکنے جا رہا ہے۔ ٹوکری سے مٹی چھن چھن کر رخسار و داڑھی مبارک پر پڑ رہی ہے ، بھنویں گرد آلود ہیں۔
میں اپنے مزدوربھائی کو لے کر مدینہ کے سنگ ریز علاقوں کی طرف چلا ، پہاڑوں کے دامن میں ایک شخص کو دیکھا کہ لوہے کا بڑا ہتھوڑا لیے پتھر کوٹ رہا ہے۔ اور کام کرتے کرتے اس کے ہاتھوں کے پوروں سے پانی نکلتا ہے اور پتھریلی مٹی میں مل جاتا ہے۔ کہ اچانک وہاں سے ایک شخص کا گزر ہوا اس نے اس مزدور کا ہاتھ پکڑ کر چوما اور الکاسب حبیب اللہ کا تمغہ اس طبقے کے سینے پر سجایا۔
میں اس مزدور کا ہاتھ پکڑے ایک مجلس میں لے گیا : جہاں صحراء میں بکریوں کے ریوڑ چرانے والا، تعمیر کعبہ میں مزدوری کرنے والا، قباء کی بستی میں مزدوری کو چار چاند لگانے والا ، مسجد نبوی کا معمار ، پیٹ پر تین تین پتھر باندھ کر خندق کھودنے والا ، مزدوروں کے ہاتھوں پر بوسے دینے والا مزدوروں کے حقوق کو بیان کرتے ہوئے کہہ رہا تھا : ان سے ان کی ہمت سے زیادہ کام نہ لو ، ان کی رعایت رکھا کرو، ان کی مزدوری ان کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کیا کرو۔ان پر ظلم و ستم نہ کیا کرو۔
میں مزدور کو ہمراہ لیے اپنی اماں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے پر آیا : اماں جان اپنے شوہر نامدار کے بارے کہہ رہی تھیں : کان فی محنۃ اہلہ فاذا سمع الاذان خرج۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاموں میں لگے رہتے تھے جب اذان کی آواز سنتے تو نماز پڑھنے چل دیتے۔
میں نے اپنے مزدور بھائی سے کہا کہ دیکھ !تیرے پیشے کو عزتیں بخشنے والا اذان کی آواز سن کرنماز پڑھنے چلا جاتا ہے ، تو بھی تو اذان سن کر نماز پڑھی کر!وہ مجھے کہنے لگا : بھائی دل تو میرا بھی چاہتا ہے لیکن میرے حقوق پر تقریبات سے خطاب کرنے والا مجھے اس کی اجازت نہیں دیتا۔

تبصرے بند ہیں۔