فیض احمد فیض

ڈاکٹر غلام قادر لون

(حدی پورہ، رفیع آباد، کشمیر)

انہیں کے فیض سے بازار عقل روشن ہے

 جو گاه گاه جنوں اختیار کرتے رہے

فیض احمد فیض کے بارے میں سچ یہ ہے کہ وہ ترقی پسند تھے، مگر ملحد نہ تھے۔ ان کی پیدائش سیالکوٹ کے ایک مذہبی گھرانے میں 13؍ فروری 1911ء کو ہوئی تھی۔ گھر میں دینی ماحول تھا۔ افراد خانه صوم و صلوۃ کے پابند تھے اور قرآن حکیم کی تلاوت کی جاتی تھی۔ بچپن میں فیض احمد فیض اپنے والد سلطان محمد کے ساتھ محلے کی مسجد میں فجر کی نماز باجماعت اداکرتے تھے۔ نماز کے بعد مسجد کے امام مولوی محمد ابراہیم سیالکوٹی کے درس قرآن میں گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ شرکت کرتے تھے۔ فیض نے مولوی صاحب سے قرآن حکیم کے تین پارے حفظ کیے تھے۔ انھوں نے ایک مرتبہ انٹرویو کہا کہ انھیں اس کا قلق ہے کہ انہوں نے پورا قرآن حفظ نہیں کیا۔ فیض نے جس ماحول میں پرورش پائی تھی، اس نے انھیں اپنی جڑوں سے کٹنے نہیں دیا۔ اسی ماحول کا اثر تھاکہ وہ آخری دم تک اپنی دینی اور تہذٰبی روایات سے دور نہیں ہوئے۔ انہوں نے خود اپنے بارے میں کہا ہے:

’’ہماری تو ساری کی ساری تربیت خالص دینی ماحول میں ہوئی اور میری شاعری کا میرے مذہبی عقائد سے کوئی تضاد نہیں۔‘‘

فیض کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ وہ نجی صحبتوں میں قرآن حکیم اوراحادیث سے بے محابا استدلال کرتے تھے۔ انھوں نے انگریزی اور عربی میں ایم اے کیا تھا، فارسی ادب سے بھی آگاہ تھے۔ انھیں تصوف سے لگاؤ تھا۔ وه لاہور کے باب ملنگ اور دوسرے صوفیوں سے بھی خاصے متاثر تھے۔ ایک مرتبہ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صوفیا حقیقی معنوں میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ وہ اشتراکی تھے۔ اس لیے ان کا صوفیا سے متاثر ہونا حیرت انگیزنہیں۔ صوفیا بھی ’تیرا‘ اور ‘میرا’ یا ’میرے لیے‘  اور ’تیرے لیے‘ کے قائل نہیں ہوتے۔ ان کے یہاں بھی اشتراکیوں کی طرح ذاتی ملکیت اور من وتو کا تصور نہیں ہوتا۔ فیض نے تصوف کی کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ وہ کبار صوفیا کی تصانیف سے متاثر تھے۔ حیدر آباد (سندھ) کے جیل میں جہاں وہ  جولائی 1953 تک دو سال قید رہے، ان کے ساتھ میجر محمد اسحاق بھی اسیر تھے۔ وہ فیض کے مجموعۂ کلام ‘زندان نامہ’ کے مقد مے میں‘رو دارقفس’ کے تحت لکھتے ہیں:

’’حیدر آباد میں ان کا درس و تدریس عجیب متنوع قسم کا تھا۔ کوئی قرآن مجید اور حدیث شریف کا درس لے رہا ہے تو کوئی صوفیائے کرام کی فتوح الغیب، کشف المحجوب، احیاء العلوم وغیرہ کے رموز ونکات سمجھ رہا ہے۔ کوئی انگریزی اور اوریوروپین ادب کی الجھنیں پیش کر رہا ہے، تو کسی نے مارکسی جدلیاتی فلسفے پر بحث شروع کر رکھی ہے۔ اردو اور فارسی ادب تو تکیۂ کلام تھا۔ حیدر آباد میں ہم نے ان کوشاگرد کے رول میں بھی دیکھا ہے۔ پوشنی کے ساتھ مل کر سید سجاد ظہیر سے فرانسیسی سیکھا کرتے تھے۔‘‘

مذہب سے فیض کی وابستگی کا اندازہ لگانے کے لیے یہ واقعہ کافی ہے۔ ان کے والد نے ان کے ان گاؤں میں ایک مسجد تعمیر کروائی تھی۔ فیض اس کی مرمت کے لیے جتنا ممکن تھا، رقم بھیجتے رہتے تھے۔ وفات سے کچھ دن پہلے وہ اپنے گاؤں گئے۔ مغرب کی نماز کا وقت تھا۔ فیض نے امام سے اجازت مانگی کہ وہ نماز پڑھائیں گے۔ امام صاحب پہلے تو حیران ہوئے پھر انہوں نے خوشی خوشی اجازت دے دی۔ چنانچہ فیض نے امامت کی اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔

فیض نے اپنے کلام میں جو استعارے برتے ہیں اور جن تلمیحات کا استعمال کیاہے وہ ہماری تہذیب کا سرمایہ ہیں۔ انہوں نے منصور کے ان الحق  کوانقلالی نعرے کی حیثیت دی۔ حضرت حسین کا شاندار مرثیہ لکھا۔ وہ سب سے زیادہ حضرت رسالت مآب ؐ سے متأثر تھے۔ انہوں نے آخری وقت میں فارسی میں جو نعت لکھی ہے، اس کے آخری شعر یہ ہیں :

آتش فشان زقہر و ملامت زبان شیخ

از اشک ترز درد غریبان ردائے تو

 باید کہ ظالمانِ جہاں را صدا کند

روزے بسوئے عدل و عنایت صدائے تو

(ترجمہ: شیخ اپنی زبان سے قہر و ملامت کی آگ برسا رہا ہے۔

جب کہ آپؐ کی چادر غریبوں کے درد پر آپ کے آنسوؤں سے تر ہو رہی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھر کے ظالموں کو ایک روز پکارا جائے

کہ وہ آپ کے عدل و عنایت کی پکار پر لبیک کہیں۔)

فیض کی یہ نعت ‘نسخہ ہائے وفا’ کا اختتامیہ ہے۔ ملامتی صوفی اس رمز سے آگاہ تھ کہ کن کے نام پاک ایک کی مدح سے اپنے کلام کا اختام ہونا چاہیے۔ یہ ان کا آخری کلام ہے؎

خدا کا شکر یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا

اسی بلندنام کی برکت کی بدولت فیضؔ کی زندگی کا یہ پہلو سامنے آیا ہے، جو اکثر قارئین کی نگاہوں سے اب تک اوجھل رہا ہے۔

2 تبصرے
  1. ایس . امین الحسن کہتے ہیں

    ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب کا یہ مضمون فیض احمد فیض کی زندگی کے ایک نادر گوشے کی پردہ کشائی کرتا ہے۔ وہ ترقی پسند تھے مگر ملحد نہ تھے۔ انہیں قرآن سے شغف تھا ، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں گہری عقیدت اور محبت تھی۔ اسلامی اصطلاحات کو انہوں نے اپنی نظموں میں انقلابی نعرے کے طور پر استعمال کیا۔ مسجد کی تعمیر کے لۓ اپنی رقم‌ خرچ کرتے رہے اور ایک دن نماز کی امامت بھی کی۔‌ ان‌ نۓ پہلوؤں کو سامنے لانے پر ڈاکٹر صاحب کا شکریہ۔

  2. محمد زکی کر مانی کہتے ہیں

    غلام قادر لون کا شکریہ کہ فیض کا تعارف یوں بھی ہوا اور وہ گوشے واہوے جن پر پردہ پزا ہوا ہے اللہ فیض کی غلطیوں کو معاف فر مائے

تبصرے بند ہیں۔