للت مودی اوروجے مالیا جیسے لوگوں کیلئے ’’اچھے دن‘‘

باقی لوگوں کے لئے دوسال براحال

عام طورپریہ بات کہی جاتی ہے جوسوفیصدسچ بھی ہے کسی ملک وقوم کاعروج اورترقی کااندازہ سب سے پہلے اخلاق وکردارسے کیاجاتاہے۔ دنیاکی ہرقوم اخلاق کی بدولت عروج وانحطاط ٗ عزت وذلت اورسیادت اورمحکومی کے منازل طے کرتی ہے۔ عروج وانحطاط کادارومدارتمام تراخلاق وکردارکی بلندی وپستی پرہے نہ کہ علوم وفنون اوردولت وثروت کی قلت وکثرت پر۔ گزشتہ قوموں اورملکوں کی تاریخ اس صداقت کی گواہی پیش کرتی ہے ویسے آئے دن ہم اس سچائی کاانفرادی اوراجتماعی طورپرتجربہ اورمشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ اگرہم آپ اپنے کسی ایسے عزیزیارشتہ دارکے یہاں جاتے ہیں جوپہلے سے دولت وثروت میں بڑھ گیاہے مگراس کے ملنے جلنے کاطریقہ گھٹیااورپست ہوگیاہے توہم آپ بلاتکلف یہ کہنے پراپنے آپ کومجبورپاتے ہیں کہ اس کی شخصیت اورخاندان اخلاقی لحاظ سے روبہ زوال ہے۔ یہی چیزقوموں اورملکوں پربھی صادق آتی ہے۔
اگرمودی کے دوسال کاجائزہ لیاجائے توملک کی حالت معاشی لحاظ سے بھی گراوٹ کی طرف ہے مگراس سے کہیں زیادہ اخلاقی پستی کااوربھی براحال ہے مفصل جائزہ لیاجائے تویہ آسانی سے کہاجاسکتاہے کہ ’’پستی کاکوئی حدسے گزرنادیکھے ‘‘ ایک خاص فرقہ یاملت جسے مسلمان کہتے ہیں اس کی زندگی ہرلحاظ سے تنگ کی جارہی ہے اوراسے ہرلحاظ سے پستی کی طرف ڈھکیلنے کی بھرپورکوشش کی جارہی ہے۔
فسادیوں اوردہشت پسندوں کی رہائی:
جولوگ مالیگاؤں، سمجھوتہ اکسپریس، مکہ مسجدکے بم دھماکوں میں ملوث تھے جوآر ایس ایس سے قریبی تنظیم سے تعلق رکھتے تھے ان کوایک ایک کرکے رہاکیاجارہاہے، ایک طرح سے ان کومسلمانوں کوستانے اورقتل وغارتگری کرنے کاانعام دیاجارہاہے۔ جس ملک میں ظلم وجبرکرنے والوں پررحم وکرم کی بارش ہواس ملک وقوم کاکیاحال ہوسکتاہے؟ ہرایک جوعدل وانصاف سے تعلق رکھتاہے اچھی طرح سے جانتاہے۔
ہندوتواجنونیوں کی پذیرائی:
جولوگ ’’گھرواپسی‘‘’’ لوجہاد‘‘’’ پاکستان جاؤ‘‘’’ گؤ رکھشا‘‘’’ بھارت ماتاکی جئے‘‘’’ سوریہ نمسکار‘‘جیسے نعروں اورفلسفوں کولگانے اورمنوانے پربغیرکسی روک ٹوک کے لوگوں کومجبورکررہے ہیں ۔ شک وشبہ پرقتل کرنے اورجان سے ماردینے پرتلے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگ ہرطرح سے حوصلہ افزائی ہورہی ہے ۔
باباؤں کی آؤبھگت:
بابارام دیو، شاکچی مہاراج، یوگی ادتیہ ، مہیش شرما جیسے لوگوں کوپوری چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ مسلمانوں کوجس طرح چاہیں برابھلاکہیں حکومت ان کی پذیرائی کرے گی ۔ مہیش شرمامرکزی حکومت کے کلچرل منسٹرہیں جنہوں نے ’’اخلاق احمد‘‘کے قتل کومعمولی واقعہ سے تعبیرکیاتھا۔ مودی جی نے اس کی وجہ سے ان کی خوب خوب پذیرائی کی اوران کاعہدہ اوررتبہ بڑھایا۔
دلتوں کاحال زار:
دلتوں کے ساتھ جوکچھ ہریانہ ، حیدرآباد اوردیگریونیورسیٹیوں میں ہورہاہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ روہت ویمولاکوخودکشی کرناپڑا۔جواہرلال یونیورسٹی میں دلتوں کے ساتھ اسی قسم کاسلوک رواہے ۔ ہریانہ کے ایک دلت لڑکے کوزندہ جلائے جانے پرمرکزی وزیروی کے سنگھ نے کہاکہ ایسے واقعات کتوں کے ساتھ بھی ہوتے ہیں۔ ان کے وزراء اورخودوزیراعظم فسادات کی آگ میں جلائے جانے یامارے جانے والوں کوکتایاکتیاکے پلے سے تعبیرکرتے ہیں۔
ناموں کی تبدیلی فرقہ پرست شخصیتوں کی پذیرائی:
بھاجپایاآرایس ایس کے لوگوں نے نہ صرف مسلمانوں کے زندوں پرحملے کررہے ہیں اوران کی پریشانی اورحیرانی کاسبب بنے ہوئے ہیں بلکہ مسلمانوں کے مُردوں پربھی حملے کرنااپنااخلاقی فرض سمجھ رہے ہیں۔ اورنگ زیب ، اکبرایسے لوگ اب ان کے لئے معتوب ہوگئے ہیں۔ ان کے نام کوہٹاکرایسے لوگوں کے نام کوپیش کیاجارہاہے جوان کے چہیتے رہ چکے ہیںیامسلمانوں کے نام ونشان کومٹانے کے درپے تھے۔کے بی ہیڈگیور، اے ۔ ایس گوالکر، وی .ڈی سوارکرجیسے ہندوتوافلسفیوں کوآگے لانے اورمقبول بنانے کی کوشش ہورہی ہے جن کی کتابوں میں مسلمانوں کے خلاف زہربھراہواہے۔
گجرات کے جے ایس بندوق والے کابھی بُراحال:
انڈین اکسپریس میں گجرات کے بندوق والے کاایک مضمون آج (مورخہ 27؍مئی) کوشائع ہواہے، بندوق والے کاگجرات کے پس منظرمیں ہمیشہ جرأت مندانہ کرداررہاہے مگرایسالگتاہے کہ وہ حالات کے سامنے سرنگوں ہوگئے ہیں۔معلوم ہوتاہے کہ پانچ ریاستوں کے الیکشن نے ان کاکمرتوڑدیاہے حالانکہ اگرٹھیک سے تجزیہ کیاجائے تومودی کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے ۔ کانگریس کویقینااپنے کرپشن ، غلط حکمت عملی سے دوریاستوں سے ہاتھ دھوناپڑاہے مگرکیرالہ میں ہارکانگریس کے لئے کوئی ایسی ہارنہیں ہے جوحیرت اورتعجب کاباعث ہو۔ آسام میں کانگریس کوبی جے پی سے 1 1/2 فیصد ووٹ زیادہ ملے ہیں جبکہ اے آئی یوڈی ایف اورکانگریس کے ووٹوں کی فیصد44ہے ۔ اوربی جے پی اتحادکاووٹ 7.6 فیصدہے ۔ اس لئے جوکچھ میڈیامیں پیش کیاجارہاہے وہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ میڈیاکے پرچارسے بندوق والے کی بندوق ہاتھ سے چھوٹ چکی ہے وہ میڈیاکے پرچارسے اس قدرمتاثرہوئے ہیں کہ مضمون کے آخرمیں رقمطرازہیں:
میری رضامندی سے میری ایک بیٹی نے ایک گجراتی ہندوسے 2002ء کے فسادات کے بعدشادی کرلی ۔ خداکے فضل وکرم سے وہ بہت خوش ہیں۔ آج میرے لئے کسی گجراتی ہندوسے نفرت کرناناممکن ہے، کیاآر ایس ایس والے بھی ایساکرسکتے ہیں؟ اس سے ہمارے پیارے ملک کاچہرہ بدل جائے گا‘‘۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔