قربانی یا خودکشی

حفیظ نعمانی

ملک کے صدر جمہوریہ کے لئے بی جے پی اور حکومت کے اُمیدوار دلت طبقہ سے تعلق رکھنے والے رام ناتھ کووند نے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کردیا۔ بی جے پی اور اس کے وزیر اعظم اسی روش پر چل رہے ہیں جس پر کانگریس کی تیسری وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی چلاکرتی تھیں ۔ بی جے ی نے بھی کانگریس کی طرح صدر کے نام کا فیصلہ کرنے کا اختیار وزیر اعظم مودی کو دے دیا تھا۔ جس پر اس کی حلیف اور پرانی ساتھی شیوسینا نے معقول اعتراض کیا تھا کہ ایک آدمی کو اختیار کیوں ؟ اندرا گاندھی سے پہلے اس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ فیصلہ وزیر اعظم کے سپرد کردیا جائے۔ اس کی معقول وجہ پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے کہ اگر کوئی وزیر اعظم بن گیا ہے تو یہ کیوں مان لیا جائے کہ ان سے زیادہ ہر فن مولا کوئی نہیں ہے؟

پارلیمنٹ یا اسمبلی کے اُمیدوار کو ٹکٹ دینا ہو، مرکز اور صوبوں میں وزیر اور نائب وزیر بنانا ہوں ، پارٹی کا کسی صوبہ اور ضلع میں صدر بنانا ہو فیصلہ وزیر اعظم پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ کانگریس کے زوال کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ صوبوں میں ابتدا میں پارلیمنٹری بورڈ ہوا کرتے تھے اور اس بورڈ کا ممبر بہت اہم مانا جاتا تھا۔ وہ لوگ صوبہ کے صدر کے ساتھ بیٹھ کر اُمیدواروں کا فیصلہ کرتے تھے۔ کانگریس ہو یا کوئی بھی پارٹی اس میں دو گروپ ہونا ضروری اس لئے ہیں کہ جو صوبہ کا صدر بنا اس کا مقابلہ ضرور کسی سے رہا ہوگا جو خود صدر بننا چاہتا تھا۔ اور جو ہوگیا ایک گروپ اس کا ہوا اور جو نہیں بنا دوسرا اس کا ہوگیا۔ پارلیمنٹری بورڈ کی میٹنگ میں ہم نے دیکھا ہے کہ اترپردیش میں تین تین دن بحث چلتی تھی۔ اور ہر نام پر بحث ہوتی تھی۔ ٹکٹ مانگنے والے دس یا زیادہ یا کم ہوتے تھے اور ٹکٹ ایک کو ملنا ہوتا تھا اس لئے دونوں گروپ اور ان کے حمایتی اپنے اُمیدوار کو جتانے کی 100  دلیلیں دیتے تھے آخر کار ایک کا فیصلہ ہوجاتا تھا۔

تین دن کی دن رات کی محنت اور بحث و مباحثہ کے بعد ایک لسٹ تیار ہوتی تھی۔ اس لسٹ میں ایسے بھی حلقے ہوتے تھے جن کے لئے دو دو برابر کے اُمیدوار مان لئے جاتے تھے۔ ان پر نوٹ لگایا جاتا تھا کہ اس کا فیصلہ مرکزی پارلیمنٹری بورڈ کردے۔ مقصد یہ ہوتا تھا کہ جس پارلیمنٹ کے حلقہ میں وہ حلقہ آتا ہو وہاں کے ممبر پارلیمنٹ سے مشورہ کرکے ٹکٹ دے دیا جائے۔ اور اتنے پاپڑ بیلنے کے بعد اندراجی کے بہت قریب رہنے والوں نے بتایا کہ میڈم صوبوں سے آئی ہوئی فہرستوں کو دیکھتی بھی نہیں تھیں وہ دوسرے دن اخبار کے نمائندوں کو بلاکر وہ فہرست دے دیتی تھیں ۔ جو وہ خود خفیہ ایجنسیوں اور اپنے معتمد آدمیوں کی تحقیق کے بعد خود بناتی تھیں اور صوبہ کے لیڈر دیکھتے رہ جاتے تھے کہ نہ ان کے آدمی ہوتے تھے اور نہ مخالف کے اور وہ سوچتے تھے کہ یہ نام کہاں سے آگیا؟

کانگریس میں آج بھی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ ہوتی ہے ممبروں کے قیام اور طعام پر لاکھوں روپئے خرچ ہوتے ہیں دو دن کئی کئی گھنٹے میٹنگ میں بحث ہوتی ہے آخر میں وہی مرغ کی ایک ٹانگ کہ فیصلہ صدر کانگریس مسز سونیا گاندھی پر چھوڑ دیا گیا ہوجاتا ہے۔ یہی تماشہ صدر کے الیکشن میں ہورہا ہے کہ صدر کانگریس نے کہا تھا کہ اگر مودی جی سیکولر لیڈر کا نام سامنے لائیں گے تو ہم بلامقابلہ صدر بنانے پر غور کریں گے۔ مسٹر رام ناتھ کووند ایسا نام ہے کہ کبھی کسی ایسے موقع پر سامنے نہیں آیا جس میں سیکولراور کمیونل کا اندازہ ہوتا؟ مودی جی کا ان کو گورنر بنانا تو یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ دلت ضرور ہیں لیکن ذہن کے اعتبار سے سنگھ کے قریب ہیں ۔ اس سے پہلے وہ جہاں بھی تھے وہ خاموش قسم کے لوگوں میں تھے۔ کیونکہ بی جے پی کے اہم لوگوں میں ہوتے تو کہیں نہ کہیں ان کا نام ضرور سامنے آتا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نام آیا ہو لیکن بار بار نہ آنے سے ہمیں یاد نہ ہو؟

سب سے اچھی بات تو یہ ہوتی کہ نتیش کمار کا ان سے سابقہ ہے ان سے مشورہ کرلیا جاتا۔ اور اگر وہ بتاتے کہ صاف ذہن اور بے ضرر ہیں تو کانگریس کو حمایت کردینا چاہئے تھی۔ کانگریس کو اگر مقابلہ برائے مقابلہ کرنا ہی تھا تو اسے مقابلہ پر دلت کو نہیں لانا چاہئے تھا۔ میرا کمار ایک باوقار منصب پر رہ چکی ہیں وہ کانگریس کی محتاج نہیں ہیں اور اُنہیں یہ بات تو یاد ہوگی کہ سونیا گاندھی نے وزیر اعظم نہیں اسپیکر بنایا تھا۔ اور یہ بات میرا کمار کے والد بابو جگ جیون رام نے اس وقت کہی تھی جب جنتا پارٹی کی حکومت بنی اور بابوجی کو خیال تھا کہ کانگریس چھوڑکر آنے والوں اور بہوگنا جی نیز نندنی ستیہ پتی جیسوں کو لانے کے انعام میں وزیر اعظم مجھے بنایا جائے گا۔ لیکن آچاریہ کرپلانی اور جے پرکاش نارائن نے جب مرارجی ڈیسائی کے نام کا اعلان کردیا تو بابوجی کا دل ٹوٹ گیا۔

یونس سلیم صاحب بابوجی سے بہت تعلق رکھتے تھے انہوں نے خود مجھ سے کہا کہ میں بابوجی کے پاس گیا تو وہ فرنیچر کے ٹھوکریں مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہم پچھڑوں کو یہ لوگ سب کچھ بنا سکتے ہیں وزیراعظم نہیں بناسکتے۔ جہاں تک ہم دیکھتے ہیں میرا کمار کا نام تو کانگریس کے لیڈروں میں اتنا بھی نہیں آتا جتنا محسنہ قدوائی کا آجاتا ہے۔ ان سے اگر سونیا گاندھی نے کہا کہ قربانی کا بکرا بن جائو تو ان کو ہی کہہ دینا چاہئے تھا کہ یہ جانتے ہوئے کہ ہارکر ذلیل ہونا ہے اور دلت کے مقابلہ میں کھڑا ہونا ہے خود اُن کا نہ کردیتیں ۔ اور کانگریس کو ہی کرنے دیتیں کہ وہ کسان کو کھڑا کر ے جو ہارے یا جیتے۔ ایک سابق اسپیکر پر تو حرف نہ آئے۔ بہرحال فیصلہ کانگریس کا بھی غلط ہے اور میرا کمار نے مقابلہ کا شوق پورا کرکے بھی غلط کیا۔ لیکن یہ ہمارا خیال ہے خود میرا کمار کیا سوچتی ہیں اور کانگریس اسے کتنا مفید سمجھتی ہے یہ تو وہی بتاسکتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔