امریکا سے دوستی کتنا سچ کتنی خوش گمانی!

امریکہ کے بارے میں ہمارے ’دیش بھکتوں‘ اور وطن کے نیشنلسٹ (قوم پرست) عناصر کو یہ خوش گمانی ہے کہ وہ بھارت کا ایسا دوست ہے جس پر کسی تذبذب و تردد کے بغیر بھروسا کیا جاسکتا ہے۔ ان کا یہ خیال ہے کہ امریکہ پر بھروسا کرنے میں ہی ہمارا قومی مفاد وابستہ ہے اور امریکہ سے وہ یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے دکھ سکھ کا ساتھی ہے اور بنے گا، یہ اس کی ایک ضرورت ہے۔ ان کی  اس خوش گمانی یا ایسا سمجھنے کی ایک بظاہر بہت ’مضبوط‘ بنیاد ہے اور وہ بنیاد ہندوستان کی قدرتی، جغرافیائی، سیاسی، بشریاتی (انسانی آبادی) اور اقتصادی حالت ہے۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ ہندوستان (یعنی یہ خطہ) ہمیشہ سے توسیع پسندانہ عزائم اور عالمی طاقت بننے کا خواب رکھنے والی اقوام کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ وسائل اور بے پناہ امکانات کے سبب بھی اس نے اقوام عالم کی توجہ  اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ ’یہاں کچھ تو ایسا ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں وقت کے طاقتور سلطانوں ،  عظیم سپہ سالاروں، بادشاہوںاور ملتوں نے یہاں کا رخ کیا۔ اپنی فوجی مہمات یا دوسری مہم جویانہ سرگرمیوں کی انجام دہی کے لئے اس کا انتخاب کیا۔ ان میں سے کچھ نے تو اسے پامال کیا تو بعض ایسی بھی تھیں کہ جنھوں نے اسے اپنا مستقر ومسکن بنایا اور اسی بنا پر اسے سنوارا سجایا، اس کی عزت وتوقیر میں اضافہ کیا۔ یہ دوبالکل مختلف رویے دراصل دو مختلف بلکہ متضاد تصور کائنات (کون ومکاں)’ورلڈ ویو‘ کا عکس ہیں۔ ایک رویہ حیات انسانی کو ایک ایسے نظریے کے تابع کرنے کی وجہ سے پروان چڑھا ہے جس کا سرا اس طاقت کے پاس ہے جس کا کوئی ہمسر نہیں جبکہ دوسرا رویہ اس سوچ اور خیال کا عکس ہے جو انسانی زندگی کو اس کی اپنی مرضیات کے تابع رکھنے پر زور دیتا ہے۔

دور جدید میں بھی ہندوستان کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ ظاہر ہے اس کے بھی اپنے اسباب ہیں، سرد جنگ کے زمانے میں بھی ہندوستان  بوجوہ دونوں عالمی طاقتوں کی ضرورت بنا رہا۔ جب ملک آزاد ہوا اس وقت دنیا میں دو مادی نظریات کا دور دورہ تھا، ایک طرف نظریہ سرمایہ داری تھا تو دوسری طرف  اشتراکی نظریہ تھا۔ چونکہ آزادیٔ وطن کے بعد ملک کی باگ ڈور جن عناصر کے ہاتھ میں آئی ان میںایک  نہایت مؤثر طبقہ وہ تھا جس کا جھکائو اشتراکیت کی طرف تھا، لہٰذا اس نے روس(سابق سوویت یونین) کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا لیکن نظریہ سرمایہ داری کے سب سے بڑے علمبردار امریکہ کو بھی وہ بربنائے مصلحت ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس طبقے کی شاید سب سے بڑی نظریہ ساز شخصیت کے اپنے بھی کچھ عزائم تھے۔ ہندوستان اور عالمی نظام کے بارے میں وہ بھی اپنی ایک سوچ رکھتی تھی لہٰذا اس نے ’غیر جانبداری‘ کا اصول اپنایا، اس بنیاد پرجو نیا عالمی گروپ تشکیل دیا گیا اس میں اس شخصیت کا بہت اہم کردار تھا۔ یہ پالیسی ابتداء میں تو کارگر ثابت ہوئی لیکن آہستہ آہستہ یہ سوچ دو وجوہ سے تحلیل ہوگئی۔ ایک وجہ تو یہ ہوئی کہ یہ گروپ دور اندیش اور مضبوط قوت ارادی کی حامل لیڈر شپ سے محروم ہوگئی اور دوسری وجہ یہ ہوئی کہ خود اس گروپ کے بڑے لیڈروں پر بھی اشتراکی فلسفے کی چھاپ تھی، جس کا فطری نتیجہ یہ ہوا کہ یہ گروپ حقیقی معنیٰ میں غیر جانبدار نہیں رہ سکا۔ اس نے نقب زنی کی راہ کھلی رکھی اور دونوں طرف سے شب خون کا سلسلہ جاری رہا، جس نے اس گروپ کی آزادانہ اجتماعی ہیئت کو بری طرح مجروح کردیا جو اب تقریباً بے اثر ہوکر رہ گیا ہے۔

یہ اس صورتحال کا نتیجہ تھا کہ اس گروپ میں شامل ہر ملک اپنے ’قومی مفادات‘ کے دفاع اور تحفظ کے لئے اپنے طور پر قدم اٹھانے پر مجبور ہوگیا تھا۔ اس کی اپنی ایک اجتماعی آواز تو تھی مگر وہ اتنی نحیف اور اس قدر ناتواں تھی کہ کسی دبائو کو برداشت کرنے کی اس میں کوئی قوت تھی اور نہ صلاحیت، اس لئے جب جب اس پر کوئی دبائو پڑتا وہ مزاحمت کی منشا تو ضرور ظاہر کرتا لیکن دبائو کی شدت کو بالکل برداشت نہیں کرپاتا اور ٹوٹ جاتا تھا۔ یہی اس گروپ کی اب تک کی کہانی ہے۔ اس گروپ کا ہر ملک تختۂ مشق بنا ہوا ہے جو فی الواقع مشق ستم ہے۔ بڑی طاقتیں ان سے بڑی آسانی سے اپنا مطلب پورا کرالیتی ہیں۔ ہندوستان اس گروپ کا ہر پہلو سے مضبوط ترین ملک تھا اور ہے۔ اپنے قدرتی اور انسانی وسائل کے لحاظ سے بھی، اپنی واقعی اور بالقوہ صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی، آبادی  کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہونے کے ناطے بھی کافی اہمیت کا حامل تھا۔ آج تو یہ اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ غیر جانبدارتحریک کا یہ روح رواں تھا اسے اپنی اس حیثیت کو نہ صرف بحال رکھنا چاہئے تھا بلکہ اس گروپ کو توانا اور فعال بنانے کی کوشش بھی کرنی چاہئے تھی تاکہ عالمی سطح پر طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی،مگر اس معاملے میں اس کی کارکردگی نہایت درجہ افسوسناک رہی ہے۔ جب ہندوستان جیسے  ملک کے بازو آسانی سے مروڑے جاسکتے ہیں تو دوسروں کی کیا حیثیت اور انہیں کون خاطر میں لاتا ہے۔ اس کے باوجود  ہمارے ’دیش بھکتوں‘ اور قوم پرست عناصر کاحال یہ ہے کہ وہ امریکہ پر مرمٹنے کے لئے ہمہ دم تیار رہتے ہیں، ان کے لئے امریکہ کی طرف سے ہندوستان کے بارے میں یہ اعلان باعث افتخار و انبساط ہے کہ امریکہ اور ہندوستان اسٹریٹجک پارٹنرز ہیں۔

کسی مستحکم، پائدار، مؤثر، فعال نیز ایک مقصد سے گہری وابستگی رکھنے والی ہیئت اجتماعی کے فقدان کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ اس گروپ میں شامل ممالک انفرادی طور پر اپنے مفادات کا کامیاب دفاع کرپاتے ہیں اور نہ گروپ کے اجتماعی مفادات کا تحفظ کرپاتے ہیں۔ اس بکھرائو کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے مظاہرے آئے دن ہوتے رہتے ہیں، جس کی تازہ مثال ابھی ابھی ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز کے ساتھ امریکہ میں پیش آنے والا واقعہ ہے، جس پر امریکہ کی ایک عدالت نے 940 ملین امریکی ڈالر کا جرمانہ عائد کیا ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ہمارے ’دیش بھکت‘ اور نیشنلسٹ عناصر جس کو قومی مفادات اور وقار کا نام دیتے ہیں اس کو ٹھیس پہنچانے والے واقعات اکثر و بیشتر ہوتے رہتے ہیں ، جن پر وقتی طور پر احتجاج کرکے بھلا دیا جاتا ہے ، لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے، دوسرا رخ یہ ہے کہ امریکہ اور اس جیسی دوسری بڑی طاقتیں بھی جو کچھ کرتی ہیں وہ بھی اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے نام پر کرتی ہیں۔ اس ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز والے معاملے میں بھی یہی کیا گیا ہے۔ امریکہ کی طرف سے یہی جواز پیش کیا گیا ہے۔ امریکی عدالت سے ایک امریکی کمپنی اے پک سسٹمز(Epic Systems) نے عدالت سے یہ فریاد کی کہ بھارتی کمپنی نے اس کے مفادات کو ٹھیس پہنچائی ہے جس کی وجہ سے اس کو نقصان پہنچا ہے اور آئندہ بھی اس کا اندیشہ ہے اس لئے اس کا ازالہ کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ قومی مفادات  کے ٹکرائو کا معاملہ ہے۔ دراصل یہ قومیت کے نظریے پر مبنی استوار کئے جانے والے نظام کا شاخسانہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نظریے کا یہ خاصہ ہے کہ ہر قوم اپنا بھلا چاہے، دوسری قوم یا اقوام کے فائدے سے وہ کوئی سروکار نہ رکھے۔ اس سے باہر نکلنے کی فقط ایک ہی صورت ہے وہ کہ انسانی بنیادوں پر رشتوں کو استوار کیا جائے۔ قومی شناخت کو ٹکرائو کا نہیں بلکہ مفاہمت کا ذریعہ بنایا جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔