قطرہ ہوں ابھی ایک میں دریا تو نہیں ہوں

احمد علی برقی اعظمی

قطرہ ہوں ابھی ایک میں دریا تو نہیں ہوں

جیسا وہ سمجھتے ہیں میں ویسا تو نہیں ہوں

ساکت ہے قلم ، گُنگ زباں ذہن ہے ماؤف

بے جان کوئی خاک کا پُتلا تو نہیں ہوں

بازیچۂ اطفال سمجھتے ہیں جو مجھ کو

میں ان کے لئے ایک تماشا تو نہیں ہوں

ترجیح نہ دے بزمِ ادب میں مجھے کوئی

اعلیٰ نہیں پر اتنا بھی ادنیٰ تو نہیں ہوں

گلچیں کی  طرح  سب مجھے کیوں دیکھ رہے ہیں

میں غنچہ و گُل کے لئے خطرہ تو نہیں ہوں

انگشت بدنداں ہیں مجھے دیکھ کے سب کیوں

اک حادثۂ حوصلہ فرسا تو نہیں ہوں

کیوں تیری گاہوں میں کھٹکتا ہوں میں آخر

گلزارِ جہاں کا کوئی کانٹا  تو نہیں ہوں

دیوانہ سمجھتے ہیں مجھے اہلِ جہاں کیوں

بے وجہہ کسی سے کبھی اُلجھ تو نہیں ہوں

گُلشن میں نظر آتے ہیں آثار خزاں کے

میں جس میں ابھی ٹوٹ کے بکھرا تو نہیں ہوں

اللہ محافظ ہے مری کشتیٔ دل کا

’’میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں‘‘

جس طرح دکھاتا ہے مجھے میڈیا برقی

ایسا کوئی مکروہ میں چہرہ تو نہیں ہوں

تبصرے بند ہیں۔