فیشن

 ڈاکٹر شمس کمال انجم

ٹرن ٹرن ٹرن ٹرن۔ مولانا ساجد صاحب کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ مولانا نے اپنا موبائل اٹھایا تو دیکھا کہ واٹس اپ کال ہے۔ انہوں نے اپنے انگوٹھے سے اس کے گرین بٹن کو پش کیا اور بولے۔ السلام علیکم

جی حضرت وعلیکم السلام۔ میں محمد اکرم عرض کررہا ہوں سعودی عرب مکہ مکرمہ سے۔

جی جی! جانتا ہوں۔ آپ کا نام میرے موبائل میں سیو ہے۔ مولانا ساجد نے کہا۔

کیسے ہیں آپ؟ امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔ محمد اکرم نے پوچھا

الحمد للہ میں بخیر ہوں۔ آپ کیسے ہیں ؟ مولانا ساجد نے جوابا پوچھا اور کہا اچھاہوا آپ نے فون کرلیا۔ آپ سے بات کرنے کی طبیعت چاہ رہی تھی۔

الحمدللہ، اللہ کا شکر واحسان ہے۔ میں بھی بعافیت ہوں۔ میں بھی کافی دنوں سے آپ سے بات کرنا چاہتا تھا مگر فرصت نہیں مل پارہی تھی۔ محمد اکرم نے کہا

فرصت نہیں مل پارہی تھی۔ مولانا ساجد نے تعجب سے پوچھا۔ اور فرمایا۔ میں تو جب بھی فیس بک کھولتا ہوں تو آپ کی وال پر، دوسروں کی وال پر آپ کا کوئی نہ کوئی کمنٹ ضرور نظر آتا ہے۔ میں آپ کو اکثر وبیشتر فیس بک پر دیکھتا ہوں۔ اور آپ کہتے ہیں کہ فرصت نہیں مل رہی تھی۔

ہاں کبھی کبھی موقع مل جاتا ہے تو وطن سے دوری کے غم کو غلط کرنے کے لیے فیس بک کا سہارا لے لیتا ہوں۔ محمد اکرم نے کہا۔

نہیں نہیں اکرم صاحب! بات یہ ہے کہ فیس بک پر آپ کی کثرت حاضری کو دیکھ کر مجھے اکثر خیال آتا ہے کہ آپ وہاں کیا کام کرتے ہیں کہ آپ اکثر فارغ رہتے ہیں۔ فیس بک پر لمبے لمبے کمنٹ لکھتے رہتے ہیں۔ وہ بھی پہلے بڑے اادب کے ساتھ السلام علیکم لکھتے ہیں۔ پھر خیریت دریافت کرتے ہیں پھر کمنٹ فرماتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں۔ آپ موبائل استعمال کرتے ہیں یا ٹیب۔ یا لیب ٹاپ۔ آپ کتنی جلدی جلدی ٹائپ کرتے ہیں اور کمنٹ لکھ بھیجتے ہیں۔ ماشاء اللہ۔ مولانا ساجد جو کہ منافقت سے کوسوں دور تھے۔ دعوت وتبلیغ ان کا مشن تھا۔ انہیں لوگوں کو نصیحت کرنے کی عادت سی پڑ گئی تھی۔ وہ بڑے مخلص اور محترم شخص تھے۔ ان کے دل میں جو ہوتا تھا وہی زبان پر۔ باتیں وہ کڑوی کرتے تھے مگر ان کی باتیں سیدھی دل میں گھر کر جاتی تھیں۔ سو انہوں نے حسب عادت محمد اکرم کو بھی جو سوچا تھا سب کہہ ڈالا۔

نہیں حضرت !آپ تو جانتے ہیں کہ میں جموں وکشمیر میں ایک پرائیویٹ ہائر سکنڈری اسکول میں اردوپڑھاتاتھا۔ پڑھاتا کیا تھا۔ آل ان ون تھا۔ یا یوں کہیے کہ جامع العلوم تھا۔ کوئی ٹیچر غائب ہوتا تو پرنسپل صاحب مجھے کہتے جاؤارنجمنٹ کے طور پراس کلاس میں پڑھاؤ۔ دفتر کا کلرک نہیں آتا تو کہتے کہ فلاں درخواست ٹائپ کرکے لے آؤ۔ فلاں لیٹر تیار کرکے لاؤ۔ لطف کی بات یہ کہ اگر کوئی پروگرام ہوتا تو پرنسپل صاحب جو کہ اتفاق سے شاعر بھی تھے اور بہترین ادبی ذوق کے حامل بھی مجھے کہتے محمد اکرم آج تمہیں نعت بھی پڑھنی ہے اور وہ بھی میری ہی نعت۔ کبھی کبھی میں سوچتاکہ میں بہت ساری خصوصیات کا حامل ہوں۔ میں بڑا کام کا آدمی ہوں۔ میں اسکول کے لیے اور اسکول میرے لیے لازم ملزوم سے ہوگئے ہیں۔ مگر جب مہینے کی پانچ تاریخ کو دس ہزار روپے ملتے تو مجھے ایسا لگتا جیسے میں جامع الصفات نہیں کوئی بندھوا مزدور ہوں۔ شدید محنت کے بعد جوپیسے ملتے ہیں وہ بچوں کی تعلیم میں ہی خرچ ہوجاتے ہیں۔ گھر کے اخراجات پورے ہی نہیں ہوتے۔ پھر ایک دن کسی دوست نے مجھے اس جاب کے بارے میں بتایا۔ میں نے ویزا خریدا اور اللہ پاک کے محبوب شہر مکہ مکرمہ میں چلا آیا۔ ابھی ایک سال ہی ہوئے ہیں۔

ماشاء اللہ ماشاء اللہ۔ آپ کتنے خوش نصیب ہیں کہ آپ کو اس دیار پاک میں کام کرنے، روزی روٹی کمانے اور زندگی کے خوب صورت ایام گزارنے کا موقع ملا۔ آپ تو جانتے ہیں لوگ کئی کئی لاکھ روپے خرچ کرکے حج وعمرہ کے لیے جاتے ہیں۔ میں فیس بک پر آپ کی سرگرمیوں کو دیکھ کر اکثر سوچتا ہوں اکرم صاحب توہیں بھلے آدمی۔ خوش خصال بھی ہیں۔ دینی مزاج کے حامل بھی ہیں۔ انہیں حرم پاک میں رہنے کاموقع توملا ہے مگر وہ ہیں کہ سارا وقت فیس بک پر صرف کررہے ہیں۔ فیس بک تو میں جانتا ہوں۔ آپ یہ بھی بتائیے کہ واٹس اپ کے کتنے گروپوں میں شامل ہیں۔ وہاں بھی آپ اچھا خاصہ وقت صرف کرتے ہوں گے۔ روزانہ پچیس پچاس میسج تو لکھتے اور بھیجتے ہوں گے۔ ارے جناب اس وقت کو غنیمت سمجھیے اور حرم پاک میں رہائش کو مغفرت کا ذریعہ بنائیے۔ ٹائم ملے تو جائیے طواف کیجیے۔ ایسی عبادت دنیا میں اور کہیں نہیں ملے گی۔ مزیدوقت ملے تو دو دو رکعت نفلیں پڑھیے۔ ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے۔ آپ جانتے ہیں نا۔

جی جی حضرت ! آپ بالکل بجا فرمارہے ہیں۔ میں نے تو کبھی سوچا ہی نہیں کہ میں فیس بک پر کتنا وقت ضائع کرتا ہوں۔ واٹس اپ پر کتنا ٹائم فضولیات کے میسج دیکھنے اور پڑھنے میں لگاتا ہوں۔ اگر یہی وقت حرم پاک میں عبادت، تلاوت، ذکر واذکار اور طواف کعبہ میں لگاؤں تو کیسے میری عقبی سدھر سکتی ہے۔

ارے اکرم صاحب بات یہ ہے کہ اس سوشل میڈیا نے ہمارے ہر عمل میں ریاکاری بھر دی ہے۔ ہم نے حج وعمرے کی ادائیگی کو بھی فیشن بنالیا ہے۔ ایک دن میں نے دیکھاآپ نے غالبا عمرہ کی ادائیگی کے وقت احرام کی حالت میں سیلفی لے کر اپنے فیس بک پر پوسٹ کیے ہوئے تھے۔ آپ ہی نہیں اب تو میں دیکھتا ہوں اکثر وبیشتر لوگ حج وعمرے کے ایک ایک ارکان کی سیلفی لے کر پوسٹ کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حج وعمرہ محض فیشن اور ریاونمود کا ذریعہ بن گیا ہے۔ میں نے پڑھا ہے مشکوۃ شریف کی حدیث ہے اللہ کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جس نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا۔ اللہ تعالی نے زکاۃ دینے والوں کے بارے میں قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ وہ زکاۃ بھی دیتے ہیں اور ڈرتے بھی رہتے ہیں کہ کہیں ان کی زکاۃ قبول ہوئی یا نہیں۔ اللہ کے نیک بندے اپنی عبادتوں کی شو بازی نہیں کرتے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ دائیں ہاتھ سے اس طرح ادا کرو کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ آپ ہی بتائیے کیا احرام کی حالت میں، کعبے کے پاس، مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھتے ہوئے، صفا مروہ کی سعی کرتے ہوئے، منی میں کنکری مارتے ہوئے، عرفات میں دعا کرتے ہوئے یا جبل رحمت پر چڑھتے ہوئے سیلفی لینا، فوٹو کھنچانا اور پھر اسے واٹس اپ اور فیس بک پر اپ لوڈ کرنا ریاکاری اور فیشن کے ضمن میں نہیں آتا؟۔ کتنی محنت اور مشقت کے بعد حج اور عمرے کی ادائیگی ہوتی ہے مگر محض ایک دکھاوے کی تصویر کے لیے ساری محنت ریا کے ضمن میں داخل ہوکر اکارت نہیں ہوجاتی؟ آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی کو ایسی عبادت پسند ہے جس میں ریا ونمود کا شائبہ تک نہ ہو۔ آپ کبھی شب تاریک میں، اپنے اندھیرے کمرے میں ایک بار سجدہ کرکے دیکھیے ایسا لگے گاخالق کائنات آپ کے پاس ہے۔ آپ کی ایک ایک دعا پر آمین کہہ رہا ہے۔ اور ہم ہیں کہ اتنے اہم فریضے کی ادائیگی کی طویل تمنا کے بعد جب خالق کائنات کے گھر پہنچتے ہیں تو اپنی عبادتوں میں لہو ولعب کو شامل کرکے سب کچھ اکارت کردیتے ہیں۔ حج وعمرہ کے ایک ایک ارکان کا فوٹو  لے کرسوشل میڈیا پرپوسٹ کرتے ہیں۔ کم پڑھے لکھوں کی بات جانے دیجیے۔ اب تو سفر حرمین کی روداد لکھنا اور سفرنامۂ حج قلمبند کرنا بھی ایک فیشن بن گیا ہے۔ بعض اہل علم وقلم ایسے بھی ہیں جو حج وعمرہ کی ادائیگی اور اپنی ایک ایک عبادت کی ایک ایک جزئیات کی تصویر کشی کرتے ہیں کہ ہم نے یہ کیا وہ کیا۔ اتنے بجے طواف کیا۔ اس طرح حجر اسود کو بوسہ دیا۔ اس طرح سعی کی۔ فلاں دکان پر حلق کرایا۔ کنکری یوں ماری اور یوں ماری۔ نماز ایسے پڑھی ویسے پڑھی۔ یہاں پڑھی وہاں پڑھی۔ جیسے کہ اگر وہ یہ باتیں نہیں لکھیں گے تو ان کی علمیت میں کوئی کمی آجائے گی یا پھر ان کی عبادت کی قبولیت اس کے بغیر ناممکن ہے۔

مولانا ساجد بے تکان بول رہے تھے اور محمد اکرم خاموشی سے سن رہے تھے اور مولانا کی ایک ایک بات کی تصدیق کررہے تھے۔ اپنا جائزہ لے رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ میں کہاں دیار ہند میں خار پھر رہا تھا۔ دن رات محنت کے بعد مشکل سے مہینے کے آخر میں دس ہزارروپے ہاتھ آتے تھے جو بال بچوں کے اسکول کی فیس میں ہی خرچ ہوجاتے تھے۔ اب اللہ نے مجھے ایسی ملازمت دی ہے جس میں مجھے کام کم کرنا پڑتا ہے اور تنخواہ زیادہ ملتی ہے۔ اس پر بجائے اس کے کہ میں اللہ کا شکرادا کروں اور مسجد حرام میں جاکر بچے ہوئے وقت کو عبادتوں میں صرف کروں میں فیس بک اور واٹس اپ کی زیارتوں میں لگا ہوا ہوں۔

ہیلو! ہیلو! مولانا نے سمجھا کہ جیسے فون ڈسکنکٹ ہوگیا ہے اور وہ یوں ہی بڑبڑائے جارہے ہیں۔ مگر تیسر ی مرتبہ انہوں نے کہااکرم صاحب! تو محمد اکرم جیسے نیند سے بیدار ہوگئے ہوں۔ انہوں نے کہا جی حضرت آپ کی بات میں سن رہا ہوں۔ مجھے اپنی کوتاہی کا احساس ہوگیا ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیردے۔ امید ہے پھر ملیں گے۔ اپنا خیال رکھیے گا۔ السلام علیکم۔ اور فون ڈس کنکٹ ہوگیا۔

تبصرے بند ہیں۔