قیامِ دارالعلوم دیوبند وعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی

ڈاکٹرعتیق الرحمٰن قاسمیؔ

 1857ء کے بعد کے ہنگامہ خیز اورانتہائی پرآشوب دور میں جب مسلمانوں کی سلطنت بالکل ختم ہوچکی تھی،مسلمانوں کی عزت ووقار خاک میں مل چکے تھے،اورہندوستانی مطلع پر ان کے لئے سیاہی کے سواکچھ نہ تھا۔دہلی کے لال قلعہ پر اسلامی پرچم کے بجائے یونین جیک لہرارہاتھا اورکھلم کھلا عیسائیت کی تبلیغ کادوردورہ تھا۔مسلمان اقتصادی پریشانیوں کا شکارتھے،انکے اوقاف اورمدارس ختم ہوگئے تھے،دہلی کی آخری درسگاہ تک بندہوچکی تھی،انہیں حالات میں جنگ آزادی کے دس سال بعد ۱۸۶۷؁ء میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد پڑی۔1؎

حضرت مولانامحمد قاسم صاحب نانوتویؒ نے اپنے چندرفقاء کیساتھ دارالعلوم کے نام سے 1847 مطابق 1283 میں اسکی بنیاد رکھی۔2؎

 مشہور تویہی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کی بنیاد مولانا قاسم نانوتوی نے رکھی،لیکن مفتی عزیزالرحمٰن بجنوری نے بہ دلائل اسکی تردید کی ہے ،واقعاتی تجزیہ سے مفتی صاحب کی بات صحیح بھی نظرآتی ہے،تذکرہ شیخ الہند میں مفتی صاحب تحریر فرماتے ہیں:

’’دیوبند کی چھتہ مسجد میں چند علماء نے مل کر ایک مدرسہ قائم کیا،جن کے نام یہ ہیں ۔حاجی سید عابد حسین صاحب،مولانا ذوالفقار علی صاحب،مولانا مہتاب علی صاحب ،منشی فضلِ حق صاحب‘‘۔3؎

 تذکرہ شیخ الہند کے آگے کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ مولانا محمد قاسم صاحب اس وقت جبکہ دارالعلوم کی بنیاد رکھی جارہی تھی تودیوبند میں موجود ہی نہیں تھے،بلکہ مولانا محمد قاسم اس وقت میرٹھ میں تصحیح کاکام کرتے تھے۔4؎  ، دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھ دینے کے بعد مدرسہ مذکور کیلئے جب چندہ شروع کیاگیا توسب سے پہلے رومال پھیلانے والے اورسب سے پہلے چندہ دینے والے حاجی عابد حسین صاحب ہی تھے۔5؎

   اس طرح رومال پھیلاکر چندہ دینے اورلوگوں سے لینے میں حاجی سید محمد عابد حسین صاحب نے شام تک تقریباً تین سوروپئے جمع کرلئے تھے،اورپھر مدرسی کیلئے مولانامحمد قاسم صاحب کومیرٹھ خط لکھا:

’’کل عصر اورمغرب کے درمیان تین سوروپئے جمع ہوگئے ہیں اورآپ تشریف لے آئیے ‘‘۔۶؎

   مولانامحمد قاسم صاحب بذاتِ خود تشریف نہ لاسکے،مگر آپ نے حاجی صاحب کے خط کاجواب تحریر فرمایا:

’’میں بہت خوش ہوا،خدا بہتر کرے ،مولوی محمد محمود صاحب کوپندرہ روپے ماہوار پر مقررکرکے بھیجتاہوں وہ پڑھائیں گے اورمیں مدرسہ کے حق میں ساعی رہونگا‘‘۔7؎

’’عجیب وغریب اتفاق ہے جو کہ مدرسہ کے حق میں نیک نامی تھی کہ مدرسہ کے پہلے طالبعلم اورپہلے مدرس دونوں ’’محمود‘‘ تھے،طالب علم وہ جو بعد میں شیخ الہند کے نام سے مشہور ہوئے،اور استاذ وہ جن کاتذکرہ مولانا محمد قاسم صاحب کے خط میںکیاگیاہے‘‘۔8؎

مندرجہ بالا واقعات وتجزیہ سے تویہی معلوم ہوتاہے کہ دارالعلوم دیوبند کے اصل بانی توحاجی سید محمد عابد حسین صاحب ہی تھے،یہ ضرورہے کہ آپ کے ذہن میں اتنا وسیع تخیل نہ تھا جو بعد میں مدرسہ نے اختیارکیا۔

  1920 تک دارالعلوم دیوبند کے عملی کاموں میں مولانا محمد قاسم صاحب کاذکر نہیں ملتا،ہاں 1292ھ میں جب مدرسہ کاموجودہ وسیع تخیل سامنے آیا اورخاکہ تیارہوا تواسمیں مولانا محمد قاسم صاحب کی ذاتِ گرامی پیش پیش تھی۔۹؎

مولانا عبیداللہ سندھی صاحب اپنی تصنیف کردہ کتاب’’ شاہ ولی اللہ کی سیاسی تحریک ‘‘ میں رقمطرازہیں:

’’یہ سب حضرات شاہ ولی اللہ ؒ کی تحریک سے متأثر اوراسی کے نقشِ قدم پر چلنے والے تھے مدرسہ کیلئے (موجودہ وسیع شکل میں )  ہفت سالہ نصاب ِ تعلیم اورمستقل نظام عمل اور اساسی قواعد مولانا محمد قاسم صاحب ہی نے بنائے اورپوری طرح آپ نے اس روح کو پیشِ نظر رکھا،جو شاہ صاحب اورآپ کے اخلاف کے پیشِ نظر تھی‘‘۔10؎

 مولانامحمد قاسم صاحب بھی شاہ ولی اللہ صاحب کی تحریک سے متعلق تھے،جب تک دہلی میں تحریک زندہ رہی آپ خدمات انجام دیتے رہے۔1857 کے بعد جب مسلمانوں میں دومختلف رجحانات پیداہوگئے توایک مکتب فکر کی قیادت مولانا موصوف نے کی اوردوسرے کی سیادت سرسید احمدخان کے حصہ میں آئی۔11؎

   یہ تومسلم حقیقت ہے کہ دونوں حضرات نے ملتِ اسلامیہ کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو پار لگانے میں نمایاں کارنامہ انجام دیاہے،کیونکہ دونوں ایک ہی درخت کی دوشاخ تھے،مولانا عبیداللہ سندھی نے اس پر اسطرح روشنی ڈالی ہے۔

’’ایک ہی سرچشمۂ فیض سے دونوں نے فائدہ اٹھایاتھا،مولانا محمد قاسم صاحب نے دیوبند کے مدرسہ کوآکر وسعت دی اورسرسید نے علی گڑھ میں مدرسۃ العلوم کی بنا ڈالی‘‘۔12؎

 سرسید اورمولانا محمدقاسم صاحب کے درمیان اگرچہ اختلافات تھے ،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سرسید مولانا کابہت احترام کرتے تھے،اس کی وضاحت اس خط سے بھی ہوتی ہے جو سرسید نے اپنے ایک دوست پیرمحمد عارف کولکھاتھا،اس خط میں سرسید نے مولانا محمد قاسم صاحب کیلئے جو الفاظ تحریر فرمائے تھے وہ یہ ہیں ’’اگرجناب مولوی محمد قاسم صاحب تشریف لائیں تومیری سعادت ہے ،میں انکی کفش برداری کواپنا فخر سمجھونگا۔13؎

  مولانا محمد قاسم صاحب کے متعلق سرسید احمد خان کے خیالات کااندازہ سرسید کی اس تحریر سے بھی ہوتاہے جو سرسید نے مولانا محمد قاسم صاحب کی وفات پر سپردِ قلم کی تھی۔لکھتے ہیں :

’’زمانہ بہتوں کورویاہے اورآئندہ بھی بہتوں کوروئے گا۔لیکن ایسے شخص کیلئے رونا جسکے بعدکوئی اسکا جانشین  نظرنہ آئے،نہایت رنج وغم کاباعث ہوتاہے ،لوگوں کا خیال تھاکہ بعد جناب مولوی محمد اسحاق صاحب کوئی شخص انکے مثل ان تمام صفات میں پیداہونے والے نہیں ،مگر مولوی محمد قاسم نے ثابت کردیاکہ اسی دلی کی تعلیم وتربیت کی بدولت مولوی محمد اسحاق صاحب کے مثل اورشخص کوبھی خدانے پیداکیا،بلکہ چندباتوں میں ان سے بھی زیادہ،اس زمانے میں سب لوگ تسلیم کرتے ہیں اورشاید وہ لوگ بھی جوان سے بعض مسائل میں اختلاف کرتے ہوں گے کہ مولوی محمد قاسم صاحب اس دنیا میں بے مثل شخص تھے ،ان کاپایہ اس زمانے میں شاید معلوماتِ علمی میں شاہ عبدالعزیز صاحب سے کچھ کم ہو۔اِلاّ اورتمام باتوں میں ان سے بڑھ کر تھا،مسکینی اور نیکی اورسادہ مزاجی میں اگر ان کاپایہ مولوی اسحاق صاحب سے بڑھ کر نہ تھاتوکم بھی نہ تھا،درحقیقت فرشتہ سیرت اورملکوتی خصلت کے شخص تھے ،اورایسے شخص کے وجود سے زمانہ کاخالی ہوجانا ان لوگوں کیلئے جوان کے بعد زندہ ہیں نہایت رنج اورافسوس کاباعث ہے ‘‘۔14؎

پروفیسر سعید احمد اکبرآبادی نے علی گڑھ تحریک میں مولانا محمد قاسم صاحب کے متعلق لکھاہے:

’’مولانا محمد قاسم صاحب تحریک شاہ ولی اللہ کے ان وابستگان میں تھے جنہوں نے انگریزوں سے بذاتِ خود مقابلہ کیا،شاملی کے میدان میں آپ کی امارت میں جنگ ہوئی ‘‘۔15؎

مولانامحمد قاسم نانوتوی کے توکل علی اللہ کایہ عالم تھاکہ انگریزی حکومت توکیا ،امراء اوروالیانِ ریاست سے تعلقات اوران پر تکیہ پسندنہ کرتے تھے مدرسہ کے سلسلہ میں آپ نے اپنے وصیت نامہ میں تحریر فرمایاتھاکہ :

1- اس مدرسہ میں جبتک آمدنی کی کوئی سبیل یقنی نہیں ہے،تب تک یہ مدرسہ انشاء اللہ بشرط توجہ الی اللہ اسی طرح چلے گااور اگر آمدنی یقینی ایسی حاصل ہوگئی جیسے جاگیر ،یاکارخانۂ تجارت یاکسی امیرمحکم القول کاوعدہ توپھر یوں نظر آتاہے کہ یہ خوف ورجاء جو سرمایہ رجوع الی اللہ ہے ہاتھ سے جاتارہیگا،اور امدادِ غیبی موقوف ہوجائیگی،اورکارکنوں میں نزاع پیداہوجائیگا،القصدآمدنی اورتعمیر وغیرہ میں ایک نوع کی بے سروسامانی ملحوظ رہے۔

2-  سرکار کی شرکت اورامراء کی شرکت بھی مضرمعلوم ہوتی ہے۔

3-  تامقدور ایسے لوگوں کاچندہ زیادہ موجبِ برکت معلوم ہوتاہے جن کو اپنے چندے سے امید ناموری نہ ہو،بالجملہ حسن ِ نیت اہل چندہ زیادہ پائداری کاسامان معلوم ہوتاہے۔16؎

دارالعلوم کاپہلا دورمولانارشید احمدگنگوہی کی وفات پر ختم ہوا،مولانا موصوف کے دورمیں دارالعلوم میں علمی وفکری توسیع ہوئی ،اسکے بعد1333 سے حضرت مولانا محمود حسن صاحب شیخ الہند کی صدارت میں دوسرادورشروع ہواجوآپ کی وفات پر ختم ہوا۔17؎

 اس حقیقت سے کوئی بھی نااتفاقی نہیں کرسکتاکہ شیخ الہند کے دور میں دارالعلوم نے نمایاں ترقی کی اوروہ مرکزی فکر جو شاہ ولی اللہ کی تحریک کانتیجہ تھی۔آپ کے دور میں زیادہ پھلی پھولی،جس کامظہر مختلف تحریکات سے اہل دیوبند کی وابستگی ہے اوربھی متعدد تحریکوں کی دارالعلوم دیوبند سے ابتداء ہے۔

تعلیمات مولانا عبیداللہ سندھی کے مصنف محمد سرور اپنی تحریر میں لکھتے ہیں :

’’شیخ الہند کے عہد کاسب سے نمایاں کارنامہ یہ ہے کہ آپ کی ساعی سے علی گڑھ اوردیوبند والے ایک پلیٹ فارم پر نظرآنے لگے‘‘۔18؎

علی گڑھ سے اختلاف اگرچہ شیخ الہند کوبھی تھے اورانہیں سرسید سے وہ ربط بھی نہ تھاجو سرسید اوربعض دوسرے بزرگانِ دیوبند کے درمیان تھا،پھر بھی آپ کے ذریعہ دیوبند اورعلی گڑھ کے درمیان جو بُعد تھابڑی حدتک کم ہوگیا۔19؎

 درالعلوم دیوبند اوعلی گڑھ کے روابط کے سلسلے میںموجِ کوثر کی آگے کے صفحہ کی عبارت سے وابستگی کامزید احساس ہوتاہے،لکھتے ہیں:

’’1909ءمیں جمعیۃ الانصار کاقیام اس سلسلہ میں ایک اہم قدم تھا،اسکے جلسوں میں علی گڑھ سے صاحب زادہ آفتاب احمد خان وغیرہ بھی شریک ہواکرتے تھے ،انہیں دنوں دیوبنداورعلی گڑھ کے مابین یہ معاہدہ ہواتھا کہ جو انگریزی خواں طلباء علوم ِ اسلامیہ میں دست رس حاصل کرناچاہیں ،دیوبند ان کے لئے خصوصی نظم کریگا،اورجو عربی داں طلباء دیوبند سے علی گڑھ آکر تعلیم حاصل کرناچاہیں گے علی گڑھ انکے لئے مناسب سہولتیں بہم پہونچائیگا‘‘۔20؎

 مولاناسید محمد میاں نے تحریر فرمایا ہے کہ علی گڑھ اوردیوبند کے درمیان اس تعلیمی معاہدہ کی تجویز صاحبزادہ آفتاب احمد خاں نے پیش کی تھی۔21؎

  1915 میںمولانا عبیداللہ سندھی اورانکے بعد مولانا شیخ الہند ہندوستان سے باہر چلے گئے اورعلی گڑھ دیوبند کے درمیان خلاء پرکرنے کاکام رک گیا۔1920ءمیں جب شیخ الہند واپس آئے تودق کے مریض اوربس چنددن کے مہمان تھے ،دیوبند اورعلی گڑھ کے درمیان رابطہ کے ایک اہم مظہر کے طورپر آپ نے جامعہ ملیہ کاسنگِ بنیاد رکھا جوعلوم ِعصریہ کی اعلیٰ تعلیم کے لئے ایک ایسی آزاد درس گاہ تھی جسکاتمام ترنظام عمل ،اسلامی خصائل اورقومی محسوسات پر مبنی ہو۔22؎مگرافسوس ہوتاہے یہ دیکھ کرکہ جامعہ ملیہ کی یہ حیثیت تقریباً ختم ہوگئی ہے۔

 دارالعلوم دیوبند ہندوستان میں دینی تعلیم کاصرف ایک مرکز ہی نہیں ہے،بلکہ اس کوبہت سی دینی تحریکات کاسرچشمہ بھی ہونے کافخر حاصل ہے،اس کے قیام میں ایک اہم ترین مقصد ۵۷ھ؁ کی ناکامی کی تلافی تھی،چنانچہ اسمیں بیعتِ جہاد تک لی گئی تھی۔۲۳؎

 ایک عمومی اندازے کے مطابق دارالعلوم سے ابتک تقریباً ۵۰؍ ہزار سے زائد طلباء فارغ ہوچکے ہیں ،جنہوں نے ملک اوربیرون ِ ملک میں نمایاں خدمات انجام دے کر نہ صرف ملتِ اسلامیہ بلکہ پورے ملک کانام روشن کیاہے ، یہاںچند نامورانِ دارالعلوم کی فہرست پیش ہے جن کی خدمات کاشہرہ ملک سے نکل کربیرونِ ملک تک پہونچاہے،جن کی علمی وتبلیغی مساعی وخدمات نے عالمِ اسلام تک سے خراجِ تحسین حاصل کیاہے۔شیخ الہند مولانامحمود حسن،مولانا اشرف علی تھانوی ،مولانا انورشاہ کشمیری ،مولانا حسین احمد مدنی ،مولانا حبیب الرحمٰن عثمانی،مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی ، مولانا عتیق الرحمٰن عثمانی ،مولانا محمد منظور احمدنعمانی،قاری محمد طیب صاحب وغیرہم۔

یہ وہ حضرات تھے جنہوں نے اپنی مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند کاساری دنیا میں نام روشن کیاہے ،اور جن کی خدمات رہتی دنیا تک قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھی جائیں گی،بلاشبہ قیام دارالعلوم وعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی وقت کی اہم ضرورت تھی ان دونوں درسگاہوں کے فارغین نے وقت کی اہم ضرورت کوپوراکیا۔ملک کے ایسے حالات میں جب دین اورتعلیم دین کاتصور نہ تھا۔انگریزوں کے قائم کردہ اسکول تھے جویاتو اپنے یہاں کے پڑھے ہوئے طلباء کو عیسائی بناکر چھوڑتے تھے یاکم ازکم ان کومذہب سے بیزارکردیتے تھے ،ان اداروں نے ملک کی صحیح دینی وعصری رہنمائی کی۔اس سلسلے میں ان اداروں اورانکے بانیئین کی خدمات آبِ زرسے لکھی جانے کے قابل ہیں،ان اداروں کے فارغین نے نہ صرف مختلف تحریکوں کیساتھ وابستہ ہوکر کام کیا بلکہ متعدد تحریکوں کے عالم ِ وجود میں آنے کاذریعہ بنے،اللہ ہمیں ان کی قربانیوں کویاد رکھنے کی توفیق بخشے۔

حواشی

1-        محمد انوارالحسن شیرکوٹی ،حیات ِ امداد،ص:13۔14۔

2-         پروفیسر سعید احمد اکبرآبادی ،(مضمون)رسالہ:برہان،ستمبر 1984ء،شمارہ نمبر:3،ص:6۔

3-         مفتی عزیر الرحمٰن بجنوری ،تذکرہ شیخ الہند ،ص:137۔

4-         تذکرہ شیخ الہند ،ص:139۔

5-         مولاناسید محمد میاں ،علمائِ حق،ج:1،ص:73۔

6-         مولانا مناظراحسن گیلانی ،سوانح قاسمی ،ج:2،ص:25۰،

7-         سوانح قاسمی ،ج:2،ص:250۔

8-         مولانامحمد قاسم نانوتوی ،سوانح عمری مولانا محمد قاسم نانوتوی،ص:2۔

9-         تذکرہ شیخ الہند،ص:141۔

10-       مولانا عبید اللہ سندھی ،شاہ ولی اللہ کی سیاسی تحریک ،ص:250۔

11-       مولاناعبیداللہ سندھی ،افتتاحی خطبہ،ص:6،12؍جنوری 1940ءلارنس روڈ کراچی۔

12-       شاہ ولی اللہ کی سیاسی تحریک ،ص:185۔

13-       مشتاق احمد،مکاتیب سرسید احمدخاں،ص:475،نامی پریس لاہور ۔

14-       سرسید احمد خاں ،علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ ،ص:267،24؍اپریل 1880ء یوم شنبہ ۔

15-       پروفیسر سعیداحمد اکبرآبادی ،علی گڑھ تحریک ،ص:218۔

16-       سید طفیل احمدمنگلوری ،مسلمانوں کاروشن مستقبل ،ص:77۔176۔

17-       شاہ ولی اللہ کی سیاسی تحریک ،ص:208۔

18-       محمد سرور تعلیماتِ مولانا عبیداللہ سندھی ،ص:130۔

19-       شیخ اکرام ،موج کوثر ،ص: 222۔

20-       موج کوثر ،ص: 224۔

21-       علماء ِ حق،جلد:1،ص:131۔

22-       موج ِ کوثر ،ص:225۔

23-       عبدالصمدرحمانی ،انقلابی دورکاتیسرا امیر،ص:20۔

تبصرے بند ہیں۔