مسلمان فنا وبقاء کی کشمکش میں!

ابراہیم جمال بٹ

’’کروٹ لینا کوئی گناہ نہیں لیکن اس طرح لینا کہ سامنے موجود شخص اس قدر خوف زدہ ہو جائے کہ وہ اپنے آپ سے ہی بے خبر ہو جائے، اسے ہم کروٹ نہیں بلکہ کچھ اور نام دے سکتے ہیں ۔ آرام کے دوران رات دن کی لیتی ہوئی انسانی کروٹیں انسان کے اندر کوئی تبدیلی کا باعث نہیں بنتیں بلکہ یہ کئی لوگوں کے آرام کا ایک حصہ کہلاتا ہے، لیکن اگر یہی کروٹیں باعث تبدیلی بن جائیں تو اسے ایک ایسا عنوان دیا جانا چاہیے جس میں پیچ وتاب ہو، انقلاب ہو۔‘‘ یہی وہ مقام ہے جب انسان کوخالق ومالک کے دربار میں اپنی اس حالت پر شکر کا جذبہ پایا جانا چاہیے۔ ایک کمزور انسان،جس میں بظاہر ایسی طاقت ہی نہیں پائی جاتی کہ وہ ایک طاقتور کا مقابلہ کر سکے، اچانک اس کے قلب وجگر میں ، اس کی رگ رگ میں ، اس کے ہاتھوں میں ایسی ایک غیر مرعی طاقت آجاتی ہے جس کا اسے سان گمان بھی نہیں تھا، تو یہ چیز اسے ظاہریت سے نکال کر باطنیت پر سوچنے کے لیے مجبور کر دیتی ہے۔ اس طرح انسان ظاہری تماشا اور طاقت کو ایک حقیر چیز سمجھ لیتا ہے، کیوں کہ اسے طاقت کی اس ظاہریت پر بہت حد تک بھروسہ ہی اُٹھ جاتا ہے۔

 یہ بات انسان کو معلوم ہی ہے کہ اس دنیا میں ہر چیزکا فیصلہ ظاہر کو دیکھ کر ہی کیا جاتا ہے لیکن جب ایک انسان انہی ظاہر ی چیزوں میں اپنی آنکھوں کی بصارت سے فنائیت دیکھ لیتا ہے تو وہ بہت حد تک اسے متاثر کر ہی دیتا ہے۔ اسے یہ بات تسلیم کرنا ہی پڑتی ہے کہ سب کچھ ’’ظاہر داری‘‘ ہی نہیں ہے، بلکہ یہ ظاہر داری ایک ناپائیدار چیز ہے، اس کے مقابل میں وہ چیز جو انسان کو دِکھتی نہیں جسے ’’باطنیت‘‘ کا نام دیا جائے تو صحیح ہو گا، نیز اسے معلوم پڑتا ہے کہ اصل چیز اور اصل حقیقت کیا ہے۔ یہ دنیا جس میں ہم زندگی کے وہ لمحات گزار رہے ہیں جو ہمارے خالق حقیقی اور معبود برحق نے ہر کسی متنفس کے لیے مقرر کر کے رکھے ہیں ، ہر انسان اس دنیا میں اسی وقت تک موجود و زندہ رہتا ہے جب تک اس کے جسم میں جان اور روح ہے، اور جونہی اس کے جسم سے جان و روح نکال دی جاتی ہے اسی وقت انسان کا یہ ظاہری وجود اس دنیا میں ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن جب تک جسم میں جان ہے تب تک انسان کو دنیا میں اپنا ایک خاص مقام حاصل رہتا ہے۔ گویا زندگی کو دوسرا نام ’’جسم ِباروح ‘‘کوہی کہیں گے، روح نہ ہوتو جسم بے جان ہوتا ہے ، اور بے جان چیزوں کی اس دنیا میں کوئی قیمت نہیں ، بلکہ اسے جلد از جلد زمین کی نظر (دفن)کیا جاتا ہے۔

دنیا میں پلنے والی انسانی مخلوق جہاں ظاہریت کے اعتبار سے کمزور بھی ہوا کرتی ہے اور طاقت ور بھی۔ یہ نظارہ ہم اور آپ ہر روز کر رہے ہیں ۔ ایک طرف امیر لوگ ہیں تو دوسری طرف غریبوں کا بھی کوئی شمار نہیں ، ایک طرف طاقت کا نشہ ہے تو دوسری جانب کمزوریوں نے اسی انسان کو گھیر کر رکھا ہے۔ ایک طرف تندورست اشخاص ہیں تو دوسری جانب ہسپتالوں کے ہسپتال بیماروں سے گھرے پڑے ہیں ، یہ دونوں کردار اس دنیا میں پائے جاتے ہیں ۔ یہی وہ دو کردار ہیں جن سے زندگی کا یہ نظام چلتا ہے۔ یہاں امیری اور غریبی نہ ہوتی تو دنیا کا یہ نظام صحیح طور سے نہ چلتا، یہاں طاقت اور کمزوری نہ ہوتی تو اصل لفظوں میں یہاں کوئی کشمکش ہی نہ ہوتی اور جو کشمکش نہیں ہوتی تو دنیا میں انسان کو بھیجنے کا کیا مقصد؟ گویا یہ دونوں اضداد اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں ، ان دونوں کرداروں کا ہونا اس دنیا میں رہنے والے انسان کے لیے ضروری ہے لیکن کمزور یہ سمجھے یہ دنیا صرف طاقتور کے لیے تخلیق ہوئی ہے، یا کوئی یہ سمجھے کہ میں کمزور ہوں ، میرا یہاں کوئی مقام نہیں ، لہٰذا میں کمزوری کا ہی شکار ہوتا رہوں ۔ یہ نشے اور مایوسی کی دو ایسی بیماریاں ہیں کہ جب کسی قوم کے لوگوں میں داخل ہو جائیں تو اس قوم کا جینا بھی دوبھر ہوجاتا ہے اور مرنا بھی مشکل۔ کیوں کہ وہ اس دنیا میں جیتے ہیں لیکن انسان کی طرح نہیں بلکہ جانوروں اور چوپایوں کی طرح۔ ان کا جینا مرنا، کھانا پینا، چلنا پھرناسب نشہ اور مایوس کا شکار رہتا ہے، ان کی رگ رگ میں یہ جابسا ہوتا ہے کہ وہ طاقت ور یا کمزور ہے اور وہ پیدا اسی صورتحال کے لیے کئے گئے ہیں ۔

مگر جب اس انسان کو یہ معلوم ہو جائے کہ جو شخص بظاہر آج طاقتور دکھائی دیتا ہے وہ بھی کبھی ہماری طرح کمزور ہوا کرتا تھا، تو اس انسان میں ایک حوصلہ اور جذبہ پیدا ہوتا ہے، اور وہ جذبہ اسے اس قدر جلا بخشتا ہے کہ اس کی رگ رگ میں جیسے نئی جان آجاتی ہے۔ تب اس کے اعضا مفلوج نہیں رہتے بلکہ وہ متحرک ہو جاتے ہیں ، اس کا چلنا اور بیٹھنا، اس کا سونا اور جاگنا، اس کا لمحہ لمحہ ایک تبدیلی کا باعث بن جاتا ہے۔ اس کی زندگی کی اصل روح اسے حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اپنی اصل حقیقت سے واقف ہو جاتا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے ہم دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔ ایک اہم حصہ وہ ہے جس کا نام ’’ظاہر‘‘ اور دوسرا اہم تر حصہ جسے ہم ’’باطن‘‘ کا نام دیتے ہیں ۔ ظاہری طور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے، جس کی اپنی ایک حقیقت بھی ہے۔ کیوں کہ انسان اپنے خالق ومالک کے مقابلے میں کمزور ہی ہے۔لیکن جب انسان اپنی ظاہری حیثیت سے اوپر اٹھ کر اس باطنیت کا سہارا لیتا ہے جس میں کوئی کام نہ ہونابے معنی چیز ہے، تو اس کی مردہ جان میں بھی زندگی کی روشنیاں نظر آتی ہیں ۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ ’’ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ‘‘ یعنی انسان جب اس رسی کا سہارا لے لیتا ہے ،جس میں دوام ہے، بقا اور حفاظت ہے، تو اس میں ظاہریت کی کمزوری کے ہوتے ہوئے بھی وہ اس مقام کو حاصل کرتا ہے جہاں کی وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

 موجودہ دور میں انسان نے بہت سارے انقلابات دیکھے ہیں جن میں کئی ایسے انقلابات بھی آئے جو بظاہر ناممکن تھے، جن کے بارے میں سوچنا بھی گناہ جیسا لگتا تھا، مگر انسان حیران وششدر ہے کہ اس کے ہاتھوں سے وہ انقلابات آئے۔ آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل کی بات ہے کہ ایک ایسا پاک شخص اٹھتا ہے جو بظاہر غریبی کی زندگی گزار رہا تھا، جس کے پاس کوئی مال وزر نہیں ، جو مال وزر سے ہی خالی نہیں تھا بلکہ اس کا قریبی رشتے کا وہ حصہ جسے ماں باپ کہتے ہیں اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے نکل چکے تھے۔ اس ظاہریت کو دیکھ کر انسان دور سے کہہ سکتا ہے کہ اس ایک شخص کے ذریعے سے کیا کچھ ہو سکتا ہے، لیکن تاریخ انسانی کے اس ایک واحد عظیم المرتبت پیغمبر… محمد صلی ا اللہ علیہ و سلم…نے پوری دنیا کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی، دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا کر دیا کہ یہ ظاہری طور دیکھنے والی آنکھیں بھی دھنگ اور یہ سوچنے والا ظاہربین دماغ بھی پریشان ہیں ۔ یہ اس ذات مقدس کی ذاتی طاقت نہ تھی بلکہ خالق کائنات ،رازق اور منعم حقیقی اللہ کی طاقت و محبت کا بلند ترین شہ کاری اظہار ہے جس کے سہارے یہ عظیم شخصیت پروان چڑھی اور آگے بڑھی۔ اللہ نے آپﷺ کو ایسی طاقت بخشی دی جس کے آگے نہ روم کا دبدبہ رہا نہ شام کا غلغلہ ور نہ ہی عربوں کی جاہلیت و شرک و کفر کی آندھیاں ٹھہر سکیں ۔اس عظیم المر تبت شخص کے پاس اللہ کی عطاکردہ جو عظیم ترین طاقت تھی اس نے پوری دنیا میں تاقیام قیامت ایسی تبدیلی لائی کہ آج ساڑھے چودہ سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس کا عظیم ترین نام اور اس کا عظیم تر ین کام جدید جاہلیت کے باجود دنیا کے کونے کونے میں اْجالا پھیلاتا جارہا ہے۔ یہ طاقت ایسی طاقت ہے کہ ان کے ساتھی جانبازوں کے اندر اخلاق کریمانہ کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر اور ہاتھوں میں زنگ آلود تلوار تھیں لیکن انہوں نے اس بے سروسامانی کے باوجود آپﷺ کی اخلاقی قیادت ورہبری میں دشمنوں کو دوست کردیا اور جو ضد اور اکڑ پر اڑے رہے ان کو حق کے بول بالا کے لئے زنگ آلودہ تلوار سے زیر بھی کیا۔ اس ذات اقدسﷺ کی ایک ایک قول مبارک  ایک ایک فعل صالح میں اس قدر اثر تھا کہ بستیوں کی بستیاں نہیں بلکہ قوموں کے قوم اردگرد جمع ہو کر دست حق پر ست پر بیعت کر گئے۔ یہ نتیجہ تھا آپﷺکے پاس اُس خدائی طاقت کا جو دیکھی بھی جاتی اور محسوس بھی کی جا تی۔ اور اب اس کا یہ اثر برقرار وباقی ہے۔

 اسی عطائی طاقت کی ایک معجزہ نمائی چند ہی سال پہلے دنیا میں یوں دیکھی گئی کہ غریب اور مفلس افغان قوم نے وقت کی عالمی طاقت کا نشہ چور چورکر دیا کیونکہ اس نے افغانوں کو اپنے اشتراکی ظلم وجبر سے کی ان رگِ جان اور حسِ ایمان پر تیشہ مارنے کی بھول کی تھی۔ یہ سو ویت تھا جس نے ایک مفلس وغریب قوم کیا یمان اور آزادی لو لتاڑنے کی کوشش کی ، مغلوب  افغانوں کے پاس کوئی ظاہری مادی طاقت نہ تھی اورنہ کوئی جدیداسلحہ و گولہ بارود تھا ، لیکن ان کے پاس طاقت خدا پر ایمان وتوکل تھا جس نے روسی دبدبے کا نام ونشان تک ختم کر دیا کہ اس کی’’سپر پائور یت‘‘ کا درجہ نہتے افغانوں نے اپنے پیروں تلے روند ڈالا اور اس کے اتنے ٹکڑے ہو گئے کہ دنیا حیران وششدر رہی۔ اللہ کی یہی وہ ناقابل تسخیرطاقت ہے جس کے سہارے کی انسان کو ہر وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔

آج ملت اسلامیہ دنیا بھر میں ظلم وبربریت کی شکار ہے، مسلم ممالک واقوام کا کونہ کونہ اغیاراور اعدائے دین کی ظاہری مادی قوت سے پامال ہورہا ہے،مرعوبیت زدہ مسلمانوں کو اپنا مستبقل مخدوش دکھائی دیتا ہے، انہیں لگتا ہے کہ ہم اس قدر کمزور و غیر موثر ہیں کہ باطل کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ان کے ذہن میں ہے کہ انہیں اپنی تاریخ کے اوراق کبھی کھولنے یا انہیں سمجھنے کی چٹی نہیں پڑی ہے، انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ہم ہی ہیں جنہوں نے ایمان وعمل صالح  کے بل پرپوری دنیا کو تبدیل ہونا سکھایا۔ ہم ہی ہیں جنہوں نے قوموں کو تہذیب سکھائی، جنہوں نے علم کی دولت سے پوری دنیا کو مالامال کیا، جن کے بارے میں اپنے ہی نہیں غیر بھی تعریفیں کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ آج کے مرعوبیت زدہ مسلمانوں کی حالت زار پر جب غو ر وخوض کیا جائے تو یہی اخذہوتا ہے کہ آج ہم میں ایمانی طاقت اور صالح عملی کا فقدان ہے،ان کا سہارا ہمیں کبھی حاصل تھا، ہم نے ان فاتحہ زمانہ سہاروں کو ترک کیا تو اسی کا خمیازہ ہم ظلم وبربریت اور عالمی سطح پر بے توقیری کی صورت میں اٹھا رہے ہیں ۔

اگر ہم نے اس جد ید علوم کے ظاہری سہاروں کے پہلو بہ پہلوا ن باطنی طاقتوں کو اپنا لیا ہوتا تو آج بھی ہمارا مقام اور ہمارا ذکر سنہرے الفاظ سے لکھا جائے گا۔ وائے افسوس! ہم نے باطنی طاقت کے سرچشمے سے ترک تعلق کیا ہے۔ اسی کا منطقی لزوم ہے دنیامیں فنائیت ہے۔ ہم اپنے گھمبیرمسائل کے حل کے لیے ایسی خدا بیزار طاقتوں کا سہارا لینے کی کوششیں کرتے ہیں جن سے دیر سویر ہماری ہار ہی ہار ہونی ہے۔ یہ ظاہری سہارے امریکہ اور برطانیہ کی صورت میں زمانے کے خدا ہوں یا خاد فراموش ا زماموں اور فلسفوں کے امام ، یہ ہمیں کیا سہارا دیں جب کہ انہیں خود کسی مضبوط سہارے کی تلاش میں کی پیاس لگے رہتی ہے۔ ہمارے بیشتر مسائل کا حل نہ مشرقی طاقتوں کے پاس ہے اور نہ ہی مغربی طاقتوں کے پاس ،نہ کوئی شمالی وجنوبی طاقت اس میں ممدو مددگا ثابت ہو سکتی ہے ، ہمارے جملہ مسائل کا اگر کسی کی طاقت اور مدد سے حل ہونے کی امید ہے تو وہ صرف اور صرف خالق کائنات کی ذات اعلیٰ وبالا ہے۔

آج ضرورت اسی بات کی کہ ہم ایک ایسی ایمانی اور عملی کروٹ لیں جس سے غیروں کی خدائیت کا سکہ ہامرے بازاروں میں کھوٹا بنے ،  اپنے قریب اور نزدیک آجائیں اور ہم سیسہ پلائی دیوار بن کر دنیا کو نمونۂ جنت بنائیں علم اور عمل کے بل پر۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم کلمہ طیبہ پر ایمان کی ہرآن تجدید کریں ، امت واحدہ بنیں ، ظاہریت کی شیطانی مرعوبیت اپنے دلوں سے نکال دیں ، اپنے اندر اخلاص و شعور پیدا کر دیں اورکشمکشِ زنداگانی کے ہر موڑپرخدائی طاقت کا سہارا پکڑ لیں ۔ یہ وہ سہارا ہے جس کا حصول ہوا تو دنیا کی کوئی بھی بڑی سے بڑی طاقت دوپل بھی اس کے آگے ٹک نہ سکے گی۔ اسی لیے ہمیں تاکید کی گئی ہے کہ ’’اس رسی (خدا کے سہارے) کو ایک ساتھ مضبوطی سے پکڑ و اور تفرقہ نہ ڈالو‘‘۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔