فیشن اور نسل نو کی تباہی

عفیفہ مطیع الرحمٰن

ساکی ناکہ (ممبئی)

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

نوجوان نسل ملک و ملت کا ایک قیمتی سرمایہ اور مستقبل کا درخشان ستارہ ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر تحریک نوجوانوں کی جدوجہد سے ہی کامیاب ہوتی ہے۔ لیکن آج نوجوانوں میں انقلابی و تحریکی کاموں کے بجائے فیشن پرستی، بے حیائی، دوسروں کی نقالی اور منشیات کے استعمال کا رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نوجوانوں کی تباہی پوری قوم کی تباہی ہے۔ موجودہ دور کے مسلم نوجوانوں کے پاس سب کچھ ہے مگر افسوس! نہیں ہے تو زندگی کا صحیح مقصد نہیں ہے اور نہ سچا ایمان ہے۔ انھیں اپنے لٹنے کا کوئی افسوس بھی نہیں بلکہ وہ اس مصرعہ کے مصداق ہیں ؂

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

لباس ہو یا طور طریقہ، چلنے کا انداز ہو یا گفتگو کا انداز، ان کی تمام حرکات قابل مذمت اور قابل افسوس ہوتے ہیں ۔ لیکن ان سارے معاملات میں صرف یہ نوجوان ہی قصوروار نہیں بلکہ ان کے والدین کا بھی حصہ شامل ہوتا ہے، جنھوں نے اپنے فرائض سے غفلت برتی اور ان کی تربیت کو قابل توجہ نہ جانا۔ گھر بچوں کی بنیادی تربیت گاہ ہوتی ہے، اس مکتب میں بچوں کے طبعی رجحانات کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں ۔ جن بچوں کی زندگی میں والدین کی غفلت اور بے تدبیری کے سبب غلط قسم کے رجحانات راہ پا جاتے ہیں ، اعلیٰ سے اعلیٰ تربیت گاہ بھی ان کے ذہنی افتاد کو نہیں بدل سکتی۔ سامنے کی بات ہے کہ ہمارے بچے اپنے دین کی اعلیٰ قدروں اور دینی روایات سے بیزار ہیں ۔ ان کے اندر مذہب سے بیگانگی اور شریعت کی پابندی سے اعلانیہ بغاوت ہے۔ انھیں تفریحی مشاغل سے فراغت اور فیشن پرستی سے فرصت نہیں ۔ نمو د ونمائش کے یہ دھندے ان کی جان کا آزار بن گئے ہیں ۔

لڑکیوں کو لڑکے کے شانہ بشانہ ترقی کرنے کی خواہش بے قرار رکھتی ہے۔ وہ ہر کام میں مردوں کی نقالی کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ اپنی نسوانیت کھوتی جارہی ہیں ۔ اسی طرح لڑکے لڑکیوں میں مقبول ہونے کے لئے ان کے نظریات کو پسند کرنے لگتے ہیں ۔ ان کے انداز گفتگو، ان کے فکرونظر میں مردانہ وجاہت باقی نہیں رہتی۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ دونوں اپنے اپنے فطری مقام سے گرگئے۔ بقول شاعر ؂

چلنا تھا جس کو دین کی پاکیزہ راہ پر
وہ قوم بے حیائی کے رستے پر چل پڑی

فیشن کا خاصہ ہے کہ وہ انسانی رویوں کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ اب تو اس فیشن کی وجہ سے نوجوانوں کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ یہ لڑکا ہے یا لڑکی۔ لڑکیاں جینس، ٹی شرٹ میں ملبوس مکمل لڑکوں والا حلیہ بنائے خود پر فخر محسوس کرتی ہیں تو لڑکے ہاتھوں میں کنگن ڈالے، بالوں کی پونی بنائے، کانوں میں بالیاں سجائے صنف نازک کو مات دیتے دکھائی دیتے ہیں ۔ جبکہ آپؐ نے فرمایا:

’’لعنت ہے ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ان مردوں پر بھی جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں ‘‘ (بخاری)

مردوں نے سب سے بڑی غلطی یہ کی ہے کہ فرد اور سماج کی تشکیل میں عورتوں کو اس کا صحیح مقام نہیں دیا، اس لئے سماج میں اس کا مقام اب بھی زیر غور ہے۔ پہلے عورت کو ایک قابل احترام شئے مان کر اسے کسی مذہبی آثار کی طرح درونِ خانہ رکھ دیاگیا تاکہ اس کی بے حرمتی نہ ہو، پھر خیال آیا کہ اسے اس قدر مجبور نہ بنانا چاہئے، اسے بھی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے لذت آشنا ہونے کا موقع دیا جائے۔ اس لئے اسے اس قدر آزادی دے دی گئی کہ وہ گھر سے نکل کر بازاروں میں جا بیٹھی اور مردوں کی عیش پرستی بہترین ذریعہ بن گئی۔ مردوں کی اس لذت آشنائی نے انھیں اس قدر اندھا کر دیا کہ قدیم یونان و روم میں طوائفوں اور بازاری عورتوں کے ہاتھوں میں تہذیب و تمدن کی عنان دے دی گئی اور انھیں زندگی کے اعلیٰ منصب پر فائز کردیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تہذیب و تمدن کی دھجیاں اُڑ گئیں اور ان کا نام صفحۂ ہستی سے مٹ گیا۔

سوشلزم اور جمہوریت کی غلط تعبیر نے عورتوں کے حقوق کی آزادی کے نام پر انھیں غلامی کی ایک اور زنجیر میں جکڑ دیا۔ مثلاً انھیں مردوں کے برابر کارخانوں ، دفتروں اور دنیا کے دوسرے کاروبار میں کام کرنے کی آزادی تو دے دی گئی لیکن بچوں کی پرورش اور گھریلو ذمہ داریاں ان سے واپس نہیں لی گئیں ۔ اس طرح مردوں کے مقابلے میں ان کی ذمہ داری دوہری ہوگئی۔ عورت نے اپنی ذمہ داریوں کو کم کرنے کے لئے ان طبی طریقوں کو جو نسل انسانی کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے ایجاد کئے گئے تھے غلط طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔

عورتوں کو معیشت کی ذمہ داری میں جب مردوں کے برابر شریک کیا گیا تو وہ اپنا سب کچھ کیوں نہ بیچیں ، جبکہ مردوں نے اپنی مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اپنا ایمان بیچ کر جھوٹ ، دغابازی، چوری، رشوت اور دوسرے جرائم کو روا رکھا۔ یہاں تک کہ ہم جنسی اختلاط کو بھی آزادی کا نام رکھ کر ایک جائز عمل قرار دیا۔ مردوں نے عورتوں کو یا تو ضرورت سے زیادہ حقوق دئے یا ضرورت سے کم ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تہذیب و تمدن کی کوئی شکل نہ بن سکی اور فحاشی کی بنیاد گہری ہوتی گئی۔ آرائش و زیبائش کی جدید ترین مصنوعات کو سرمایہ داروں نے اس قدر فروغ دیا کہ اب وہ گھر کے بجٹ کا لازمی جزو بن گیا۔ اس سے عورتوں کی دلنوازی اور کشش غیر فطری حد تک بڑھی اور سوسائٹی میں ایک عورت کو دوسری سے زیادہ پرکشش بننے کا شوق ہوا جس نے مردوں کے جذبات میں اس قدر ہیجان برپا کیا کہ انھوں نے اپنے لذت کی حصولیابی کے لئے عورتوں کو ہوٹلوں ، کلبوں ، رقص گاہوں اور فن کے نام پر ممتاز جگہ دی اور ان سارے حجابات کو اٹھاکر رکھ دیا جو عورت اور مرد کے درمیان پاکیزگی ، احترام اور تقدس کا درجہ رکھتے تھے۔

آج کے مسلم نوجوانوں کو یہ حقیقت معلوم ہی نہیں ہے کہ اس کا وجود اس کی اپنی ملکیت نہیں بلکہش کی امانت ہے۔ لہٰذا اس امانت کی حفاظت کرنا ، اسیش اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق استعمال کرنااور اس سے وہ کام لینا جس کے لئے اس کی تخلیق ہوئی ہے، یہی ان کی زندگی کا مقصد ہونا چاہئے۔ مسلمانوں میں پھیلنے والی فحاشی اور بے حیائی میں جتنا اہم کردار فیشن نے ادکیا ہے شاید ہی کسی نے کیا ہو۔ کیونکہ اسلام نے تو وضع قطع اور طرز زندگی اپنانے میں جو حدود و قیود مقرر کی ہیں ایک مسلمان ان حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی زندگی سنوار سکتا ہے۔ جبکہ فیشن ہر حدود وقیود سے آزاد ہوتا ہے۔ پہلے جن چیزوں کو لوگ اپنانے سے ہچکچاتے تھے ، فیشن کے نام پر ان کو بلاتکلف اختیار کرلیا جاتا ہے۔ اگر فیشن پرستی کی پٹی آنکھوں سے اتار کر دیکھیں تو واضح ہوجائے گا کہ اس فیشن کا مقصد یہی ہے کہ لوگوں کے اندر سے شرم وحیا کو ختم کرکے بے حیائی کو فروغ دیا جائے۔ بقول اقبال ؂
وہ حیا جو کل تلک تھی مشرقی چہرے کا نور
لے اُڑی اس نکہتِ گل کا یہ تہذیب فرنگ

انسان نے ظاہری جسم کے نقصان کو تو پہچان لیا مگر اس نے روح کی بیماریوں سے نگاہیں پھیر لیں ۔ وہ نماز یں ترک کرتا ہے، روزہ چھوڑتا ہے، سگریٹ پیتا ہے، جام چھلکاتا ہے، جھوٹ بولتا ہے اور مختلف برائیوں میں ملوث ہوکر اسلامی احکامات توڑتا ہے اور نہ جانے کیا کیا اسلام مخالف کام کرتا ہے۔ دن بھر کی مصروفیات سے تھک کر سکون تلاش کرتا ہے ٹی وی، انٹرنیٹ میں ، لیکن انھیں یہ نہیں معلوم کہ حقیقی سکون اگر ہے تو صرف اللہ کی یاد میں ۔ ان کا جو حلقۂ احباب ہوتا ہے وہ اکثر غیرمسلم، بداخلاق، بدکردار دوستوں کا ہوتا ہے اور انہی کے زیر اثر ہمارے یہ مسلم نوجوان ہوتے ہیں ۔ نبی کریمؐ سے کسی نے پوچھا کہ بہترین ساتھی کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا:

’’ وہ شخص جو تمھیں نیک کام کرتے ہوئے دیکھے تو تمھاری مدد کرے اور برا کام کرتے ہوئے دیکھے تو تمہیں تنبیہہ کرے‘‘۔
نوجوان نسل خود اپنی فطرت کے حدود کو پھاند جانے کی وجہ سے تباہ و برباد ہورہی ہے۔ ان پر مغربی تہذیب کا غلبہ اس قدر ہے کہ خاندانی نظام کے ساتھ وہ سارے رشتے بھی بے معنی ہوگئے ہیں جن رشتوں کے سہارے ہمیں اپنے دکھ سکھ میں بہترین رفیق مل جاتے ہیں جو بے ضرر، غمخوار ار بے غرض دوست ہوتے ہیں ۔ خاندانی نظام کے ختم ہوتے ہی ان رشتوں کی رفاقت و محبت سے انسان محروم ہوجاتا ہے۔

مغرب کی اس تباہ کاری کے نتیجہ میں شرم وحیا، ہمدردی، محبت، ادب، غم گساری، شفقت ان سب اخلاقی قدروں کو زبردست نقصان پہنچا اور آدمی انسانیت کے مقام سے کافی نیچے گر گیا۔ خاندانی نظام انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اور یہ بہت سی اخلاقی قدروں کا ازخود محافظ ہے۔ چنانچہ جن جن ملکوں میں مغربی تہذیب کے زیر اثر خاندانی نظام کو درہم برہم کیا گیا وہاں انسانی نسلیں سخت مشکلات میں مبتلا ہوگئیں اور بچے گھروں کی پُر محبت فضا سے محروم ہوگئے، جہاں ان کے اندر سے انسانی صفات کم سے کم تر ہوتی جاتی ہیں وہ ذرا بڑے ہوتے ہیں تو آوارہ جانوروں کی طرح گلیوں اور بازاروں میں پھرتے ہیں اور جرائم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ غرض جن ملکوں اور قوموں کا جائزہ لینا ہو وہاں کی گھریلو زندگی کو دیکھ لینا کافی ہے۔جو حالت گھر کی ہوگی وہی حالت ملک کی بھی ہوگی۔ جو افراد اپنی گھریلو زندگی میں ایک دوسرے کے وفادار نہ ہوسکیں اور ایک دوسرے کے لئے ایثار کرنا نہ سیکھیں گے وہ ملک و قوم کے مصائب کے لمحات میں کس طرح مشقت اور قربانی برداشت کرسکیں گے۔ گھریلوزندگی کسی قوم کی زندگی کا صحیح پیمانہ ہے۔ گھر اگر انتشار کا شکار ہوگا تو نسلیں لازماً تباہ وبرباد ہوں گی۔ پھر اس گھریلو زندگی کی اخلاق سے عاری ادب نے خاص کردار ادا کیا ہے۔ اس کی مدد سے اقدار کو بدلا گیا اور اخلاق کو تباہ کرنے کے لئے حیوانی فلسفوں کو پھیلایا گیا۔ ضبط ولادت کی تحریکیں چلیں ، امراض خبیثہ کی کثرت ہوئی، بدکاری روزمرہ کا معمول بن گئی اور بدکاروں کے لئے سوسائٹی میں کوئی رکاوٹ نہ رہی بلکہ اسے وسیع النظری، فیشن اور جدیدیت قرار دیا جانے لگا۔

انگریزوں کو اپنی ڈیڑھ سو سالہ دور میں کبھی اتنی جرأت نہ ہوئی کہ اس ملک کے باشندوں کی معاشرت میں براہ راست دخل دے سکیں ، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ ایک نہایت نازک مسئلہ ہے جو لوگوں کی غیرت وحمیت کو بھڑکا دینے والا ہے۔ اس لئے انھوں نے مسلم معاشرہ میں ہر جگہ مخلوط تعلیم میں اضافہ کیا۔ ہر جگہ رقص و سرود کی محفلیں کثرت سے منعقد کرائیں ۔ اندرون ملک ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعہ بے حیائی کو عام کیا۔ہر ملک میں آرٹ کو نسلوں کے نام سے ناچنے گانے کے ادارے قائم کئے گئے جن کے سر پرست سرکاری حکام تک بن گئے۔ اسلامی تعلیمات کے فروغ پر کچھ صرف کرنے کے بجائے بھاری رقوم آرٹ کو نسلوں جیسے اسلامی تہذیب کے منافی اداروں پر کی جانے لگی۔ معصوم لڑکیوں اور لڑکوں کو ہر جگہ ناچ گانے کی تعلیم دی جانے لگی اور موقع بے موقع ڈراموں کے ذریعہ لڑکوں اور لڑکیوں کو ایسے کاموں کی تعلیم و ترغیب دی جانے لگی جو حیا سوز بھی تھے اور اخلاق سوز بھی۔ انتہا یہ کہ جابجا تعلیمی نصاب کو بھی اس طرح مرتب کیا گیا کہ اس میں ناچ گانے اور ثقافتی سرگرمیوں کی گنجائش رکھی گئی تاکہ اگر موقع مل جائے اور یہ قوم اگر ان سرگرمیوں کو برداشت کرلے تو پھر آہستہ آہستہ انھیں پوری طرح سے شرم وحیا اور اخلاق و آداب اور اسلامی جذبات و حسیات سے عاری کردیا جائے۔ ان سرگرمیوں کے نتیجے میں مسلم معاشرے میں ہر جگہ غنڈہ گردی، بداخلاقی، فحش کاری اور طلاق کے واقعات بڑھ گئے اور محسوس ہونے لگا کہ مسلمانوں کے بڑے لوگوں نے حکومت کی قوت ، دولت اور اثر ورسوخ کو جن کاموں پر صرف کیا تھا اب اس کے نتائج برآمد ہونے لگے ہیں ۔

عورتوں کے لئے اسلام نے جس کردار کی تصویر کشی کی ہے اور جس قسم کا مطلوبہ کردار حضور اکرمؐ نے اس وقت اسلامی سوسائٹی میں تیار کرکے عملاً دکھایا تھا وہ اس سے قطعی مختلف ہے جو مغربی تہذیب پیدا کرتی ہے۔ یہ تہذیب عورتوں کو ذلیل و خوار کرتی ہے۔ عورت کے لئے اسلام کے دائرہ کار کی تخصیص اس آیت سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور زمانۂ جاہلیت کی طرح سج دھج نہ دکھاتی پھرو‘‘۔ (سورہ الاحزاب۔ ۳۳)

یہ ایک ہی آیت عورت کے میدان کو واضح طور پر متعین کردیتی ہے۔ یہ آیت گویا اس کی تفسیر حیات اور میدان جدوجہد کا ایک خوبصورت عنوان ہے، جس نے عورت اور مرد کی حدودِکار کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی ہے۔ دونوں اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کے مختار اور ذمہ دار ہیں ۔ دونوں کا باہمی ٹکراؤ نہیں ہے، بلکہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں ۔ ایک خارجی معاملات کا ذمہ دار ہے تو دوسرا داخلی معاملات کا اورعورت کے لئے داخلیت کو ہی پسندیدہ قرار دیا گیاہے۔ یہ وہ ساری روایات ہیں جو اسلامی سوسائٹی کے اندر عورت کے لئے موجود ہیں ۔ یہ گویا ایک سانحہ ہے جس کے اندر اسلامی خاتون کا مجسمہ ڈھلتا ہے اور وہ محض ’’ایک عورت‘‘ سے ’’ایک مؤمنہ‘‘ بنتی ہے۔

غرض کہ ایک مؤمنہ خاتون کے کردار کا بہترین خاکہ اسلام میں موجود ہے۔ عورت بیوی کی حیثیت سے سلیقہ شعار خاتون ہوتی ہے جو اپنے گھر کو دولت سے نہیں بلکہ اپنے سلیقہ سے سجاتی ہے اور ایمان کی دولت سے مالامال کرتی ہے۔ وہ مشکل میں صبر کرتی ہے اور فراخی مین شیخی و تکبر کرنے کے بجائے اپنے مالک کا شکر ادا کرتی ہے۔ ایک مؤمنہ بیوی کی حیثیت سے جہاں اس کے فرائض بے شمار ہیں تو اس کا مقام بھی نہایت معزز ہے۔ اب تک ہما ری تہذیب اور گھریلو ماحول میں تھوڑی بہت اسلامی یا نیم اسلامی اثرات محفوظ ہیں اسے کلی طور پر جاہلی اور غیراسلامی ہونے سے خواتین ہی نے بچایا ہے۔ہماری بہنیں جو آنے والی نسلوں کی معمار ہیں ، ہماری تہذیب کی جڑ ہیں اگر وہی اسلامی تعلیمات سے دور ہوکر فیشن کے دلدل میں پھنس جائیں گی تو آنے والی نسلوں کی کس طرح سے تربیت کرسکتی ہیں ۔ یاد رکھئے ! اولاد دولت سے زیادہ ہمارے لئے قیمتی ہے لہٰذا ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے، کیونکہ جس راستے میں سب سے کم خطرہ ہے وہ ہمارے گھر کا راستہ ہے۔ اس لئے اپنے گھر کو خوشی و مسرت کا گہوارہ بنانے کی کوشش کریں اور ایسی ہر عادت جو ہماری اولاد کو بگاڑنے کا ذریعہ بن سکتی ہے اس کو چھوڑ دیں ۔ یہ یاد رہے کہ تربیت کے بیج تلخ ہوتے ہیں مگر ان کے پھل ہمیشہ شیریں ہوتے ہیں ۔ ایک مسلمان خاتون اگر اپنا یہ فرض احسن طریقے سے انجام دے اور اولاد کی تربیت کا حق ادا کردے تو اسلامی معاشرہ پھر سے مضبوط و مستحکم بن جائے گا۔ نسلوں کو مضبوط اور امانتدار بنانے کے لئے صحیح اسلامی تربیت کی شدید ضرورت ہے۔ اسی میں ساری دنیا کی بھلائی ہے تاکہ وہ پاکیزہ کردار کے مالک بنیں ،کیونکہ قوم کی خوش حالی اور ترقی کا راز مضبوط اور پاکیزہ اخلاق میں پوشیدہ ہے۔

زمانہ جیسے جیسے آگے بڑھتا جائے گا نوجوانوں کی حیثیت اور اہمیت بھی بڑھتی جائے گی۔ تحریکوں کو کام یابی سے ہم کنار کرنے کے لئے ہمیشہ نوجوانوں نے ہی نمایاں کردار ادا کیاہے۔ ان کے اندر بے پناہ صلاحیتیں ہوتی ہیں ۔وہ میدان کارزار میں شکست کو فتح میں بدلنے کی قوت رکھتے ہیں ۔ یہ نوجوان ہی ہیں جو ہر تحریک کے لئے امید کی واحد کرن ہوتے ہیں ۔ اسی کرن کے سہارے تحریکیں آگے بڑھتی ہیں اور اہداف کے مختلف منازل طے کرتی ہیں ۔ یہ طبقہ تبھی قوم و ملت کے لئے کارگر ثابت ہوسکتا ہے جب ان کی آبیاری بہتر طریقے سے کی جائے اور ان پر خصوصی تو جہ مرکوز کی جائے تو یہ ملت کے لئے سایہ دار اور ثمرآور درخت بن سکتا ہے۔ جب ملت کا ہر طبقہ تربیت و اصلاح کے لےئے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لانے کا تہیہ کر لے تو نوجوان نسلوں کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ میں آجائے گا اور وہ اپنی زندگی کو یوں برباد کرنے کے بجائے دین و ملت پر قربان کرنا زیادہ پسند کریں گے۔
اس لئے ضروری ہے کہ تمام مسلمانوں کو فیشن کے دلدل سے نکالنے کے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے۔ان کے سامنے فیشن پرستی کے نقصانات کا ذکر کیا جائے ، سنت نبویؐ پر عمل کرنے کا ثواب اور اس کے مثبت اثرات سے انھیں واقف کرایا جائے۔ فضول خرچی اور اسراف کے سلسلے میں ش اور اس کے رسولؐ کی بیان کردہ وعیدیں سنائی جائیں ۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کو خود ہی غور کرنا چاہئے کہ اگر وہ اسی طرح گناہوں کے دلدل میں خوار ہوتے رہے اور گناہوں کا انبار لے کر اندھیری قبر میں اتر گئے تو یاد رکھئے شدید ترین عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔

خواتین بھی فیشن کی ریس میں آگے نکلنے کے بجائے خود بھی بچیں اور اپنی ساتھی خواتین کو بھی بچائیں ۔ رشک کرنے کی چیز لباس اور زیور نہیں بلکہ اخلاق اور اعمال صالح ہیں اور خراب نہ ہونے والی سب سے چمکدار اور معطر چیز اخلاق و اعمال ہی ہوتے ہیں کیونکہ یہ تہذیبوں کا تصادم ہے اس میں مسلم خواتین کو اپنا تاریخی فرض ادا کرنا ہوگا۔ اس کے لئے محنتیں ،مشقتیں ، اوقات، مال اور جانیں لگانی ہونگی، اس کے لئے ہمیں راستہ ہموار کرنا ہوگا۔ بقول شاعر ؂

نہ آئے گی ، نہ آئے گی نظر صورت ترقی کی
نہ ہونگے ہم جو میدان عمل میں رونما بہنو!

اللہ سے دعا ہے کہ ہمارا کردار اور اخلاق و عمل ان خواتین کے کردار و عمل کا نمونہ بن جائے اور ہمیں بھی اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق اولاد کی صحیح تربیت اور دین کی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔