فیک (جعلی) نیوز کا بڑھتا جال اور ہماری ذمہ داری

سید صفوان غنی

فیک نیوز کیا ہے:

 ’’سپریم کورٹ کا فیصلہ الحمداللہ مسلمانوں کے حق میں آیا ہے۔ عدالت نے تین طلاق کے خلاف دائر کی گئی عرضی کو خارج کر دیا ہے۔ ‘‘

یہ اعلان مسجد میں محض اس بنیا د پر کر دیا گیا کہ یہ’نیوز‘‘ کسی نے مسجد کے ذمہ دار کو واٹس اپ پر فارورڈ کی تھی۔ اعلان کسی دور دراز کے گائوں دیہات میں نہیں بلکہ پٹنہ شہر کی پڑھی لکھی آبادی میں موجود مسجد میں کیا گیا۔ حالانکہ بعد میں مسجد کے ذمہ دار نے اس خبر کے جعلی ہونے کی وضاحت کر دی لیکن وہ لوگ جو تردید کے وقت موجود نہیں تھے انہوں نے اس غلط خبر کو صحیح ہی مانا ہوگا۔

 حالیہ سالوں میں فیک نیوز یا جعلی خبر ایک وبا کی طرح ہمارے درمیان پھیل گئی ہے۔ ہم لا شعوری طور پر اس کا شکار ہوتے جارہے ہیں ۔ فیک نیوز کو اصل نیوز سمجھ لینے کی کئی وجوہ ہیں ۔ ان وجوہ کو جاننے سے پہلے فیک نیوز کا ڈیفنیشن جان لیں ۔ کیمبرج ڈکشنری میں اس کی تعریف یہ ہے:

False stories that appear to be news, spread on the internet or using other media, usually created to influence political views or as a joke

کیمبرج کی یہ تعریف ادھوری ہے اور اس میں کئی اہم مقاصد جو فیک نیوز کے ہوتے ہیں وہ شامل نہیں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آکسفورڈ نے ابھی تک ’فیک نیوز‘ کو ڈیفائن نہیں کیا ہے۔ آکسفورڈ کی ایک سینیر ایڈیٹر کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ دو لفظ ابھی ارتقائی مراحل میں ہے اس لئے اسے آکسفورڈ میں شامل نہیں کیاگیا ہے۔ www.Dictionary.com اپنے نئے اپڈیٹ میں فیک نیوز کا ایک بہتر ڈیفنیشن دینے جا رہا ہے۔ Time.com کے مطابقDictionary.com اپنے نئے ورژن میں فیک نیوز کو یوں ڈیفائن کرے گا:

False news stories, often of a sensational nature, created to be widely shared online for the purpose of generating ad revenue via web traffic or discrediting a public figure, political movement, company, etc.

  فیک نیوز کا مقصد کسی خاص سیاسی نظریہ یا کسی معروف شخصیت کی تشہیر،  تحقیرکے علاوہ پیسہ کمانا بھی ہوتا ہے۔ بہت ساری ایسی ویب سائٹس ہیں جو فیک نیوز کے ذریعہ پیسہ کماتی ہیں ۔ ہوتا یہ ہے کہ ان ویب سائٹس کے چلانے والے ایسی فوٹو، ہیڈلائن،  ٹویٹ یا فیس بک پوسٹ لگاتے ہیں جس سے قاری کو دلچسپی پیدا ہواور وہ اس پر دی گئی لنک(URL)پر چلا جائے۔ جتنے زیادہ لوگ ایک ویب سائٹ وزِٹ کریں گے اتنا ہی زیادہ اس ویب سائٹ کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔ ویب سائٹ کی مقبولیت کے حساب سے ایڈ ملتے ہیں اور ان ایڈ کی بدولت پیسہ کمایا جاتا ہے۔

ہندوستان میں فیک نیوز:

ایسانہیں ہے کہ فیک نیوز کا استعمال صرف ہندوستان میں ہوتا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے صدارتی کیمپین کے وقت فیک نیوز کی بہت مدد لی تھی۔ ہندوستان میں فیک نیوز کا کاروبارحالیہ ایک دو سال میں بہت زیادہ بڑھا ہے۔ اس کی ایک و جہ انٹرنٹ کے استعمال کا اچانک سے بڑھ جانا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق لوگ اب ٹی وی ایک ہفتہ میں اوسطً چار گھنٹے دیکھتے ہیں اور موبائل  28 گھنٹے استعمال کرتے ہیں ۔ ہندوستان میں فیک نیوز کا استعمال بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ چونکہ یہاں اکثر لوگ ناخواندہ یا نیم خواندہ ہیں اس لئے ہر چیزجو انہیں واٹس اپ یا فیس بک پربھجی جاتی ہے وہ اسے سچ مان لیتے ہیں ۔ فیک نیوز کا شکار صرف عام لوگ نہیں ہوتے بلکہ سیاسی رہنما، آفیسرس اورصحافی حضرات بھی بعض دفعہ ایک جعلی نیوز کو شیئر کر بیٹھتے ہیں ۔ بلکہ اب تو فیک نیوز کو کئی سیاستداں اور صحافی جان بوجھ کر پھیلاتے ہیں ۔ اس کا مقصد حکومت کو بدنام کرنا بھی ہو سکتا ہے اور اس کی چاپلوسی کرنا بھی۔ پچھلے چند مہینوں کے درمیان پھیلائی گئی چند فیک نیوز دیکھیں :

1)  نوٹ بندی کے دوران ایک نیوز جو واٹس اپ پر خوب گردش میں تھی وہ دو ہزار کے نوٹ میں نینو جی پی ایس چِپ کے تعلق سے تھی جس میں کہا گیا تھا کہ دو ہزار کے نوٹ میں ایک ایسی چِپ لگی ہے جس سے اسے ٹریس کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی اس نوٹ کو زمین کے اند ر بھی رکھے گا تو حکومت کو اس کا علم ہو جائے گا۔ اس غلط خبرکو مین سٹریم کے کچھ نیوز چینلز نے بھی گھنٹوں چلایا۔ یہاں تک کہ آربی آئی کو اس خبر کی تردید کرنی پڑی۔

2)  اسی سال مئی میں جھارکھنڈ کے کچھ گائوں میں بچہ چور گینگ کی افواہ واٹس اپ پر پھیل گئی۔ لوگ اتنے خوفزدہ تھے کہ انہوں نے بچوں کو اسکول جانے اور شام میں باہر کھیلنے تک سے روک دیا۔ انتہا تو تب ہو گئی جب سات بے قصور لوگ بچہ چوری کے الزام میں مار دیے گئے۔

3)  برمی مسلمانوں کے قتل و خون اور انخلا کا سلسلہ چل ہی رہا تھاکہ ہندوستان آئے روہندگیا مسلمانوں کو حکومت ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ بتانے لگی۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا اور مین اسٹریم میڈیا اسے ہندومسلم ایشوبنانے میں لگ گیا۔ ٹویٹر، واٹس اپ،  فیس بک اور چند ہندوتوا وادی نیشنل نیوز چینلز جیسے رپبلک، زی نیوز اور ٹائمس نائو پر فیک نیوز پھیلائی گئی جس میں یہ کہا گیا کہ’’ روہنگیا دہشت گرد‘‘میانمار کے ہندوئوں کو تشدد کا نشانا بنارہے ہیں ۔

 مضمون کی طوالت سے بچنے کے لئے یہاں صرف فیک نیوزکی تین مثالیں دی گئیں ہیں ۔ ایسی بے شمار فیک نیوز حالیہ مہینوں میں پھیلی یا پھیلائی گئی۔

فیک نیوز سے کیسے بچیں :

 فیک نیوز سے پورے طور پر بچنا مشکل ہے۔ ہاں احتیاط سے کام لیا جائے اور سوشل نیٹ ورکنگ کا صحیح استعمال پتہ ہو تو بچا جا سکتا ہے۔ نیچے فیک نیوز سے بچنے کے کچھ طریقے دیے جا رہے ہیں جن کا ہمیشہ خیال رکھیں :

1)  واٹس اپ پر آئے کسی بھی فارورڈڈ میسج پر فوراً یقین نہ کریں ۔ خاص کر تب جب کہ اس میسج میں کسی شخص کی بہت زیادہ تعریف یا بہت زیادہ تنقیص کی گئی ہو۔ اس کے علاوہ کسی نئی سرکاری اسکیم، سرکلر، نوٹیفکیشن والے میسج کسی اور کو فارورڈ کرنے سے پہلے دوبارہ جانچ لیں ۔ فیک نیوز پھیلانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی خاص شخص کو نشانہ بنا کر اس کے خلاف میسج چلا دیا جاتا ہے یا فیک سرکلر جاری کر دیا جاتا ہے۔ ایسے میسج آنے پرآپ اس خبر کے کچھ خاص الفاظ کے ساتھ متعلقہ شخص، سرکلر وغیرہ کے کچھ اہم الفاظ گوگل کر لیں اور گوگل سرچ میں جو شروعاتی نتائج آئیں ان میں سے قابل اعتماد لنک کو کھول کر دیکھ لیں ۔ قابل اعتماد لنک وہ ہے جو کسی جانے مانے اخبار، ویب پورٹل یا مشہور معروف شخص کا بلاگ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر دو ہزار کے نوٹ میں نینو جی پی ایس چپ ہونے کی خبرکوئی آپ کے واٹس اپ پر بھیجے تو گوگل میں یہ ٹائپ کر سکتے ہیں :

 nano gps chip 2000 note”ــ”

ٓگوگل سرچ میں آئے ان رزلٹ میں سے کسی ایک Indianexpress.com, altnews.in, hindustantimes.com, thehindu.com, newslaundry.com, thequint.com, scroll.in, thewire.in, firstpost.com, thenewsminute.com, کو کھول لیں ۔ مذکورہ مشہور اور قابل اعتماد ویب سائٹس پر آپ اس خبر کی متعلق جان سکتے ہیں ۔ واضح ہو ان کے علاوہ بھی بہت ساری ویب سائٹس ہیں لیکن زیادہ یاد رکھنا مشکل ہے پھر ان میں فیک ویب سائٹس بھی ملی ہوتی ہیں اس لئے فی الحال ان دس ویب سائٹس کو ذہن نشیں رکھیں ۔

اسی طرح اگر روہنگیا ہندوئوں کے قتل عام کا سچ جاننا ہو تو گوگل پر ان میں سے کسی بھی ایک طریقہ سے سرچ کر سکتے ہیں :

rohingya hindu, rohingya hindu scroll.in, hindus in rohingyaدی گئی دس ویب سائٹس میں سے کسی ایک پر یا مزید جاننا چاہتے ہوں تو ان دس میں دوسری ویب سائٹس پر جاکربھی دیکھ سکتے ہیں ۔

2)  بعض دفعہ ایک ایسی فوٹو فیس بک یا عام طور پر واٹس اپ پر شیئر کی جاتی ہے جو بعد میں فوٹو شوپڈ(تحریف شدہ)نکلتی ہے۔ اس کو جانچنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی فوٹوآپ کو موبائل یا کمپیوٹر پر ملے اسے ڈائون لوڈ کر لیں ۔ پھر اس فوٹو کو image.google.comپر اپلوڈ کر دیں ۔ وہ فوٹو انٹرنٹ پر جہاں جہاں موجود ہوگی گوگل سرچ کرکے بتا دے گا۔ اگرفوٹو کی صرف لنک ہو تو اسے بھی گوگل ایمیج میں ڈال سکتے ہیں ۔

3)  ہمارے درمیان ٹویٹر واٹس اپ اور فیس بک کے مقابلہ کم مقبول ہے۔ ایک وجہ اس کا استعمال کا نہیں جاننا ہے اور دوسری وجہ فیس بک اور واٹس اپ میں زیادہ دلچسپی کا ہونا ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ٹویٹر پر کسی معروف شخصیت کی ٹویٹ ہمیں فوٹویا ا سکرین شاٹ کی شکل میں بھیجتاہے۔ اور ہم اسے واقعی میں اس شخص کی ٹویٹ سمجھ کر آگے فارورڈ کر دیتے ہیں ۔ اس طرح جو بات اس شخص نے نہیں کہی تھی وہ لوگوں کے درمیان گردش کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ پہلے تو ٹویٹر چلانا سیکھا جائے۔ اگر آتا ہو تو متعلقہ شخص کی ٹویٹ خود ٹویٹر پر جاکر دیکھیں ۔ کوئی ٹویٹر اکائونٹ حقیقت میں اسی شخص کا ہے یہ اس کے نام کے بغل میں لگی بلو ٹِک سے پتہ چلتا ہے۔ کسی بھی ویریفائڈ(بلو ٹک والے) اکائونٹ کی ٹویٹ ہی اس شخص کی ذاتی رائے ہوتی ہے۔

4)  ہندوستان میں فیک نیوز کے خلاف تین ویب سائٹس زبردست کام کر رہی ہے:

(1) altnews.in  (2) smhoaxslayer.com  (3)boomlive.in

ان تینوں ویب سائٹس کو ہمیشہ وِزٹ کرتے رہیں ۔ خاص کر اَلٹ نیوز نے اپنے شروعات کے ہی پانچ چھ مہینوں میں سیکڑوں فیک نیوز کا پردہ فاش کیا ہے۔ اَلٹ نیوز کے بانی پراتیک سنہا ہیں ۔ ان کے والد مُکل سنہا نے گجرات فسادات کی بہت ساری اصلیت سامنے لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ پراتیک پیشے سے سافٹ ویر انجینیر تھے لیکن اب ملازمت چھوڑ کر دو اور لوگوں کے ساتھ اَلٹ نیوز چلا رہے ہیں ۔

بوم لائیو کا ایک واٹس اپ نمبر ہے جو انہوں نے دے رکھا ہے۔ اگر کوئی خبر جعلی لگے تو اسے آپ ان کے نمبر 7700906111پر واٹس اپ کر سکتے ہیں ۔

آخری بات:

  فیک نیوز کا کاروبار جس تیزی سے پھیل رہا ہے اس پر مکمل روک لگا پا نا تقریبا ناممکن ہے۔ اس کے نقصانات سے بچنے کے لئے انٹرنٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ کا صحیح استعمال جاننا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ کچھ روز قبل واٹس اپ کے ایک گروپ جس میں پڑھے لکھے لوگ موجود تھے ایک میسج آیا۔ میسج کچھ یوں تھا:

’’گڈ نیوز۔ آخر کسی نے کچھ تو شروع کیا۔ مشکل میں پھنسے مسلمانوں کے لئے ہیلپ لائن کھولا ہے راشٹروادی مسلم منچ نے۔ پہلے ہی دن 742 کال آئے ہیں ۔ اگر کسی مسلم لڑکی کو کوئی لڑکا پریشان کر رہا ہے تو اسے کیسے بچائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

آگے کچھ ہیلپ لائن کے طور پر موبائل نمبر درج تھے۔ لوگوں کی لا علمی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے بنا سوچے سمجھے اس میسج کو آگے بھیجنا شروع کر دیا۔ مسلم راشٹریہ منچ آر ایس ایس کی مسلم شاخ ہے۔ لوگوں کو آر ایس ایس کے دام میں پھنسانے کے لئے یہ حربہ اپنایا گیا تھا۔ اس میں کہیں پر بھی آر ایس ایس کا نام نہیں تھا تاکہ لوگوں کو شک بھی نہ ہو۔

غلط تنظیم سے جوڑنے کی کوشش بھی فیک نیوز کی مدد سے کی جاتی ہے۔ اس معاملہ میں ہندوتوا وادی تنظیمیں اب زیادہ متحرک ہو گئی ہیں ۔ باضابطہ ایک آئی ٹی سیل ہوتا ہے جہاں سے فیک خبریں پھیلائی جاتی ہیں ۔ ہماری اور آپ کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ خود کو اور اپنے متعلقین کو فیک نیوز سے آگاہ رکھیں ۔ کسی بھی خبر پر آنکھ بند کر کے یقین نہ کر یں اور نہ ہی فورا فارورڈ کریں ۔

’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم نادانستہ کسی قوم کا نقصان کر بیٹھو پھر تمہیں اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے‘‘۔ (الحجرات: 6)

’’جو شخص جان بوجھ کر کوئی مشکوک خبر بیان کرے، تو وہ بھی جھوٹے لوگوں میں شامل ہے‘‘(صحیح مسلم)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔