قانون شریعت کو بدلنے نہیں دیں گے!

ڈاکٹر سلیم خان

انڈین مسلم فور سیکولر ڈیموکریسی کے زیر اہتمام مسلم پرسنل لاء بورڈ کوبے نقاب کرنےکی خاطر بلائی جانے والی پریس کانفرنس  کا دعوتنامہ حیرت انگیز تھا  کیونکہ  بورڈ نقاب  نہیں اوڑھتا۔ اس  سعی ٔبے نقابی پر غور کرنے پر احساس ہوا کہ جو ہندوستانی مسلمان (انڈین مسلم) لادینی جمہوریت  بمعنیٰ سیکولر  ڈیموکریسی کے علمبردار ہوں ان سے اور کیا توقع کی جائے؟  اہل مغر ب کے ان مستعار نظریات  کااہل ایمان  سے  کیا تعلق ؟  مسلمان  جیسی  دیندار امت  لادینی افکار کی حمایت کیسے کرسکتی ہے ؟ جہاں تک اقتدار اعلیٰ  کا سوال ہے اسلام عوام کی نہیں  بلکہ  اللہ کی حاکمیت اور انسانوں کی خلافت  وشورائیت  کا قائل ہے۔  ایسے میں ہندوستانی مسلمانوں کو جھانسہ دے کر یا فسطائی قوتوں کا خوف  دلا کر ان باطل نظریات کے لیے استعمال کرنا (جو ان کے دین و عقائد  سے ٹکراتے ہوں) نادانی یا فریب  نہیں تو اور کیا ہے؟  اس تحلیلِ تشخص میں  چونکہ شریعت آڑے آتی ہے اس لیے درپردہ اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔جرأتمندی کا فقدان  شریعت مطہرہ کو مسترد کرنے کے بجائے  اس میں تجدید (ریفارم) کی   حیلہ سازی  کرتا ہے۔  بقول شاعر؎

کہاں سے فتنہ اٹھتا ہے ، کہاں نفرت پنپتی ہے

سمجھ لیتے ہیں سب لیکن نظر انداز کرتے ہیں

اللہ  تبارک و تعالیٰ اپنے چنندہ بندوں کو جدوجہد کی ترغیب  دیتے ہوئے فرماتے  ہیں ’’ اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے اُس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ‘‘۔ دین کی  وسعت وکشادگی امت مسلمہ کو کسی اور نظریہ  مثلاً لادینیت ، جمہوریت، فسطائیت، اشتراکیت، قوم پرستی اور مابعد جدیدیت  وغیرہ کی محتاجی سے بے نیاز کردیتی ہے۔ اس کے بعد فرمایا’’قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام "مسلم” رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) ‘‘۔  ہر مسلم کے لیے لازم ہے کہ حضرت ابراہیم ؐ کی صفت یکسوئی کو اپنا کر   اورسارے باطل نظریات کا انکار  کر کے دین حنیف کو اپنا لے۔  اس دین پر قائم ہونے کے تقاضے آیت مذکورہ کے آخری حصے میں اس طرح بیان ہوئے ہیں ’’تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ‘‘ دیگر عبادات سے قبل اسلام کی دعوت و شہادت کا ذکر اس کی اہمیت کا غماز ہے اور پھر فرمایا’’پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ ۔  وہ ہے تمہارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار‘‘۔ اللہ سے وابستگی ، ولایت اور نصرت مومنین کو طاغوتی طاقتوں   کے جاہ و جلال اور غیض و غضب سے بے خوف کردیتا ہے۔

وہ امت جس کے دین میں کوئی  تنگی نہیں  اس  کے لیے قرآن حکیم کی دعوت   ہے کہ’’اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں  داخل ہوجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔  ملت اسلامیہ زندگی کے کسی شعبے میں شیطان یا اس کے کسی  پھندے  کی جانب نگاہ غلط نہیں ڈالتی بلکہ شرح صدر کے ساتھ راہِ حق پر گامزن رہتی ہے۔  وہ نہ صرف دین حق کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھ کر اس   پر برضا و رغبت عمل پیرا ہوتی ہے بلکہ دوسرے بندگان خدا کو بھی اس  دین رحمت کی دعوت دیتی ہے اس لیے کہ نزول قرآن کی ایک غرض و غایت یہ بھی ہے ۔ ارشادِ ربانی ہے ’’یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے، پس اے محمدؐ، تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے (منکرین کو) خبردارکرواور ایمان لانے والے لوگوں کو یاد دہانی ہو‘‘۔ اس لیے بغیر  کسی احساسِ کمتری کے  نہایت دلسوزی کے ساتھ اس دین کی دعوت  بندگان خدا  تک پہنچانا اور امت مسلمہ کی اصلاح میں لگے رہنا وہ کارِ نبوت ہے جو امت مسلمہ کا فرضِ منصبی ہے۔

سورج یہ شریعت کا رہے گا یونہی روشن

 قانون شریعت کو بدلنے نہیں دیں گے!

تبصرے بند ہیں۔