قدرتی وسایٔل اور خاندانی منصوبہ بندی!

عبداللہ عتیق

  یہ خطہ ارض جس میں کہنے کو تو ایک وسیع حصہ پانی پر مشتمل ہے۔جو کہ انسا ن کی زندگی میں ایک بنیادی چیزکی حیثیت رکھتا ہے۔یہ تخمینہ صرف سمندری پانی پر مشتمل ہے جو نہ تو پیا جا سکتا ہے اور نہ ہے فصلوں کو پلایا جا سکتا ہے۔جو حصہ خشکی پر مشتمل ہے آج سے چند برسوں پہلے اس میں ایک وسیع رقبے پر جنگلات موجود تھے لیکن روزبروزترقی کے ساتھ ساتھ آبادی میں اضافے کی وجہ سے ان کی تعدادمیں خوفناک حد تک کمی واقع ہویٔ ہے۔

 زمین کا وہ حصہ ہم اور آپ جس میں بستے ہیںاس کے قدرتی وسایٔل لامحدود نہیں ہیں جن کو ہم لا محدود سمجھ بیٹھے ہیں۔آبی ،زمینی اور ہوایٔ وسایٔل مختلف  مقاصد کے لیے استعمال میں لاے جا چکے ہیں ۔وہ وسیع میدان جن میںتا حد نگاہ تک سرسبز و شاداب فصلیں محو رقص نظر آیا کرتیں تھیں اب وہ اپنی پہلے جیسی ذرخیزی کھو چکیں ہیںزیادہ فصل کے لیے سٹیرایٔڈز کے طور پر فصل میں مصنوعی کھادوں کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے جو کسی بھی حالت میں خوش آیٔند بات نہیں ہے۔وہ پہاڑ جو کبھی معدنی زخایٔر سے مالا مال تھے اب ان کی آغوش خالی ہو رہی ہے۔زیر زمین اور سطح زمین پر موجود پانی کے ذخایٔرنا صرف آلودہ ہو چکے ہیں بلکہ ان میں بڑی حد تک کمی بھی ا گیٔ ہے۔فضا ٔ جو کبھی تروتازہ ہواکرتی تھی مختلف کیمیایٔ مرکبات،گیسوںاور گرد و غبار کی ایک دبیز تہ میں بدل چکی ہے۔

شہر گندگی اور غلاظت سے اٹ چکے ہیںانسانی آبادی کی ضرورت کے پیش نظر بہت سے وسیع میدانوں اور جنگلات کو رہایٔشی علاقوںاور دوسرے تجارتی مراکز میں تیزی سے تبدیل کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ہوا میں آکسیجن کی مقدار بہت کم ہوتی جا رہی ہے اورسانس کی مختلف بیماریوں نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔پورا نظام زندگی سیاسی ،سماجی اور معاشی اداروں کے بس سے باہر نکلتا ہوا نظر آرہا ہے۔آبادی میں اضافے کی وجہ سے بہت سارے انسانیت کش جذبات بھی جنم لے رہے ہیں۔

 ان تمام باتوں کو پیش کرنے کا مقصد کسی کو مایوس کرنا ہر گز نہیں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ مستقبل دینے کے معاملے کو سمجھنا ہے۔زمین کے محدود وسایٔل چونکہ دھیرے دھیرے انسانوں کے استعمال میں آتے ہوے ختم ہوتے جا رہے ہیںاور بڑھتی ہوی ٔ آبادی وسایٔل پر بوجھ بن چکی ہے اس کے حل کی ایک صورت خاندانی منصوبہ بندی ہے۔

 غذایٔ اجناس کی قلت بھی ویسے ہی نتایٔج پیدا کرتی ہے جس طرح گولا بارود۔۔ایک وقت تھا جس میں افرادی قوت ہی کی اہمیت تھی ایک کسان اور ساتھ اس کے دس بارہ  بچے سکون سے کاروبار سنبھال لیا کرتے تھے لیکن ترقی ہوتے ہوے زیادہ انحصار مشین پر کیا جانے لگا اور ساتھ ہی وسایٔل کی کمی اور آبادی میں اضافہ ہوتا گیا اور یہ صورتحال پیدا ہو گی ٔ جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔

  بے ہنگم آبادی کا پھیلاؤ ایک نہتے انسان کے سامنے پھن پھیلاے سانپ کی مانند ہے۔آبادی کو کنٹرول کرنے کی شاندار مثال ہمارا ہمسایٔہ ملک چین ہے ۔جس نے شروع میں افرادی قوت کو بروے کار لاتے ہوے اہم ترین ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے بہت سے اقدامات بھی کیے۔

ابھی پچھلی نسل کے تجربے میں ہم نے دیکھاکہ ان پڑھ تو کیا پڑھے لکھے حضرات بھی خاندانی منصوبہ بندی کی اصطلاح پر ہنستے تھے لیکن کچھ عرصے بعد ہی ان کو اس کی کمی اور افادیت کا بہت اچھے طریقے سے احساس ہو گیا تھا۔خاندانی منصوبہ بندی کوییٔ صیغہ راز رکھنے والی بات نہیں بلکہ ایک سنجیدہ سماجی مسلۂ ہے۔

بچے دو ہی اچھے؛ایک سرکاری نعرہ ضرور ہے لیکن اس مین ایک حقیقت پوشیدہ ہے۔زیادہ وسایٔل والا شخص پھر بھی کچھ آسودہ حال ہو گا ،لیکن کم وسایٔل والے شخص کو ضرور منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔۔۔مسلٔہ اولاد کا یا خاندانی آسودگی کا نہیں بلکہ مسلۂ ختم ہوتے قدرتی وسایٔل کا ہے جس میں سب برابر کے شریک ہیں۔

 خاندا ن یا کنبے کا سربراہ بڑے خاندان کو پالتے ہوے یہ بات خود بھول جاتا ہے کہ وہ خود بھی ایک انسان ہے۔اس ضمن میں وہ زندگی کہ حق سے اور اس سے لطف اندوز ہونا ہی بھول جاتا ہے۔اس سلسلے می کیٔے گیٔے حکومتی اقدامات اپنی جگہ رکھتے ہیں۔لیکن خاندانی منصوبہ بندی کے لیے نوجوانوں کا آگاہ ہونا نہایٔت ضروری ہے۔۔۔یوں شایٔد وہ بجلی ،گیس اور پانی جیسے بحرانوں سے نجات حاصل کر لیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔