قیصر تمکین کا تنقیدی رجحان

احسن ایوبی

انگریزی اور دوسری ترقی یافتہ زبانوں کے ادبی رجحان اور تنقیدی پیمانوں کو اردو ادب میں پرکھ اور مطالعہ کے لیے استعمال کیا جاتا رہاہے۔ زبان کے تہذیبی افتراق کے باوجود ان زبانوں کے وسائل کا اطلاق ہوتا رہا ہے لیکن قیصر تمکین ان تسلیم شدہ پیمانوں کو بلا تفریق اردو ادب میں استعمال کرنے کے خلاف ہیں۔ وہ تخلیقی ادب کو تاریخی، سیاسی، سماجی، ذہنی اور نفسیاتی عوامل و محرکات کا مظہر قرار دیتے ہیں اور ادبی شعور کی تشکیل کو انھیں حقائق کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ان کے نزدیک اردو ادب پر انگریزی کے مروجہ نظریات کا اطلاق فیشن زدگی یا اضافی امر سے زیادہ کچھ نہیں۔ جبکہ ان کے تنقیدی مباحث میں ادب کا بین الاقوامی پس منظر ہر جگہ موجود ہے۔ انھوں نے تخلیقی عمل اور تنقیدی رجحانات کی بحثیں چھیڑ کر وسعت مطالعہ کا ثبوت دیا ہے۔ قیصر تمکین کے مضامین کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تہذیبی اور ثقافتی لوازم سے واقفیت کے بغیر شعر و ادب کے تعین قدر کا دعوی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس نوع کے مضامین سے ان کے تنقیدی رویوں کو گہرائی سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

          یہ حقیقت ہے کہ تنقید محض تشریح و تعبیر کا نام نہیں بلکہ سماج اور سماجی ارتقا،ملک و قوم کی تہذیبی زندگی اور سماجی پس منظر بھی تنقید ی تاثرات میں شامل ہوتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ اردو تنقید کے بنیاد گزاروں کی تحریروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ احتشام حسین،ممتاز حسین، حسن عسکری، آل احمد سرور وغیرہ نے قومی و تہذیبی مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اس طرز نقد کی اتباع قیصر تمکین کے یہاں بھی نظر آتی ہے۔ انھوں نے اپنے کئی مضامین میں سیاسی،سماجی اور معاشی اتھل پتھل کے اثرات ادب میں تلاش کرتے ہوئے ایک نئے زاویے سے مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ’بیسویں صدی کے رجحانات‘ میں انھوں نے اس صدی کی سیاسی و معاشی صورت حال کی روشنی میں ادیبوں پر گزرنے والے آزمائشی  لمحات کاتجزیہ کیا ہے۔ خاص طور پر بیسویں صدی کا نصف آخر ادبی تحریکوں اور ادبی تغیرات کا زمانہ تھا۔ کچھ تحریکیں تشکیل پارہی تھیں اور کچھ دم توڑ رہی تھیں۔ اردو میں ترقی پسند ادیبوں میں مردنی چھانے لگی تھی، جدیدیت کے علمبردار نئے تجربات کا دم بھر رہے تھے۔ چونکہ قیصر تمکین یوروپ میں تھے اور صحافت سے وابستہ تھے، ادبی کالم لکھا کرتے تھے،اسی لیے وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ یوروپ اور ایشیا کے مختلف ممالک کے ادبی رجحانات سے کم و بیش باخبر تھے۔

          شعر و ادب کے فروغ کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ ایک مہذب معاشرہ وجود میں آئے۔ لیکن عام لوگ تو درکنار خود ادیب ہی بعض دفعہ ان جبلتوں پر قابو پانے میں ناکام ہوتے ہیں جن سے مغلوب ہوکر انسان غیر اخلاقی عمل کر بیٹھتا ہے۔ قیصر تمکین نے ’روئے ادب، سوء ادب ‘ میں اسی مسئلہ پر اظہار خیال کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ علمی و فنی اداروں میں جو لوگ جائز و نا جائز طریقوں سے اپنی کرسی اور عہدے مضبوط کرنے میں کوشاں رہتے ہیں، انھیں ادیب کیوں کر کہا جا سکتا ہے، وہ تہذیب و شائستگی کو بالائے طاق رکھ کر جس طرح جوڑ توڑ اور ایک دوسرے کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں مصروف رہتے ہیں وہ تہذیب و تمدن کے ارتفا ع کے بجائے اخلاقی زوال کا شاخسانہ ہے۔

تخلیقی عمل کو اکتساب سے واسطہ نہیں ہوتا، یہ محض ایک فیضان ہوتا ہے۔ قیصر تمکین کا خیال ہے کہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی تخلیقی صلاحیتیں شروع سے اخیر تک محو عمل اور فعال رہتی ہیں، ورنہ عام طور پر فنکار ایک خاص منزل پر پہنچ کر تھکے تھکے سے لگتے ہیں یا آمد کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ اس لیے ایسے مقام پر پہنچ کر خاموشی سے خود تنقیدی یا مطالعے اور فکر میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی فنکار نقد و نظر کے اچھے برے معیار سے ذرا بھی واقف ہو گا تو وہ جذبہ و فکر کے اظہار سے پہلے اور بعد تک کاٹ چھانٹ اور ترمیم و اضافہ ضرور کرتا رہے گا۔ تخلیق کار اور قارئین میں تنقیدی بصیرت کے اسی فقدان کی وجہ سے انھوں نے معرکہ آرا مضمون ’’ تنقید کی موت‘ ‘ لکھا جس میں  ادبی تنقید کی صورت حال، ادبی اداروں پر جبہ سائی کرنے والے مفادپرست ادیب، مسند صدارت پر موجود حضرات کی اقربا پروری، نقائص سے مملو تحریروں پر نازاں ہو کر ضخیم نمبر اور مضامین شائع کرانے والے حریص اہل قلم پر طنز کیا گیا ہے۔ انھوں نے اس حوالے سے دو تین دلچسپ واقعات بھی قلم بند کیے ہیں جن سے ادبی تنقید اور نظریات و افکار کی ادھوری تفہیم اور مبہم تشریح کا ثبوت ملتا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ :

’’بعض فنکاروں کے لیے تنقید ایک اہم ضرورت ہو سکتی ہے۔ مختلف وضع اور ڈھنگ سے تخلیق کرنے والوں کو دبستانوں اور ازم وغیرہ کے واسطے سے خطاب دیے جاتے ہیں۔ اگر ناقد اپنے مسلک ادب اور دبستان فکر کے لحاظ سے کسی تخلیقی فنکار کے بارے میں بلا کم و کاست کچھ کہنے کا اہل ہے تو ممکن ہے کہ وہ بعض کلاسیکی اصول نقد کا پابند کہا جاسکے لیکن اردو دنیا میں تو تنقید ہمیشہ ہی ایک غلامانہ مسلک کی پابند رہی ہے۔ پیروی مغرب کی مہلک روش نے ایک طرف تو بعض سنجیدہ حضرات کو اس حد تک متاثر کیا کہ وہ تنقید کے ذکر ہی کو معشوق کی کمر سے تعبیر کرنے لگے اور دوسری طرف ساختیات و مابعد جدیدیت وغیرہ کے گورکھ دھندوں میں گم کر دیا۔ ‘‘  1؎

اس حوالہ کا مقصد یہ ہے کہ تنقید ہو یا تخلیق، جدت و ندرت بہت ضروری ہے۔ تنقید میں جہاں تک جدت طرازی کا عمل ہے وہ نظریات اور مفروضوں سے اختلاف کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اختلا فی صورتیں محض زبانی جمع خرچ کی مانند نہ ہوں۔ اختلاف کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس ٹھوس دلائل موجود ہوں۔ جس طرح انگلستان میں ارسطو کی تقلید کے بجائے ڈرائڈن نے اس کے منضبط شدہ اصولوں سے اختلاف کر کے ڈرامہ سے متعلق اپنے نظریات پیش کیے۔

تنقیدکی ابتری میں تقلیدی روش کے علاوہ جو چیز مضر ہے، وہ یہ ہے کہ فن پارے کی تشریح و تفہیم کے لیے مصنف کے ذاتی احوال سے واقفیت حاصل کی جائے۔ مصنف اور اس کاسماجی پس منظر فن پارے کی تہہ تک رسائی میں محض ایک ضمنی رول ادا کرتا ہے نہ کہ مکمل انحصار اسی پر کر لیا جائے۔ ایسی صورت میں فن پارہ معنوی امکانات کھو کر صرف مصنف کا زندگی نامہ بن جاتا ہے۔ قیصر تمکین کا خیال ہے کہ مصنف کے تخلیقی کمال کی وضاحت کے لیے یہ تفصیلات کارگر نہیں ہو سکتی ہیں۔ لیکن آج کل تنقید میں تن آسانی کی خاطر اسی طرز نقد کو رہنما اصول کے طور استعمال کیا جارہا ہے جو تنقید کی موت کا باعث ہے۔

          انصاف و مساوات پسند، بشر دوست، ایماندار و دیانت دار، دوسروں کی عزت نفس کا احترام ایک مثالی انسان ہونے کی خصوصیات ہیں اور ایک ادیب ہونے کے لیے تو ان صفات سے متصف ہونا لازم ہے۔ ان عناصر کی موجودگی میں ہی وہ تمام تر تعصبات، مذہبی و سیاسی چپقلشوں سے ماورا ہو کر کوئی فن پارہ تخلیق کر سکتا ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قیصر تمکین کو مغرب کے نام نہاد ادیبوں میں ان صفات کافقدان نظر آیا۔ انھوں نے مشاہدے اور مطالعہ کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مغرب کے وہ بڑے ادیب جن کی تحریریں قابل تقلید سمجھی جاتی ہیں، انھوں نے معمولی معمولی سطح پر شدید تعصب برتا ہے۔ انھوں نے ٹی ایس ایلیٹ اور دوستوفسکی کا حوالہ دیا ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا کہ ’’ یہودی تو چوہوں سے بھی گئے گزرے ہیں۔ ‘‘ٹی ایس ایلیٹ کے سامراجی خیال کی شدت کا عالم یہ تھا کہ اس نے بعد میں کبھی اپنے اس طرح کے بیان پر شرمندگی کا اظہار نہیں کیا۔ اسی لیے قیصر تمکین مغربی ادیبوں کی نظریہ ادب کو من و عن قبول کرلینے پر ہمیشہ معترض رہے۔ قیصر تمکین کی زندگی چونکہ یوروپ میں گزری تھی اور وہاں کی معاشرتی و ادبی زندگی کے مثبت و منفی دونوں پہلوؤں پر گہری نظر تھی۔ اسی لیے انھوں نے جگہ جگہ وہاں کے لوگوں کی تعصب پسندی پر طنز کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ فکر و دانش کی تمام تر ترقیات اور ترقی پسندی و روشن خیالی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود وہ نسلی تعصب پسندی سے دامن نہ چھڑا سکے۔ سفید و سیاہ فام کے تفریقی جراثیم اب تک ان کے ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں۔ اسی لیے ان کی بیشتر اصطلاحات اور ترکیبیں نسلی تفوق، سامراجیت کی آمیزش سے تیار کی ہوئی ہیں۔ نرگسیت سے اس قدر مملو ہیں کہ کوئی بھی ادب پارہ، کوئی طبقہ، کوئی تحریک اس وقت تک بہتر یا بامعنی نہیں سمجھی جاتی جب تک اس کے خیالات نیم مسیحی نہ ہوں۔ قیصر تمکین اردو ادیب اور ناقدوں کی پیروی مغرب پراسی لیے برگشتہ ہیں کہ انھوں نے مغربی ادیبوں کی ذہنیت کو سمجھناتو درکنار، اس پرغور تک کرنے کی زحمت نہیں کی اورنہ ہی سامراجیت کے خلاف کسی طرح کی ترقی پسندانہ روش اختیار کرنے کی کوشش کی۔

          قیصر تمکین فکشن کو شاعری پر فوقیت دیتے تھے۔ اسی لیے فکشن سے متعلق ان کے کئی مضامین ہیں۔ جن میں ’ فکشن کیوں ‘ قابل ذکر ہے۔ اسے فکشن سے متعلق ایک وقیع مضمون کہا جاسکتا ہے۔ اس میں انھوں نے فکشن تنقید کی طرف سے برتی جانے والی تساہلی کو نشانہ بنایا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ فکشن کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے، دوسرے یہ کہ قیصر تمکین اپنی ترقی پسند انہ رجحان کی وجہ سے شعر و ادب کو سماجیات اور تہذیب سے وابستہ کرنے کے خواہا ں ہیں۔ اسی لیے تجزیہ و تشریح سے زیادہ فکشن کی قرأت میں سماجی حوالوں پر زور دیتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کے خیالات ملاحظہ ہوں :

’’فکشن پر لکھنے والوں کی تعداد ہمارے ادب میں زیادہ نہیں ہے۔ اگر بہت توجہ سے دیکھا جائے تب بھی دس بارہ ہی معتبر نام ملیں گے۔ ان میں بھی کوئی ایسا لکھنے والا نہیں ہے جس نے تحقیق اور غور و فکر کے بعد یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہو کہ ناول وافسانہ وغیرہ کی ادب اور سماج میں کیا اہمیت ہے اور یہ کہ اگر کسی معاشرے میں فکشن نہ ہوتو اس کی تہذیبی تاریخ کس حد تک نامکمل سمجھی جائے گی۔ ‘‘  ۲؎

فکشن کی طرف سے بے توجہی کا یہ شکوہ قیصر تمکین نے یوں ہی نہیں کیا بلکہ انھوں نے ابتدا سے لے کر معاصر عہد تک کا جائزہ لینے کے بعدکیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ شروع سے لے کر اب تک ممتاز شیریں، وقار عظیم، حسن عسکری، گوپی چند نارنگ، شہزاد منظر، و ہاب اشرفی، وارث علوی اورشمس الرحمن فاروقی نے کسی حدتک اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

فکشن تنقید کے انحطاط کا بھی انھوں نے شکوہ کیا ہے۔ نئے لکھنے والوں کی تن آسانی کے باعث غیر ادبی رویے اور علاقائی افسانہ نگاری کے محاکموں پر طنز کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرز کے مقالے لکھنے والے بیشتر تجزیہ کار فن کار کے حلقہ اثر سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں، جو معمولی مفاد کی خاطر اس طرح کے خشک اور بے لذت مقالے لکھ ڈالتے ہیں۔

اردو افسانہ کو رومانیت کے تنگنائے سے نکال کر حقیقت سے متعارف کرانے میں ترقی پسند تحریک کی خدمات سے انکار ممکن نہیں۔ اسی تحریک نے اردو افسانے کو اعتبار بخشا، موضوعات کا دائرہ وسیع کیا لیکن بعد میں کچھ خامیوں کی وجہ سے اسے مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ قیصر تمکین اس رویے سے نالاں ہیں۔ ان کاخیال ہے کہ خوبیاں اور خامیاں ہر چیز میں ہوتی ہیں۔ اس لیے کسی بہتر چیز کی معمولی خامیوں کی وجہ سے اس کی تمام تر خوبیوں کو فراموش کر دینا نا انصافی ہے۔ اسی طرح ترقی پسند تحریک کے نظریہ سازوں نے اگر کہیں شدت پسندی سے کام لیا تو ناقدین کو اس خامی کو نشان زدکرتے ہوئے اس تحریک کی تشکیل کردہ افسانوی فضا کا ذکر کرنا چاہیے تھا لیکن ہو ا یہ کہ ممتاز شیریں جیسی بلند خیال ناقد بھی اس سلسلے میں کم نگہ ثابت ہوئیں۔ قیصر تمکین کا یہ خیال بڑی حد تک درست ہے کہ افسانے کو پایہ اعتبار ترقی پسند تحریک نے ہی عطا کیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ مزید یہ دعوی کرتے ہیں کہ :

’’ اردو ادب سے اگر ترقی پسند تحریک کو خارج کر دیا جائے تو پھر ہمارے پاس اقبال کے علاوہ کوئی منارہ روشنی قسم کا فنکار نہیں رہ جاتا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پوری بیسویں صدی ہی اقبال اور ترقی پسند ادب کی صدی ہے۔ اب ملاحظہ ہو ترقی پسند تحریک کیا ہے۔ زندگی بردوش کہانیوں کی تخلیق۔ ترقی پسندی کا بنیادی عنصر سماج وادی حقیقت پسندی ہے۔ ‘‘ ۳؎

اس مضمون میں قیصر تمکین نے ترقی پسندوں کے کارناموں کو فراموش کر دینے پر برگشتگی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر چند مشہور افسانوں پر ہی توجہ دی جاتی تو ناقدین کی عصبیت کی لے مدھم پڑ جاتی اور معمولی کوتاہیوں کی وجہ سے پوری تحریک معتوب نہ ٹھہرائی جاتی۔ اس ضمن میں انھوں نے ترقی پسند تحریک کے ادیبوں کی اہمیت پر مختصراً روشنی ڈالی ہے۔ لکھتے ہیں :

’’اردو افسانے میں جو کچھ بھی قابل اعتبار اور فنی لحاظ سے باعظمت ہے، وہ صرف ترقی پسندوں کی دین ہے۔ ان کے افسانوں نے تفنن طبع یا محض مجلس آرا رسالوں کی تزئین میں حصہ نہیں لیا۔ منٹو،بیدی، کرشن چندر، قاسمی اور عصمت نے افسانے کو سماج سدھار کے لیے استعمال کیا اور پہلی بار یہ ثابت کیا کہ فن افسانہ یا بحیثیت مجموعی فکشن نگاری کو معاشرتی مقام کی تنسیخ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مذکورہ فکشن نگاروں نے سن چالیس کی دہائی میں اپنے معرکہ آرا افسانے پیش کیے۔ پشاور ایکسپریس، ٹوبہ ٹیک سنگھ،اور انسان مر گیا جیسے فکشن نے پورے ادب کا مزاج بدل کر رکھ دیا۔ ادبی اقداربدل گئیں، سامراجی طاقتوں کی فتنہ پروری کا پردہ چاک ہو گیا۔ جتنا کام صرف اس ایک دہائی میں فکشن نے برصغیر میں وحشتوں اور عصبیتوں کے انسداد کے لیے کیا، وہ ہماری پوری شاعری لگ بھگ دو سو برس میں بھی نہ کر سکی۔ جس طرح مغرب میں زولا، پشکن اور ڈکنس کی تحریروں نے فکر و فن کے شبستانوں میں آگ لگا دی، تقریباً اسی طرح کی خدمت بر صغیر میں ترقی پسند فکشن نگاروں نے کی۔ عزیز احمد اور شوکت صدیقی نے جس سفاکی سے نشتر زنی کی، اس نے ہمیں شائستگی و انسانیت پسند رجحانات کی طرف مراجعت میں مدد کی۔ یہ خدمت جدیدیت یا اسطوری کہانیوں میں یا مرثیانوں کے علم بردار نہ کرسکے۔ ‘‘۴؎

مندرجہ بالا بیانات سے قیصر تمکین کے نظریہ کی وضاحت بآسانی ہو جاتی ہے کہ وہ ترقی پسند تحریک کو ایک ہمہ گیر ادبی نظریہ کے طور پرنہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اگر ستر کی دہائی میں حکومتی اور سیاسی حالات اتنے ہنگامی اور سخت ترین نہ ہوتے تو ترقی پسند تحریک جو واضح مقصد لے کر دنیائے ادب میں داخل ہوئی تھی، اسے شعر و ادب کے رگ و پے میں سرایت کر دیتی۔ لیکن سیاسی حالات نے اتنے قدغن لگائے کہ اظہار رائے کی آزادی خطرے میں پڑ گئی۔ جمہوری تحریکوں کی روایت ختم ہو گئی۔ ان حالات سے عہدہ پرستوں اور جاہ پرستوں نے فائدہ اٹھایا۔ سچے ادیب خاموش ہو گئے۔ بعض جدت طبع ادیبوں نے تجربہ کے شوق میں رمزیت اور اشاریت آمیزکہانیوں کی بنا ڈالی اوراسے جدیدیت کا نام دے کر پیچیدہ سے پیچید ہ تر بنا دیا۔ لایعنی،افادی نقطہ نظر سے فضول تحریروں کا مقابلہ ترقی پسند تحریروں سے کیا جانے لگا۔ جبکہ ان نام نہاد جدید افسانوں میں کچھ بھی اس طرح نیا نہیں تھا، جس طرح ترقی پسند ادیبوں اور اس سے پہلے انگارے کے مصنفین کے یہاں تھا۔

’جدیدیت ‘ کے متعلق قیصر تمکین کا خیال ہے کہ جو تحریریں اپنی ساخت، معنویت اور تہہ داری کے اعتبار سے کلاسیکی تخلیقات کا مقابلہ نہ کر سکیں، ان پر جدیدیت کا ٹھپہ لگا کر فضیلت عطا کر دی گئی۔ لیکن ان کا یہ خیال محض دعوی ہی ہے۔ کیو ں کہ انھوں نے اس سلسلے میں کوئی دلیل یا کوئی تقابلی تجزیہ پیش نہیں کیا۔ صرف یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے کہ انگارے کے مصنفین یا ترقی پسندوں نے ’نیا ‘ یا’جدید ‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا جبکہ ان کی طرف سے پیش کیا گیا مواد ہر اعتبار سے نیا تھا۔ انھوں نے ترقی پسند کی اصطلاح استعمال کی۔ اگر اس اصطلاح کی معنویت پر غور کر لیا جائے تو بہت سی الجھنیں رفع ہو سکتی ہیں۔ قیصر تمکین محض اس اصطلاح( ترقی پسند ) کے استعمال یا سمجھ لینے کو مسئلہ کا حل نہیں تسلیم کرتے بلکہ عملی طور پر کچھ کر دکھانے کے قائل ہیں، جس کے ذریعہ سماج کے دبے کچلے لوگوں کو ان کا حق حاصل ہو سکے۔

قیصرتمکین اس بات پر شدید معترض ہیں کہ آج کا قاری اور ناقد فکشن نگار سے سوال نہیں کرتا کہ اس نے جو کچھ لکھ کر پیش کیا ہے اس کے ذریعہ عصر حاضر کے مسائل کے حل کے کتنے امکانات ہیں۔ اس وقت اچھے خاصے فکشن نگار سماجی ناانصافی اور تہذیبی تصادم پر کچھ کہنے سے محترز ہیں۔ مزاحمت و جرأت نگاری کا دعوی کرنے والے اقلیتوں کی نسل کشی پر سر مہ در گلو بیٹھے ہوئے ہیں اور اقدار نو کے پاسدار جدیدیت کے علم بردار مصلحت پسند ی کا شکار ہو گئے۔ کہیں ایسانہ ہو کہ اقلیتوں کے حق میں آواز بلند کرنا ان کے ادبی فارمولے کے خلاف ہو۔ جدیدیوں کا ادبی مزاج عوام کی پسند کے بالکل برعکس تھا، اسی لیے قاری کی گم شدگی کا المیہ پیدا ہوا۔ قیصر تمکین کا خیال ہے کہ قاری کی گمشدگی کی شکایت کرنے والے وہی لوگ تھے جنھو ں نے فکشن کا مقصد سمجھاہی نہیں تھا۔ اس ضمن میں انھوں نے لکھا ہے کہ :

’’ کہانی سے کہانی یا کہانی کا قاری گم ہو جانے کی شکایت کرنے والے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ کہانی کو تعمیر و تہذیب کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسی صنف کے برمحل استعمال سے سماج کے زخموں کا اندمال کیا جا سکتا ہے۔ کہانی کار ایک عام انسان کی طرح ہمارے سامنے آتا ہے۔ وہ کوئی واعظ یاعام دنیا سے الگ نہیں ہوتا، وہ ایک عام قصہ خواں ہوتا ہے۔ تخیل کی کتنی ہی اونچائی پر پرواز کیوں نہ کرے، ورڈزورتھ کے اسکائی لارک کی طرح اس کا رشتہ ہمیشہ زمین سے قائم رہتا ہے۔ کہانی کار بتاتا ہے کہ کہانی یا فکشن کسی کی جدی میراث نہیں بلکہ پوری انسانیت کا سرمایہ ہے۔ ‘‘ ۵؎

اس طرح واضح ہوتا ہے کہ قیصر تمکین مقصدی ادب کے قائل ہیں۔ وہ فکشن اور شاعری کو پیغمبری تو نہیں بنانا چاہتے مگر ایک ایسے واضح تصور کے خواہاں ہیں جس میں سماج و معاشرے کی بہتری کے عناصر شامل ہوں اور اس سے یک تہذیبی تاریخ کی تشکیل ہو سکے۔ ترقی پسند فکشن سے بھی وہ پوری طرح اس لیے مطمئن نہیں ہیں کہ ترقی پسندوں نے پورے ادب کو معاشرے کی بہتری کے لیے مصروف عمل اقدار سے وابستہ کر دیا جس کی وجہ سے انفرادی طور پر فکشن کی افادیت پر تفصیل سے بحث و مباحثہ نہ ہو سکا۔

قیصر تمکین اردو ادب کے ساتھ ساتھ عالمی ادبیات کا بھی سنجیدگی سے مطالعہ کرتے رہے ہیں اور انھیں اس بات کا ادراک ہے کہ آج کل تنقید کے نام پر لکھی جانے والی بیشتر تحریریں ’ من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو ‘ کے مصداق ہیں۔ لیکن ان تمام معلومات کے باوجود جب وہ فکشن یا شاعری پر گفتگو کرتے ہیں تو اپنے موضوع سے بہک کر اتنی دور نکل جاتے ہیں کہ موضوع اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔ شعری ادبی رجحان کے متعلق لکھتے ہوئے انھوں نے بعض مضامین میں سماجیات پر اتنی طویل گفتگو کی ہے کہ ان کے نظریاتی تحفظات مجروح ہوتے نظر آنے لگے ہیں۔ لیکن انھیں نظر انداز اس لیے نہیں کیا جا سکتا ہے کیوں کہ انھوں نے مغربی ادیبوں کے حوالے، ان کے تصور شعر و ادب اور تعصبا ت پر جوگفتگو کی ہے، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دیگر ادبا اور ناقدین کی طرح قیصر تمکین نے مغربی عینک استعمال نہیں کی۔ انھوں نے مغربی افکار و خیالات کی بر تری ثابت کرنے میں صفحات سیاہ نہیں کیے۔

                                                          ٭٭٭٭٭

حواشی:

1۔ تنقید کی موت،قیصر تمکین،شہرزاد کراچی،2004، ص:43
2۔ اے دانش حاضر، قیصر تمکین، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2008، ص: 9
3۔ ایضا ً، ص:14
4۔ ایضا ً، ص:15
5۔ ایضا ً، ص:21
5۔ ایضا ً، ص:46

٭٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔