قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش

آج دنیا کے تمام معاشیات کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ عالم انسانیت اس کرونا وبا کی وجہ سے جس معاشی بحران کا شکار ہونے جارہی ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

عمر فراہی

سیرت اور تاریخ کی کتابوں کے مطالعے کیلئے ذہن آمادہ ہوا تو اس میں التمش اور نسیم حجازی کی ناولوں کا بہت بڑا کردار ہے جس نے ابھی تک ذہن کا رشتہ کتابوں کے مطالعے سے جوڑ رکھا ہے۔جن مصنفین کی باتیں دل میں اتریں یا لگا کہ یہ تو اپنے دل کی بات ہے انہیں خوب پڑھا اور جن کی باتیں دل نے گوارہ نہیں کیا انہیں بھی کچھ پڑھا تاکہ کفر کو کفر کی دلیل سے کفر ہونے کی دلیل دی جاسکے۔ غیر مسلم یا مغربی مصنفین کی بات الگ ہے انہیں ایک الگ مزاج سے اس لئے آج بھی پڑھنے کا شوق ہے تاکہ ان کے معاشرے کا بھی مطالعہ کیا جاسکے اور وہ اسلام اور مسلم دنیا کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اس کا بھی اندازہ ہو جائے۔کتابوں کےمطالعے سے جو بات سمجھ میں آئی وہ یہ کہ مطالعے سے اگر کسی کے شعور میں بیداری اور تقویٰ کی صفت نہ پیدا ہوتو کتابوں کا مطالعہ بھی ذہنی عیاشی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ بچوں میں اگر مطالعے کا شوق پیدا کرنا ہے تو پہلے انہیں دلچسپ قصے اور کہانیوں والی کتابیں دی جائیں۔ڈرامہ ارطغرل دیکھ رہا تھا تو خیال آیا کہ دنیا کتنی ترقی کر چکی ہے اور فلم کے مصنف اور ڈائریکٹر نے صرف وہی ایک بات جس کی وجہ سے اس کی مخالفت کی جارہی ہے سمجھانے کیلئے کتنی محنت کتنا سرمایہ خرچ کر دیا ہے۔ یہ وہی ایک بات والا جملہ بہت خطرناک ہے جو میری تحریروں میں مسلسل آتا ہے آپ سمجھ لیں تو ٹھیک نہیں تو کوئی بات نہیں۔

یہ کہانی اس ڈرامے کے ہیرو ارطغرل کے ذریعے ایک شاہی سلجوق خاندان کے بوڑھے باپ اس کی جوان بیٹی اور بیٹے کو صلیبیوں کےپنجے سے چھڑانے پر شروع ہوتی ہے۔ اس میں ایک زبردست کردار قبیلے کے سردار سلیمان شاہ کا ہے۔ بدقسمتی سے ہندوستان کے نعمت زدہ جمہوری ماحول میں مسلمان اس کردار سے بالکل محروم ہے۔ ایک کردار غدار قردوگلو کا ہے۔ عالم اسلام اور ہندوستان میں ایسے ایمان فروش مسلمانوں کے درمیان مکڑی کے جال کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔تشویش کی بات یہ ہے کہ فرقوں میں بٹے ہوئے سب مسلمان اپنے اپنے ایمان فروشوں کی بھگتی کے گن بھی گا رہے ہیں۔ ایک کردار ارطغرل کے بھائی گلدارو کا بھی ہے جو نہیں چاہتا کہ حکومت اور اقتدارکیلئے خون خرابہ ہو اور قبیلے والوں کو مصیبت جھیلنی پڑے۔ مصنف نے بہت ہی واضح طور پر یہ تصویر پیش کی ہے کہ عالم اسلام کے مسلمان امن چاہیں بھی تو انہیں کبھی امن سے نہیں رہنے دیا جائے گا، کیوں کہ قدس کو حاصل کرنے کیلئے صلیبی خون کی ندیاں بھی بہانے کیلئے تیار ہیں۔بدقسمتی سے اب اس چہرے نےصہیونیت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ عارفین کے بے لوث کردار اور ابن العربی جیسے درویش کا ارطغرل کی تحریک کی حوصلہ افزائی کرنا اقبال کی یاد دلا دیتا ہے۔ آپ اقبال کو بیسویں صدی کا ابن العربی بھی کہہ سکتے ہیں جیسا کہ وہ کہتے بھی ہیں کہ

؎ قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش/جس نے نہ ڈھونڈھی سلطان کی درگاہ

ارطغرل بہرحال اس ڈرامے کا ہیرو ہے اور مصنف اس کردار سے یہ بتانے کی کوشش کرنا چاہتا ہے کہ ایک فکر کو غالب کرنے کیلئے نہ صرف طاقت ہمت اور جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے یہ نہ ہو تو ابن عربی کی درویشیت صوفیت اور صالح نظریےکو بچانا بھی آسان نہیں ہے جو ہم آج کی دنیا میں دیکھ بھی رہے ہیں۔ سب سے اہم بات ارطغرل کے چار وفادار جانباز سپاہی ہیں جن کے نام بابر، نورگل، روشن اور عبدالرحمن ہیں۔ مصنف یہ بتانا چاہتا ہے کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی کیلئے اس تحریک کےقائد اور روح رواں کے ساتھ کچھ معتمد خاص ساتھیوں کا ہونا بہت ضروری ہے ؟یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاریخ میں حضرت عیسی کے حواریوں اور رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے معتمد خاص صحابہ کرام کا تذکرہ بہت نمایاں ہے۔ اس ڈرامے میں مصنف نے خاص طور سے آج کی تحریکوں اور تنظیموں کے قائدین کے دماغ کی بتی جلانے کی کوشش کی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ مصنف اخوانی یا وہابی ہو لیکن کبھی کبھی کچھ حاصلِ کرنے کیلئے ہم جیسے عام لکھنے والوں کو غیر مسلم اور مغربی مصنفین کی ہزاروں روپے کی کتابیں بھی خرید کر پڑھنی پڑتی ہیں اور بیشک ان غیر مسلم مغربی مصنفین کیلئے بھی دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ اکثر جن تحقیقی مواد تک پہنچنا ہم اردو کے قلمکار ہمارے علماء اور مفتیان کی دسترس کے باہر ہوتا ہے وہ کام یہ مغربی مصنفین کر دیتے ہیں۔

میں نے اپنے ایک مضمون فلم Contagion اور دجال کی دستک میں 2010 میں امریکہ سے ریلیز ہوئی فلم Contagion کے حوالے سے کرونا بیماری کو ایک سازشی تھیوری کے طور پر دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس تعلق سے چین کے ہی ایک فوجی کا ایک طویل مضمون بھی سوشل میڈیا پر آیا ہے جو وہاں کی فوج میں سائنسداں بھی ہے اس نے اس سازش پر سے پردہ اٹھایا ہے کہ کس طرح چین نے نہ صرف اس وبا کو پیدا کیا بلکہ ایک مخصوص وقفے میں اس پر قابو بھی پالیا۔امریکہ نے WHO پر جو غصہ دکھایا تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اس ادارے کے لوگ اس وقت چین کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر یہ بیماری ایک عذاب ہے جیسا کہ کچھ مسلمان کہہ رہے ہیں تو مجھے بتائیں کہ تاریخ میں آج تک کیا اللہ کی طرف سے نازل کردہ کسی عذاب کو دوا یا تدبیر سے قابو کر لیا گیا ہو۔ مگر چین نے اس عذاب پر قابو پالیا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ اس وبا پر قابو پانے کے لئے چین نے میڈیا پر پابندی لگا دی تھی۔ دی اکنامسٹ نے جب یہ لکھا کہEvery thing is under control تو اس نے اس کے نیچے یہ تبصرہ بھی کیا کہ کنٹرول میں کون ہیں، The big government, LibertyAnd virusوائرس چونکہ دکھائی نہیں دیتا اس لئے اس تصویر میں وائرس کو نہیں بتایا گیا ہے لیکن ایک خفیہ چہرے کے ہاتھ میں دنیا کے عظیم اداروں کی باغ ڈور ہے۔

میں نے دو سال پہلے فیس بک پر میڈیا کے تعلق سے ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان ہے ’’آزادی اور کتوں کےبھونکنے کا فرق‘‘۔اکنامسٹ کی اس تصویر میں جہاں تک میں نے سمجھا ہے یہ جو کتا ہے وہ Liberty یعنی آزادی ہے لیکن وہ آزادی بھی کسی کے کنٹرول میں کتوں کی طرح بھونکنے کے جیسا ہے۔ یعنی وہ پوری طرح نہ صرف آزاد نہیں ہیں انہیں بولنے کیلئے بھی ہڈی چاہئے۔ ہندوستان سے لیکر تمام دنیا میں اس بیماری کی جو دہشت ہے اکثر وہ ہمیں میڈیا کے ذریعے ہی پتہ چل رہی ہے اور اتنا ہی میڈیا بھی بتا رہا ہے جتنا اسے بتانے کی آزادی ہے۔

ارطغرل ڈرامے کے اٹھارہویں یا بیسویں ایپی سوڈ میں اس ڈرامے کے مصنف نے ایک وبا کی تصویر بتائی ہے کہ کس طرح صلیبی اپنی کوڑھ میں مبتلا عورتوں کو قائی قبیلے میں بھیجتے ہیں اوریہ عورتیں بھیڑوں کے کھانے میں کچھ ملاتی ہیں جس سے بھیڑوں میں ایک ایسی وبا پھیل جاتی ہے جس کی وجہ سے بھیڑیں بیمار ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ قبیلے کے حکیم کو جب یہ بات پتہ چلتی ہے تو وہ فوراً ان بھیڑوں کو دوسری بھیڑوں سے الگ کرنا شروع کر دیتا ہے اور قبیلے والے فیصلہ کرتے ہیں کہ ان بھیڑوں کو ذبح کرکے دفن کرنے سے بہتر ہے زندہ جلا دیا جائے ورنہ یہ بیماری لوگوں میں بھی منتقل ہو سکتی ہے۔ وبا زدہ ساری بھیڑیں زندہ جلا دی جاتی ہیں مگر غلطی سے ایک بھیڑ جو ایک بچی کے پاس رہ جاتی ہے اسی بھیڑ سے یہ بیماری بچی کو اور اس بچی سے قبیلے کے دوسرے لوگوں کو لگ جاتی ہے۔ قبیلے کو حلب کی طرف روانہ بھی ہونا رہتا ہے اس لئے فیصلہ ہوتا ہے کے جو لوگ اس بیماری سے متاثر ہیں انھیں ایک ڈاکٹر کی نگرانی میں ایک خیمے میں Quarantine کرکے الگ وہیں روک لیا جائے۔ڈارمے کے اندر دیکھا جاسکتا ہے کہ سب نے اپنے منھ کو ڈھکا ہوا ہے اور ان کے رشتہ دار دور سے ہی ہائے بائے کا اشارہ کر کے قبیلے کے ساتھ رخصت ہو جاتے ہیں۔

اس ڈرامے کی کہانی مصنف نے 2010 سے لکھنا شروع کیا 2014 سے ترکی کے ٹی وی چینلوں پر نشر ہونا شروع ہوا۔ مانا کہ یہ اس وبا کا خیال ارطغرل اور Contagion کے مصنف کے ذہن کا فتور ہو لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ موجودہ وبا سے پہلے کتنے لوگوں نے کسی اخبار وغیرہ میں لفظ Quarantine کے بارے میں پڑھا تھا یا کسی نے یہ سوچا تھا کہ ایک دن سب کے منھ پر تالا لگا کر خاموش کر دیا جائے گا؟

جیسا کہ ڈرامے میں بتایا گیا ہے کہ صلیبیوں نے قائی قبیلے کی بھیڑوں کو مارنے کیلئے ہی یہ وبا پھیلائی تھی تاکہ ان کی معیشت تباہ ہو جائے اور یہ لوگ جنگ کے قابل نہ رہ جائیں۔آج دنیا کے تمام معاشیات کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ عالم انسانیت اس کرونا وبا کی وجہ سے جس معاشی بحران کا شکار ہونے جارہی ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کا کون سا ملک سب سے پہلے اس بحران سے باہر نکل پاتا ہے اور وہ ارطغرل کون ہے جو ایک فاتح کے طور پر ایک نئے عالمی نظام کے نگراں کے طور پر سامنے آتا ہے۔ دنیا کے اس حقیقی ڈرامے کے اندر کے ارطغرل کا چہرہ اور بھی بھیانک ہو سکتا ہے۔ افسوس اس مشکل گھڑی میں بھی مولوی حضرات کا ایک طبقہ ماضی میں بغداد کی تباہی، چنگیزوں کی خوں ریزی اور ترکی سے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مصطفی کمال پاشاؤں کے عتاب سے سبق لینے کی بجائے فتوے بازی میں مصروف ہے !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔