لاک ڈاؤن

محمد صالح انصاری

 (الہ آباد یونیورسٹی)

گزشتہ کچھ دنوں سے ردا کی طبیعت خراب چل رہی تھی لیکن ان دنوں جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو  ردا کے شوہر کو فون کر کے بلا لیا گیا جو اس لاک ڈاؤن میں کسی طرح شہر کی سڑکوں پر سبزیاں بیچا کرتے تھے۔ جس سے زندگی کی ناؤ کسی طرح ادھر اُدھر رات میں ہلکورے کھاتا ہوا ساحل سے دور بھٹک رہا تھا۔ اب جب ردا کا شوہر گھر آ گیا تو گھر پر کمائی کا کوئی انتظام نہیں تھا جو کچھ کمایا تھا وہی خرچہ ہو رہا تھا۔ گھر میں دو بچّے،  ردا، امی-ابّو اور اپنا میں خود کل چھ لوگ تھے اور ان سب کا خرچ چلانا میری ذمہ داری تھی۔ کیونکہ والد اور والدہ اب بوڑھے ہو چکے تھے کچھ کر نہیں سکتے تھے کسی طرح گھر کے پاس میں چھوٹی سی زمین کا ٹکڑا تھا جہاں پر دونوں دن بھر لگے رہتے تھے اور کچھ کھانے کی سبزیاں وغیرہ ہو جاتی تھی۔

آج جب شام کو میں گھر آیا تو گھر کا منظر ہی بدلا ہوا تھا ردا درد سے چیخ رہی تھی اور سرہانے پر دونوں بچّے ماں کی درد اور چیخوں سے خوف کھاکر ڈرے سہمے بیٹھے ہوئے تھے۔ امی ابّو طرح طرح سے تسلیاں دے رہے تھے۔ بیٹی صبر کرو تمہارا شوہر بازار سے واپس آئے تو کچھ انتظام کرتے ہیں۔ کہیں لے چلیں اور دکھا دیں۔

حالات دیکھ کر ہی میں سمجھ گیا کہ اب معاملہ بہت نازک ہے اور ہسپتال جائے بغیر آرام نہیں مل سکتا۔ میں نے فورا اپنا موبائل فون اٹھایا اور سرکاری نمبر پر فون لگانا شروع کیا۔ کئی بار فون لگانے کے باوجود فون نہیں اٹھا میں مسلسل کوشش کرتا رہا لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ پھر ایک آخری مرتبہ کوشش کیا لیکن وہ بھی بیکار گیا کیونکہ اس بار فون تو اٹھا لیکن گاڑی کے بہت دور ہونے کی بات کہکر فون رکھ دیا گیا۔ اب میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا میں چار و ناچار اہل محلہ کی گلیوں میں گھومنے لگا تب جا کر بڑی کوششوں کے بعد ایک رکشے کا انتظام کیا جس نے رات کے وقت کا فائدہ اٹھایا اور دگنے پیسے مانگے۔ میں نے اسکو بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ بھائی میں بھی تمہاری طرح غریب ہوں، روز کھانے کمانے والا ہوں، بھائی کچھ تو کم کر دو، کہاں سے لاؤں گا اتنی پیسے، میرے پاس علاج کے پیسے نہیں تو میں سواری کا کرایہ کہاں سے لاؤں، پر وہ نہیں مانا، بولا جہنّم سے لے کر آ، یا چوری ڈکیتی کر کے آ، جیسے بھی ہو تو لے کر آ، تبھی گاڑی نکلے گی، نہیں تو جا کہیں اور دیکھ لے میں نہیں جانے والا۔

انسان جب مشکل میں ہوتا ہے تو اُسکا ہر کوئی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ پہلے آپکے اوپر بیٹھی جونک آپکا خون نکالتی ہے اور جو کچھ بچتا ہے وہ ایسے ہی لوگ پی جاتے ہیں تاکہ ہم جیسے غریب صرف سانس لینا اور سانس چھوڑنا ہی زندگی سمجھیں۔ یہ لوگ ہوتے ہی ایسے ہے انکے پاس بھلے ہی سمندر ہو لیکن ان کو آپکی آنکھوں کا آنسو بھی چاہیے ہوتا ہے۔

میں دو گنا کرایہ دینے کو تیار ہو گیا تب جاکر اُسنے اپنی گاڑی میں چابھی لگائی۔ اور ہم سے بولا کہ جاؤ جاکر اپنی بیوی کو لیکر آؤ۔

میں نے پہلے ہی  ردا کے بھائی کو فون کر دیا تھا کی ردا کی طبیعت خراب ہے اور اسکو لیکر ہسپتال چلنا ہے۔ تم بھی آ جاؤ تو آسانی ہو جائیگی، نہیں تو اکیلا میں کہاں کہاں چکّر لگاوں گا۔

ردا کا بھائ بھی آ چکا تھا ہم لوگ ردا کو لیکر شہر کی طرف نکل گئے یہاں سے ہسپتال کوئی چالیس کیلومیٹر کا راستہ تھا۔ ویسے تو دو گھنٹے یا تین گھنٹے میں ہم لوگ پہنچ جاتے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے جگہ جگہ جانچ ہو رہی تھی اور کئی جگہ تو زبردستی آدھے آدھے گھنٹے تک روک لیا گیا۔ ایک جگہ تو ہم لوگو نے لاکھ منّتیں کیں صاحب جانے دیجئے بیوی کی طبیعت بہت خراب ہے اگر علاج وقت پر نا ملا تو زندگی سے ہار جائیگی، لیکن پھر بھی وہ سوال پوچھتا ہے لڑکی ہے کہاں سے اٹھایا؟ بھگا کے کہاں لے جا رہا؟ اچھا پکچر شو دیکھ کر آ ر ہا کیا؟ اس طرح کے الٹے سیدھے سوال کرتا رہا لیکن وہ جانے نہیں دے رہا تھا۔ تبھی اُس کا دوسرا ساتھی کہیں سے آیا تو اُسنے جانے کو کہا۔

اس طرح 2 گھنٹے کا سفر چار گھٹنے میں ہوا۔

ہسپتال پہنچ کر ہم لوگوں نے جلدی سے دکھانے کی کوشش کی اور ایمرجنسی والے جگہ لے کر گئے۔ جہاں تو پہلے کورونا وبا کا بہانہ بنا کر بھگا دیا گیا اور ہمیں کھینچ کر دروازے کے باہر کر دیا۔ ہم نے ہر آنے جانے والے سے مدد کی گہار لگائی لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں ر ینگا، تقریباً تین گھنٹے تک دروازے کے باہر ردا کو لیے کھڑے رہے، انتظار کرتے کرتے آنکھیں پتھرا گئیں، زبان خشک ہو گئے ، پیر میں سوجن آگیے، جسم اکڑنے لگا لیکن اب بھی میرا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ پھر ہم نے سوچا کہ ایک اور کوشش کر لیں، نہیں تو کسی دوسری جگہ لیکر چلتے ہیں۔ میں سیدھا اندر گھستا چلا گیا لیکن وہاں کوئی نہیں ملا تو میں سیدھا بیڈ روم میں چلا گیا۔ جہاں ساری بیڈیں خالی پڑی ہیں، بس گنتی کے چند مریض ہیں، جن کا علاج چل رہا ہے لیکن پھر بھی میں سوچ میں پڑ گیا آخر ان لوگوں نے میری ردا کو بیڈ کیوں نہیں دیا؟ کیا ہم غریب ہیں اس لیے ؟ ہم بھی تو پیسے دینگے، بھلے ہی ہم اپنا جسم کا حصہ بیچ کر یا اپنی زمین جائیداد بیچکر لائیں، لیکن اسکے با وجود جگہ خالی ہے اور مریض کو باہر سے ہی واپس بھیج دے رہے ہیں۔ انکو بھی تو اسی کام کے پیسے ملتے ہیں۔ یا کسی اور کام کے؟ ادھر اُدھر دیکھنے کے بعد ایک نرس دکھائی دی میں نے اس سے بات کی منّت سماجت کی لیکن وہ بھی تیار نہ ہوئی، اور جھڑک کر بھاگ رہی تھی۔ پھر میں نے اس کہا کہ میم بیوی ہے میری! بہت بیمار ہے۔ ساری رات دروازے پر اس کو لیے کھڑا رہا کوئی دیکھنے نہیں آیا۔ جتنے پیسے چاہیے لے لو بس اُسکا علاج کر دو، اسکو ہسپتال میں جگہ دے دو، اگر تم چاہو تو یہ پانچ سو روپے تم اپنے لیے لے لو لیکن اسکو جگہ دے دو پلیز پلیز میم پلیز!!

میرے رونے اور منّتیں کرنے پر پہلے تو اسنے منع کر دیا لیکن تھوڑی دیر بعد خود واپس آئی اور ہم سے اندر آنے کو کہا۔

ہم ردا کو لیکر اندر گئے اور بیڈ پر سلا دیا۔ اس نرس نے ایک گلوکوز کی بوتل لآکر لگا دی تب ہم نے چین کی سانس لی۔ اس نے کہاں کہ ابھی صبح کے پانچ بج رہے ہیں اور نو بجے ڈاکٹر صاحب آئینگے تو دیکھ لینگے۔ اب آپ آرام سے کہیں بیٹھ جاؤ۔

کہاں جاتا؟ ردا کو اس حالت میں چھوڑ کر۔ میں نے ردا کے بھائی کو بولا کہ اس والی سیٹ پر تم آرام کرو میں ردا کے سرہانے بیٹھ جاتا ہوں۔ وہ بھی تو بیچارا رات بھر جاگا ہوا تھا آنکھیں لال ہو گئی تھیں وہ بیٹھتے ہی فوراً سو گیا۔

میں ردا کے سرہانے بیٹھا سوچتا رہا کہ صبح ڈاکٹر آئینگے علاج کا پیسہ کہاں سے آئیگا میں نے جو کمایا وہ پچھلے ایک سال سے لاک ڈاؤن میں خرچہ ہو گیا۔

اب بچا بھی کیا ہے؟ کہاں جاؤں کس سے مانگوں ؟کون مدد کرے گا ہم غریب کی۔ سرکار کی ساری سہولیات تو بس امیر لوگوں کے لیے ہی ہوتی ہیں۔ یہ بیما کا پیسہ جو بینک والے ہر سال بنا اجازت لے لیتے ہیں وہ کب کام آئیگا؟ جب ہم مر جائیں گے تو کس کام کا؟ اس پیسے کا کیا فائدہ جو زندہ رہنے پر آپکو نہ مل سکے؟

سوچتے سوچتے پتہ نہیں کیسے وقت کٹا کچھ پتہ بھی نہیں چلا ہوش تب آیا جب نرس ڈاکٹر کے ساتھ ہمارے بیڈ کے پاس آئی۔

ڈاکٹر نے دیکھیے ہی بول دیا کی آپریشن کرنا پڑےگا۔ بنا آپریشن کے اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ جلدی کرو نہیں تو بچنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ کتنا آسان ہوتا ہے جان جانے کی دھمکی دینا۔

ہاں یہ دھمکی نہیں تو اور کیا ہے؟ بھلے ہی انہوں نے کچھ نہ کہا ہو لیکن انہوں نے یہ بات پیسےکے لیے کہی، جس سے یا تو ہم مریض لے کر بھاگ جائیں یہ بوری بھر پیسہ انکو دے دیں۔ کیا یہ لوگ ایک بار بھی نہیں سوچتے کی آخر یہ ننگا بھوکھا فٹے پرانے کپڑے پہنا ہوا آدمی لائیگا کہاں سے اتنا پیسا؟

کسی طرح  ہم نے آپریشن کے لیے ہاں بھر لی۔ ردا کے بھائی کو ردا کے پاس چھوڑ کر میں گاؤن چلا آیا تاکہ پیسوں کا انتظام کر سکوں۔ لاک ڈاؤن کا وقت کس کے پاس جاتا کون دیتا؟ بڑی ہمت کرکے پڑوسیوں سے کہاں تو چار پانچ لوگوں نے ملکر کچھ پیسوں کا انتظام کیا۔ اور کچھ پیسے جو بچ رہے تھے وہ پاس والے گاون میں ایک صاحب ہے جو کسی تنظیم سے جڑے ہیں اُنہونے تنظیم کا پیسہ دیا۔ اس طرح سے ادھار پیسوں کا انتظام کیا اور لاکر ہسپتال میں ایڈوانس جمع کردیا۔ پھر بھی ڈاکٹر نے اپنے ہسپتال کا خرچ بڑھانے کے لیے اپنی توند موٹی کرنے لے لیے، بینک بیلنس بڑھانے اور غریب کا خون نکال کر اپنی طاقت بڑھانے کے لیے تین دن کے بعد آپریشن کرنے کو کہا۔ تب تک ردا کو گلوکوز کے سہارے رکھا گیا۔

تین دن کے بعد ردا کو آج آپریشن روم میں لے جایا گیا۔ جہاں اس کا آپریشن ہونا تھا۔ وہ بالکل بول نہیں پا رہی تھی، اس کے ہونٹ خشک ہو گئے تھے، وہ درد سے بدحال ہو چکی تھی، وہ اشاروں ہی اشاروں میں بہت ساری باتیں کرنی چاہتی تھی، لیکن کمزوری کی وجہ سے وہ بول نہ سکی۔

میں بھی اس کے ساتھ آپریشن روم کے دروازے تک گیا، روم کے باہر ہی مجھے روک دیا گیا۔

دروازے کے باہر میں اور ردا کا بھائی اس کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔ زندگی اور موت کے اس پل زندگی کی وہ ساری کڑواہٹ یاد آ رہی تھیں جو میں نے اس کو پہنچائی تھی۔ جو اس سے جھگڑے کیے تھے، جو اس کو پریشان کیا تھا، جو اس کی ضرورتوں میں کمی کی تھی۔

ایسے تو دو سے تین گھنٹے کا آپریشن تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے نہ جانے کب شام کے پانچ بج گئے  پتہ ہی نہ چلا۔

تبھی ڈاکٹر نے باہر آ کر ردا کو لے جانے کو کہا۔ اس وقت ردا کو ہوش نہیں تھا وہ بلکل بیہوش تھی، ڈاکٹر نے بتایا کہ ابھی تھوڑی دیر میں اس کو ہوش آ جائے گا، لیکن دو سے تین گھنٹے بیت گئے اور ہوش نہیں آیا۔

میں نے کئی بار ڈاکٹر کے پاس جا کر دیکھنے کو کہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن کوئی دیکھنے نہیں آیا میں نے نرس سے بھی کہا، اس نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔

میں بار بار پھر ڈاکٹر کے پاس گیا اور شکایت کی، ڈاکٹر صاحب جس مریض کا آج آپریشن ہوا ہے اسکو ابھی تک ہوش نہیں آیا۔ تو مجھے ڈانٹ کر بھگا دیا جاتا، مایوس میں واپس لوٹ رہا تھا ، تبھی ردا کا بھائی میری طرف آتا ہوا دکھا اس نے آتے ہے کہا کی بہن کو ہوش آ گیا ہے۔ وہ آپکا نام پکار رہی ہے۔

  میں دوڑتا ہوا ردا کے پاس پہنچا وہ رو رہی تھی، وہ اپنے آپ کو چھپا رہی تھی، وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی، لیکن اس کے لب جیسے سل گئے ہوں، وہ بار بار کچھ اشارے کر رہی تھی، کچھ بتانا چاہ رہی تھی، کچھ چینکھنا چاہ رہی تھی، کچھ دنیا کو سنانا چاہتی تھی، لیکن وہ اب بول نہیں پا رہی تھی، اُسکی اواز بلکل سے غائب ہو گئی تھی۔

تبھی مجھے ایک ترکیب سوجھی، میں اپنی جیب سے قلم نکالا اور ساتھ ہی دواؤں کی پرچی دی اور لکھنے کا اشارہ کیا۔

       اس وقت اُسنے جو لکھا اسکو دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے ، میں دنگ رہ گیا آخر ہو کیا؟ ہم تو علاج کرانے آئے تھے عزت کا سودا نہیں، یہ کیا ہو گیا؟ اُسنے ایک ایک کا نام لیکر بتایا۔ وہاں کون کون تھا؟ کسنے کیا کیا؟

میں ڈر گیا، سہم گیا، میں نے اُسکے بھائی سے کہا کی چلو بھاگ چلتے ہیں۔ یا کہیں اور چلتے ہیں، یہ جگہ اچھی نہیں،  یہاں ڈاکٹر نہیں ہیں، نرس کی کمی ہے، کوئی سنتا نہیں ہے، چلو کہیں اور چلتے ہیں۔ میں ردا کے بھائی کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ بات سمجھ نہیں رہا تھا۔ کہہ رہا تھا ہم نے یہاں پیسے جمع کیے ہیں تو علاج یہیں کرائیں اور کہیں جائیںگے تو وہاں بھی پیسہ لگے گا کہاں سے لاؤ گے؟

 اب میں اسکو کیسے سمجھاتا کہ یہاں ڈاکٹر کی شکل میں حیوان ہیں، جسم کے بھوکے بھیڑیے بیٹھیں ہیں، جو کبھی بھی کسی پر بھی حملہ کر کے اُسکے جسم کو روندھ دیتے ہیں۔ میں نے کسی طرح ردا کے بھائی کو سمجھایا اور  ردا کو لیکر فوراً گھر چلا آیا۔ آج میں ردا کی نگاہوں میں اور زیادہ گر گیا تھا۔ آج اُسکے ساتھ جو کچھ ہوا وہ دل کو دہلا رہا تھا۔ من تو کر رہا تھا خود کشی کر لوں لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں تھا۔

گھر کے سارے لوگ سوال کر رہے تھے، کیا ہوا ردا اب کیسی ہے؟ وہ ٹھیک تو ہے؟ اُسکا آپریشن ہو گیا؟ بڑی جلدی ڈاکٹر نے کیوں چھوڑ دیا؟ ایسے کئی سوال جن کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اور دیتا بھی تو کیا دیتا؟ میں آج بے زبان ہو گیا تھا، میرے پاس کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اب میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ بھی تو نہیں سکتا تھا۔ ہم نے اور ردا نے ساتھ مرنے اور جینے کی قسم جو کھائی تھی۔ میں نے لڑنے کا ارادہ کیا ، میں نے انصاف کی گہار لگائی میں ڈاکٹروں کے پاس گیا۔ ان سے سوال کیا۔ میں نے ہر اس بڑے افسر کے پاس انصاف کی گہار لگائی جہاں مجھے انصاف کی اُمّید تھی۔ پولیس کے اعلٰی افسران اور لیڈروں تک سے، لیکن کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔ کچھ میڈیا والے بھی آئے تھے ہاتھوں میں بڑے بڑے کیمرے لیکر الٹے سیدھے سوال کیا، زخموں کو کریدا ، انصاف دلانے کے نام پر اس کی عزت کا ہر بار سودا کیا گیا، میں سوچ رہا تھا آخر یہی سوال نا انصافی کرنے والے سے کیوں نہیں کیا جاتا؟ اسکو کیمرے کے سامنے کیوں نہیں لایا جاتا؟ کیا صرف امیروں کی ہی عزت ہوتی ہے؟ غریب مظلوم کی کوئی عزت نہیں؟ مجھکو ایسا کیوں لگتا ہے کہ ان لوگوں کو آنے ہی نہیں دینا تھا۔ یہ انصاف کے نام پر صرف تماشہ کرتے ہیں اور غریب کے آنسوں کا سودا کرکے اپنی تجارت چلاتے ہیں۔

کیا ہوا؟ جانچ کے نام پر کچھ ڈاکٹر کو چھٹی۔ کچھ دنوں بعد اُن کی پھر سے تقرری ہو جائیگی۔ لیکن کیا میری ردا واپس آئیگی؟بدلے میں ہمکو بس اتنا ہی ملا کہ ڈرانے اور دھمکانے کے اتنے فون آنے لگے کی میں نے چپ رہنے میں ہی بھلائی سمجھئی۔ جب معاملہ وزیر اعلی کے پاس گیا تو انہوں نے معاوضہ اور میری بیوی کا علاج کرا دینے کی بات کہی۔

تبھی اچانک رات کو ردا کی طبیعت خراب ہوئی جب تک ہم لوگ اسے گاڑی پر بٹھاتے اُسکی سانس تھم گئی تھی۔ صبح کچھ لوگ کیمروں کے ساتھ میرے گھر آئے اور معاوضے کی رقم دیتے ہوئے فوٹو نکلوائی اور چلے گئے اُنہونے اک بار بھی ردا کا حال نہیں پونچھا۔

تبصرے بند ہیں۔