قابل رشک موت

جناب مطیع الرحمٰن نظامی اس حالت میں دارقضا سے دارِ جزا کے لئے رخصت ہوئے کہ وہ اپنے مالک حقیقی سے راضی تھے ۔ ان کا رب بھی یقیناً ان سے راضی ہوگا۔ یوں جرأت اور قربانیوں سے عبارت زندگی کے مرحلۂ اول کا خاتمہ شہادت پر ہوا۔ جس نے مرحلۂ اول کے بامراد و مقبول ہونے پر مہرتصدیق ثبت کردی اور یہی شہادت مرحلۂ آخرکی کامیابی کی ضامن بھی بنے گی۔ انشاء اللہ، جناب مطیع الرحمٰن کی موت نے ان کی زندگی کو با اعتبار بنا دیا، اس طرح ان کی زندگی اور موت دونوں قابل رشک ہوگئیں، شہادت کی تمنا کو ایمان کی نشانی کہا گیا ہے اسی لئے اس کی آرزو کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مومن کی زندگی کو جنت کے عوض خرید لیاگیا ہے، شہید کےبارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ کبھی مرتا نہیں ہے۔ شہید کی موت قوموں کی رگ وپے میں مانند لہو دوڑتی رہتی ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ شہید کی موت قوموں کی زندگی ہوتی ہے۔ اس کو یہ عظمتیں ، رفعتیں اور بلندیاں اس لئے حاصل ہیں کہ اس کی زندگی دیوانگیٔ شوق کا مجسم نمونہ ہوتی ہے، وہ جانتا ہے:

یہ شہادت گہہ اُلفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

اس کی زندگی مشکلات لاالٰہ کی عقدہ کشا ہوتی ہے، وہ اس لئے کہ اس پر یہ راز منکشف ہوچکا ہوتا ہے :

چومی گویم مسلمانم بہ لرزم

کہ دانم مشکلات لالہ را

یہ ایک سلسلۃ الذہب ہے، جناب مطیع الرحمٰن نظامی اس کی تازہ کڑی کے بطور ہمارے سامنے ہیں، وہ متاع گراں مایہ تھے جو ایک گنجینہ بن گیا تھا، اس طرح کی زندگی اور موت کو ایک سوداکہا گیا ہے اور اس سودے پر ماتم کرنے کو نہیں بلکہ خوشیاں منانےکو کہا گیا ہے۔

رسولوں اور نبیوں کو جو نشانیاں دی جاتی رہی ہیں ان کی بہ اعتبار مصرف بھی مختلف تعبیریں ہیں اور بہ اعتبار نوع بھی، ایک تعبیر یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ وہ بجائے خود ایک آزمائش ہوتی ہیں، خود ان کی زندگیاں بھی آزمائش ہوتی ہیں، ان کی ذات اور نشانیوں کے تئیں قوم کے رویے پر اس کی کامیابی وناکامی، مقبولیت و استرداد کا انحصار ہوتا ہے ۔ رسالت و نبوت کا سلسلہ تو بند ہوگیا لیکن ان کی تعلیمات (ھدی و دین حق) تو موجود ہیں ، اب وہی مقام انھوں نے اور ان تعلیمات کو زندہ ونافذ کرنے والوں کی زندگیوں نے حاصل کرلیا ہے۔ جناب مطیع الرحمٰن نظامی کی شہادت نے ایک سوال یہ بھی کھڑا کردیا ہے کہ کیا حاکم وقت کی سفاکی، جبر اور کینہ و حسد اس قسم کے انتہائی اقدام کا واحد سبب ہے یا اس ڈور کا سرا اور بھی کہیں ہوتا ہے، آج کے تناظر میں تو یہ سوال زیادہ برمحل ہوجاتا ہے اس لئے کہ کہا جاتا ہے کہ آج حاکم وقت کو ظالم وجابر بننے سے روکنے کے زیادہ اورپختہ تر انتظامات موجود ہیں، کہنے کو اس پر مختلف حلقوں اور گوشوں سے ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا گیا ہے اس کے باوجود بنگلہ دیش کی حکومت نے جس ’’جرأت ‘‘کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے اس سوال کو مزید تقویت پہنچا دی ہے کہ کیا اس کے پیچھے محض ذاتی انتقام کا جذبہ کارفرما ہے یا یہ کسی بڑی اور ہمہ جہت منصوبہ بندی کا حصہ ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ مکر جتنا گہرا، وسیع الاطراف اور ہمہ گیر ہوگا اس کے توڑ کو اس سے کہیں زیادہ عمیق، وسیع الاطراف اور ہمہ گیر ہونا چاہئے اسی طرح اس کے فسوں کو توڑا جاسکتا ہے ۔ یہ کام فکرونظر کی وسعت اور گہرائی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔