قومی اور بین الاقوامی قیام امن کی کوشش!

نہال صغیر

امن و امان کسی بھی قوم ملک یا فرقہ کی ترقی کیلئے بنیادی ضرورت ہے ۔اس کے بغیر ترقی ناممکن ہے ۔پوری مشنری بد امنی کا شکار رہے گی تو ترقی کی جانب کون دھیان دے گا ۔میرے خیال میں وہ دیوانہ ہی ہوگا جو امن کی کسی بھی مساعی کو اہمیت نہ دے یا اس کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہ کرے ۔فی الحال جس صدی سے ہم گزر رہے ہیں وہ اکیسویں صدی کی اطلاعاتی تکنیک کے انقلاب کی صدی بھی ہے ۔لیکن اس صدی نے انسانوں کو جتنی بد امنی کا شکار بنایا ہے ۔شاید دنیا کی تاریخ میں اتنی امن سے خالی صدی کوئی نہیں رہی ہوگی ۔اسلام کی آمد سے قبل کے عرب بد امنی اور قانون شکنی کے لئے مشہور ہیں ۔جبکہ اس زمانہ میں تو سرے سے کسی قانون کا وجود ہی نہیں تھا نہ ہی کوئی آزاد حکومت تھی جس کے سایہ میں کوئی باضابطہ نظام ہوتا ۔

موجودہ دور میں تو دو سو سالہ جمہوریت اور سیکولرزم کا دور دورہ ہے ہر چہار جانب اسی کے چرچے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ یہ قانون کی حکمرانی کا زمانہ ہے اور اس کی محافظ جمہوری نظام حکومت ہے ۔جہاں ہر طرح کا شعبہ اپنا کام آزادانہ طور پر کام کررہا ہے ۔یہ باتیں ہم بڑے بڑے لیڈروں اور دانشور ٹائپ کے طبقہ اشرافیہ سے روز سنتے پڑھتے ہیں ۔لیکن فی الواقع کیا ایسا ہی ہے ؟اگر ایسا ہے تو پھر ہر جانب بد امن اور قتل و غارتگری کا ماحول کیوں ہے؟کیوں قتل ہونے والے کو پتہ نہیں ہے کہ وہ کیوں قتل کیا جارہا ہے اور نا ہی قاتل کو اس بات کا خیال ہے کہ وہ کیوں خون بہائے چلا جارہا ہے ؟ہم نے انہی دانشوروں اور اشرافیہ کے زبانی یہ بھی سنا تھا کہ قیام امن کیلئے انصاف بنیادی شرط  ہے ۔یعنی بد امنی کی وجہ سیدھے طور سے یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ در اصل دنیا سے انصاف اٹھ گیا ہے ۔یہاں اب جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون نافذ ہے ۔لہٰذا جس کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے ۔وہ کچھ دنوں تو صبر کرتا ہے کہ شاید یہ ماحول بدل جائے ۔مقتدر لوگوں کے رجحان میں تبدیلی آجائے ۔لیکن شب غم ہے کہ کٹتی ہی نہیں ۔تشد داور ظلم و ناانصافی کا سایہ دراز ہوتا جارہا ہے ۔تب وہ فرد یا قوم علم بغاوت بلند کرتی ہے ۔یوں اب ہر طرف خونریزی اور افراتفری کا ماحول ہے اور دنیا امن کی ٹھنڈی چھائوں کیلئے ترس رہی ہے ۔

ایسے ماحول میں بیس مئی 2017 کو ممبئی کے گورے گائوں میں امن عالم کی خواہش اور اس کیلئے مساعی کے دعوے کے ساتھ ایک کانفرنس منعقد ہوئی ۔جس میں مصر و عراق سے بھی نمائندوں نے شرکت کی تھی ۔ اس سے ایک دن قبل پریس کے لئے جاری ایک دعوت نامہ میں مضمون کچھ اس طرح تھا ’’آئیسس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں بڑھتی کشیدگی کے سبب’ عالمی قیام امن ‘ آپ سبھی کو ایک عظیم تقریب مدعو کرتی ہے ،جہاں وہ خطہ مشرق وسطیٰ میں امن و شانتی اور چین کیلئے گفتگو کریں گے ‘‘۔اس پروگرام کا دعوت نامہ تھا جس میں دہشت گردی مخالف فرنٹ کے ایم ایس بِٹاکے علاوہ سہیل خمانی (حاجی علی درگاہ کے ٹرسٹی)،مہاراشٹر اے ٹی ایس کے چیف اتل چندر کلکرنی اور بغداد سے تشریف لائے مولانا نصرت حسن نعیمی بھی موجود تھے ۔ امن کیلئے کوشش بہت ہی مبارک کام ہے اس کیلئے انسان کو جتنا ممکن ہو سکے اپنی زندگی کو کھپا دینا چاہئے ۔آج بھی بہت سارے لوگ اس کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں ۔

مقامی ،قومی اور بین الاقوامی پیمانے پر افراد سے لے کر تنظیم اور حکومتی سطح پر اس کیلئے بھرپور کوشش کی جارہی ہے ۔لیکن امن کیلئے کوشش جتنی تیز ہو رہی ہے دنیا میں بد امنی اسی قدر تیزی سے پھیل رہی ہے ۔جیسا کہاوپر بتایا گیا اس بدامنی کی بنیادی وجہ ناانصافی اور ظلم ہے ۔اسے ختم کئے بغیر اور ہر کسی کو جینے دینے کے حق کو تسلیم کئے بغیر امن کا قیام دیوانے کے خواب ہی جیسا ہے ۔صرف امن کانفرنس اور اس کے لئے قراردادیں اور کسی خاص فرقہ یا قوم کو مورود الزام ٹھہرانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ۔اب دنیا میں قیام امن کیلئے ایک ہی راستہ بچا ہے کہ اخلاص کے ساتھ ظلم و نا انصافی کا خاتمہ کیا جائے ۔پسماندہ اور محروم اقوام کے درد کا مداوا کیا اجائے ۔جب سب لوگ خوش ہوں گے کسی کو کسی سے کوئی شکایت ہی نہیں ہو گی ۔ایسے ماحول میں کیوں کوئی کسی کے خلاف نفرت کو دل میں لئے بھرے گا اور موقع ملتے ہی موت کا فرشتہ بن جائے گا ۔

دنیا کے ماحول کو خراب کرنے والے عناصر میں اول نمبر پر حکومت ہوتی ہے اور دوسرے نمبر پر وہ مقتدر اشخاص یا اقوام جو اپنے علاوہ کسی کو انسان تسلیم کرنے کے لئے راضی ہی نہیں ہیں ۔انہی کی ایسی انسانیت سوز سوچ کی وجہ سے ظلم کو بڑھاوا ملتا ہے ۔اس ظلم سے پسماندہ اور محروم اقوام و شخصیتیں ہر طرف سے مایوس ہو کر خود سے ہی انصاف پانے کی کوشش میں نہیں دیکھتے کہ کون سامنے ہے ۔وہ ظالم ہے یا عام انسان اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ دیر قبل تک جو مظلوم تھا وہ ظالم بن جاتا ہے ۔اس ظالم بنے شخص یا قوم کا جرم جسقدر ہے اس سے زیادہ مجرم وہ معاشرہ ،نظام یا سوسائٹی ذمہ دار ہے جس نے اسے مجبور کیا کہ وہ بھی ظالم بن جائے ۔کیوں کہ اس کے بغیر اسے انصاف ملنے والا نہیں ہے ۔ تہلکہ کے سابق ایڈیٹر اجیت ساہی کہتے ہیں کہ حکومت اور دائود ابراہیم کی دہشت گردی وہی فرق ہے جو کسی ٹھلے والے اور امبانی کے کاروبار میں فرق ہے ۔

لیکن ہو یہ رہا ہے کہ حکومت کی دہشت گردی کی جانب سے چشم پوشی کی جاتی ہے جبکہ معمولی دھماکہ کرنے والے افراد کو بھی انتہائی خطرناک اور گھنائونا بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔مطلب ایک دو لوگوں کو مارنے والے کو بڑا مجرم اور ہزاروں لوگوں کو مارنے والوں کو عہدے پیش کئے جاتے ہیں ۔مشرق وسطیٰ میں بڑھ رہی بے چینی اور جنگ کے ماحول کیلئے پہلے القاعدہ اور اب داعش کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے ۔اس پر بحث کرنے کا فی الحال وقت نہیں ہے کہ فی الحقیقت اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ہاں اتنا تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ یہ افراتفری کیوں ہے ؟اگر بڑی طاقتیں کسی ملک میں بیجا مداخلت نہ کریں اور زبردستی کسی پر اپنی فکر تھوپنے کی کوشش نہ کریں تو کوئی اس کے خلاف احتجاج کو بھی کیوں کھڑا ہو گا ۔مشرق وسطیٰ میں بھی موجودہ افراتفری کی تاریخ کافی پرانی ہے ۔ استعماری قوتوں کو برائے نام قائم نظام خلافت بھی برداشت نہیں تھا کیوں مسلمان ان کے استعماری عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے ۔

ان قوتوں نے خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے مسلم ملکوں کے حصے اپنے اپنے نام کرلئے ۔ اس کے جواب میں اخوان المسلمین نام کی جماعت ان سے مزاحم ہونے کیلئے سامنے آئی ۔اسے بھی پرامن طریقے ان قوتوں نے کام نہیں کرنے دیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ اس میں سے کچھ لوگ الگ ہو کر بیس سالوں سے القاعدہ نام کی تنظیم سے دنیا میں مسلح جد جہد کیلئے نکل پڑے ۔امریکی دعووں کے مطابق ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد القاعدہ کے خاتمہ کیبعد داعش کو دنیا کے سامنے دہشت کی علامت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔

داعش کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ اب اس کا وجود بھی خاتمہ کے قریب ہے ۔ویسے کبھی کبھی یہ بھی خبر دنیا میں پھیلائی جاتی ہے کہ داعش نے فلاں فلاں خطہ میں اپنی پکڑ مضبوط کرلی ہے ۔ہر لمحہ متضاد خبریں آتی ہیں ۔اس سے دنیا میں عوام میں شکوک و شبہات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کہ یہ معاملہ کیا ہے ۔ایک طرف پچھلے چھ ماہ سے سے زائد سے حلب اور موصل کو داعش سے آزاد کرالینے کا دعویٰ کیا جاتا ہے تو دوسرے ہی لمحے یہ خبر آتی ہے کہ ابھی موصل یا حلب کے ایک حصہ پر داعش سے جنگ جاری ہے ۔دنیا میں جس طرح پرپگنڈہ کیا جارہا ہے کہ داعش کو ختم کردیا گیا ہے تو پھر یہ پریشانی کیوں ہے کہ اس کے خلاف جگہ بجگہ کانفرنسیں کرکے امن کی اہمیت و ضرورت اور داعش کے چیلنج پر لمبی لمبی تقریریں اور دعوے پیش کئے جارہے ہیں کہ وہ امن کیلئے ایک خطرہ ہے ۔یہاں ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ کسی خفیہ اور زیر زمین تنظیم کے بارے میں وثوق سے کوئی بات نہیں کہی جاسکتی ۔عام طور پر انہی خفیہ اور زیر زمین تنظیموں کی مدد سے مختلف ممالک اپنے خفیہ اداروں کے اشتراک سے اپنے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں ۔یہاں بھی داعش کے معاملہ میں ایسا سب کچھ نظر آجائے گا ۔آخر صرف داعش کا ہی تذکرہ کیوں کیا جاتا ہے ؟ ملیشیا تو اور بھی ہیں ان میں نمایاں نام حزب اللہ کا ہے اس پر کوئی گفتگو کیوں نہیں ہوتی ؟

بات یہ ہے کہ جس طرح وطن عزیز میں ایک مسئلہ چھیڑ کر عوام کو کسی اہم مسئلہ کیا جانب سے دوسری جانب موڑ دیا جاتا ہے ۔ٹھیک یہی معاملہ مشرق وسطیٰ کا بھی ہے کہ ایران اپنے توسیع پسندانی عزائم کی تکمیل کیلئے حزب اللہ کو استعمال کررہا ہے لیکن داعش کا پروپگنڈہ زور شور سے کرکے دنیا کی توجہ اس جانب موڑ کر خود کو امن کا حقیقی نمائندہ بننے کی کوشش کررہاہے ۔ہمیں کسی کی لے پر رقص کرنے سے پہلے حالات پر غور ضرور کرنا چاہئے ۔اور جیسا کہ معاملہ ہندوستان میں مسلم نوجوانوں کے داعش میں شمولیت کی بات تو یہ بھی محض مفروضہ ہے اور یہ بات تو دگ وجئے سنگھ بھی کہہ چکے ہیں کہ خفیہ ایجنسیاں فرضی اکائونٹ بنا کر نوجوانوں کو پھنسا رہی ہیں ۔اس کے علاوہ بری ہونے والے نوجوانوں کی آپ بیتی سے بھی پولس اور خفیہ محکمہ کی بد کاری ظاہر ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ملکی یا بین الاقوامی سطح پر امن کیلئے کوئی مخلصانہ کوشش نہیں کی جارہی ہے ۔جو کچھ ہمیں نظر آرہا ہے وہ محض ڈرامہ ہے ۔ دنیا کے کسی بھی خطہ میں امن کی ایک شرط ہے قیام انصاف ،انصاف قائم کیجئے بدلے میں خود بخود امن کا قیام ہوگا۔لیکن ہر طرف ناانصافی اور ظلم کا دور دورہ اس لئے دنیا میں امن قائم ہونے کی بجائے مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ ہے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔