قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف

عزیر احمد

کہتے ہیں "لائف میں جو کچھ ہوتا ہے اچھے ہی کے لئے ہوتا ہے”، حقیقت میں اچھے ہی کے لئے ہوتا ہے، بسا اوقات ہمیں کسی امر کی وجہ سے لگتا ہے کہ یہ جو ہوا یہ نہیں ہونا چاہیئے تھا، مگر شاید یہ نہیں معلوم کہ اگر یہ نہیں ہوتا تو کیا پتہ اس سے بھی خطرناک کوئی معاملہ پیش آ جاتا، جیسے بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کہیں سفر کے لئے تیار ہوتا ہے، اسٹیشن پہ بھی پہونچ جاتا ہے، عین وقت پہ اسے پتہ چلتا ہے کہ کسی وجہ سے ٹرین کا روٹ چینج کردیا گیا ہے، آج اس روٹ سے ٹرین نہیں جائے گی، اسے لگتا ہے کہ اس کے ساتھ بہت غلط ہوا، یا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اسٹیشن پہ کسی وجہ سے لیٹ پہونچتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی ٹرین چھوٹ جاتی ہے، وہ تکلیف اور افسردگی کی حالت میں گھر واپس آجاتا ہے، دوسرے دن اسے نیوز پیپر سے یہ خبر ملتی ہے کہ جو ٹرین اس سے مس ہوگئی تھی، اس کا حادثہ ہوگیا ہے، اور سب سے بھیانک حالت اسی بوگی کی ہوئی ہے جس بوگی میں اس کا ٹکٹ تھا، ٹرین کے بارے میں پڑھ کے جہاں وہ ایک طرف غمگین بھی ہوجاتا ہے، وہیں دوسری طرف وہ خدا کا شکر بھی ادا کرتا ہے کہ کل وہ اس ٹرین میں نہیں سوار ہوپایا تھا جس کی وجہ سے اس کی جان بچ گئی، کل کا برا ہونا اس کے لئے آج اچھا ہونا ثابت ہوا.

ہر چیز میں مثبت پہلو کو غالب کرنا، اور وقوع پذیر منفی واقعات میں بھی مصلحت اور اچھائی کے پہلو کو تلاش کرنا ہی ایک انسان کو کامیابی سے ہمکنار کراتی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "عجبا لامر المؤمن ان امرہ کلہ خیر، ولیس ذاك لاحد الا للمؤمن، ان اصابته سراء شكر، فكان خيرا له، وان اصابته ضراء صبر، فكان خيرا له” رواه مسلم، مسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "مؤمن کا معاملہ بڑا ہی عجیب ہوتا ہے، اس کا  سارا معاملہ خیر ہوتا ہے، اور یہ چیز مؤمن کے سوا کسی کو حاصل نہیں، اگر اسے کوئی خوشی پہونچتی ہے اور وہ اس پہ شکر گزار ہوتا ہے تو یہ اس کے لئے خیر ہے، اسی طرح اگر اس کے ساتھ کچھ برا ہوجاتا ہے اور وہ اس پہ صبر کرتا ہے تو وہ بھی اس کے لئے خیر ہے.

ہر چیز میں اچھائی اور مثبت کے پہلو کو تلاش کرنے کا معاملہ جہاں فرد کی زندگی میں ضروری ہے، وہیں قوموں کی زندگی میں بھی ضروری ہے، عروج و زوال ایک دوسرے کے ساتھ لازم ملزوم ہیں، عروج پہ اترانا، اور زوال پہ صرف رونا دھونا کامیابی کی علامت کبھی نہیں بن سکتی ہے، ہر رات صبح کی نوید جانفزا لاتی ہے، تاریکی خواہ کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو، کچھ گھنٹوں کے بعد اس کا ختم ہوجانا ایک لازمی اور بدیہی امر ہے، اسی طرح روشنی بھی خواہ کتنی ہی کیوں نہ ہو، تاریکی کا اسے ڈھانپ لینا بھی ایک فطری امر ہے، کچھ یہی معاملہ  فرد اور قوم کی زندگیوں میں آنے والی پریشانیوں، دکھ تکلیف، مصائب و آلام کے ساتھ ہے، وہ جہاں وقتی ہوتے ہیں، وہیں عروج بھی وقتی ہوا کرتے ہیں، Status Quo کبھی یکساں نہیں رہتا، حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ آج جو غالب ہے وہی کل بھی غالب رہے.

جب ہم تاریخ پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسی دنیا میں نجانے کتنی قومیں آئیں، کتنی فنا ہوگئیں، تہذیبیں بنیں بھی، بگڑیں بھی، مگر ایک چیز جو ہر دور کامن رہی ہے وہ ہے "مغلوب اور غالب کا آپسی ربط وضبط”، جب ہم قدیم دور میں جاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ روم و فارس نام کے دو سپر پاور ہوا کرتے تھے، وہ دور تھا جب ان کا طوطی بولتا تھا، کبھی ایک غالب آتا کبھی دوسرا، یہ چلتا رہتا ہے، پٹیرا، پالمیرا، عدن، اور صبا نام کی قدیم تہذیبوں نے جنم لیا، عروج کے انتہا پہ بھی پہونچے اور پھر ایک دن زوال کو بھی، کچھ یہی معاملہ مسلم سلطنتوں کے ساتھ بھی ہوتا رہا ہے، اور ورلڈ وار فرسٹ اور ورلڈ وار سیکنڈ میں بھی، غالب یا مغلوب ہونا قوموں کو لگا رہی رہتا ہے، ہاں مگر جو چیز قوموں کو زندہ و جاوید بناتی ہے وہ عہد عروج میں ہمیشہ عروج کے مقام پہ باقی رہنے کے لئے ان کی جد و جہد اور کاوش یا عروج کو پاکر لعو و لہب اور لغویات و خمریات میں فنا ہوجانا، اور عہد زوال میں ان کا عروج کے لئے دوبارہ کوشش کرنا، یہ وہ دو معاملات ہیں جو کسی بھی قوم کو زمانے کے لیل و نہار میں ہمیشہ باقی رکھنے میں معاون اور مددگار ثابت ہوتے ہیں.

قوموں کے لئے یاسیت و قنوطیت سم قاتل ہے، تخیل کی بلندی عروج کی ضامن ہے، حالات کبھی بھی یکساں نہیں رہتے ہیں، مصیبتوں پہ صرف رونا دھونا بزدلی کی علامت تو ہوسکتی ہے حالات کو سدھارنے کا ذریعہ بالکل نہیں، بہادر وہ ہوتے ہیں جو حللات کا ڈٹ کے مقابلہ کرتے ہیں اور ایک بہترین مستقبل کے لئے واضح اور رہنما خطوط متعین کرتے ہیں.

کل چھبیس جنوری ہے، جب بھی چھبیس جنوری یا پندرہ اگست کا موقع ہوتا ہے، بہت سی تحریروں سے واسطہ پڑتا ہے، جس میں رونا رویا جاتا ہے مسلم قوم یہ مسلم قوم وہ، حالات کو سدھارنے کے خطوط کبھی نہیں بتائے جاتے ہیں، ہر رائٹر اپنی تحریر کی ٹی.آر.پی بڑھانے کے لئے ہمیشہ اموشنل بلیک میل کا سہارا لیتا ہے، جذبات کی تجارت ہی شہرت کا سبب ہے، سنجیدہ تحریریں لوگ شاید پڑھنا پسند بھی نہیں کرتے ہیں، کبھی میں بھی یہی کرتا تھا، ہر تحریر میں روتا تھا، لیکن اب نہیں کرتا، کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ یہ دور صرف رونے دھونے کا نہیں ہے، یہ دور حوصلہ دینے کا ہے، ہر تحریر میں ایک خوبصورت مستقبل کی خوشخبری سنانا ہے، ہمت و عزم کی داستانیں سنا سنا کر قوم میں حالات سے لڑنے کا حوصلہ جگانا ہے، یاد رہے کہ مغلوب ہونا اتنا معنی نہیں رکھتا جتنا کہ نفسیاتی طور پہ دل و دماغ میں ڈر اور خوف کا بیٹھ جانا، کیونکہ جب انسان کے دل میں پہلے سے کسی چیز کا ڈر بیٹھ جاتا ہے تو اس چیز کے سامنے آنے پر مقابلہ تو کجا اس کے لئے خود کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے.

بی.جے.پی ہندوستان میں اگر جگہ جگہ فساد کراتی تو بھی شاید اس مقصد کو وہ حاصل نہیں کرپاتی جو صرف جگہ جگہ گئو گشی، یا بھارت ماتا یا لو جہاد کے نام دہشت پھیلا کے حاصل کیا ہے، اس کو معلوم ہے مغلوب کرنے کا فن کیا ہے، نفسیاتی ڈر حقیقت میں کسی کو مغلوب کرنے سے کہیں بڑھ کے ہے، ہم بچپن میں اکثر اکثر چوہے اور سانپ کی کہانی پڑھا کرتے تھے اور جس سے شاید اکثر لوگ واقف بھی ہوں کہ ایک مرتبہ ایک سانپ اور مینڈک میں اس بات کو لیکے بحث ہوگئی کہ زیادہ زہریلا کون ہے، مینڈک کا کہنا تھا کہ زیادہ زہریلا میں ہوں، اور سانپ کا کہنا تھا زیادہ زہریلا میں ہوں، مینڈک کا ماننا تھا کہ لوگ تمہارے زہر سے نہیں بلکہ تمہارے ڈر سے مرتے ہیں، پھر اس بات پہ شرط لگ گئی، ایک کسان آ رہا تھا مینڈک نے کہا تم کاٹوگے اور میں سامنے آجاؤں گا، اور میں کاٹوں گا اور تم سامنے آجانا، چنانچہ ایسے ہی ہوا، سانپ نے کاٹا، مینڈک سامنے آگیا جسے دیکھ کے کسان نے کہا، ارے یہ تو مینڈک ہے، اور پھر آگے بڑھ گیا، پھر دوسرا آدمی آرہا تھا اسے مینڈک کاٹ لیا، اور سانپ سامنے آگیا، جسے دیکھ کے اس آدمی پہ دہشت طاری ہوگئی، اسے ہارٹ اٹیک آیا اور وہ مرگیا.

کچھ یہی حالت ہم مسلمانوں کی ہے، رائٹ ونگ اگر ظلم کرتا ہے، تو لیفٹ ونگ اور عام سیدھے سادھے مسلمان مضمون نگار اس پہ اس طرح اسے بیان کرتے ہیں کہ پوری قوم میں ایک ڈر کی فضا پھیل جاتی ہے، جس کی وجہ سے ایک عام مسلمان نفسیاتی طور پہ بہت زیادہ گھبرا جاتا ہے، بہت دنوں تک اسی ڈر اور گھبراہٹ کا فائدہ کانگریس نے اٹھایا ہے، "ہمیں ووٹ دو، نہیں تو بی.جے.پی آجائے گی، ہمیں ووٹ دو نہیں تو مودی آجائے گا، پورے ملک میں گجرات جیسے حالات ہوجائیں گے” اور جب مودی آگیا تو پتہ چلا کانگریس خود بی.جے.پی کا سافٹ چہرہ ہے، پالیٹیکس دونوں کھیلتے ہیں ایک ڈرا کر، دوسرا اس ڈر کا فائدہ اٹھا کر، اس لئے بہتر یہ ہے کہ "عہد زوال میں حالات پہ رونے سے زیادہ حالات سے نمٹنے پہ زور ہونا چاہیئے”.

یہ بات حق ہے کہ اس وقت امت مسلمہ نہایت ہی نازک دور سے گزر رہی ہے، مگر اس سے بھی بڑھ کے حق کی بات یہ ہے کہ اگر امت مسلمہ کے کریم لوگوں یعنی علماء و زعماء، مفکرین و دانشوران نے آگے بڑھ کے نہ صرف اقتصادی و تعلیمی محاذ سنبھالا، اور اس کے لئے اعلی اور معیاری خطوط مقرر کئے، بلکہ عملی اقدامات بھی کئے، تبھی ایک بار پھر عہد رفتہ کو آواز دیا جاسکے گا، ورنہ پھر حالات پہ رونا ہی رہ جائے گا، اور امت مزید زوال کے دلدل میں پھنستی چلی جائے گی.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔