سیاسی ایجنڈے میں بنیادی سوال کہاں

پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج آچکے ہیں ۔ ان پر سب کا اپنا تاثر و تجزیہ ہے ۔ بھاجپا مودی و شاہ کے جادو کو آسام میں جیت کی وجہ بتاتے ہوئے کانگریس مکت بھارت مہم کے کامیاب ہونے کی بات کررہی ہے ۔ وہیں کانگریس دو ریاستوں سے باہر ہونے کے غم میں ڈوبی ہے ۔ بھاجپا کو پہلی مرتبہ آسام میں سرکار بنانے اور کیرالہ میں کھاتہ کھلنے پر خوشی منانے کا حق ہے ۔ لیکن بنگال میں اس کا ووٹ فیصد کم ہونے ، ایک بھی سیٹ کا اضافہ نہ ہونے اور تامل ناڈو میں صفر پر رہنے کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا ۔ اسے نارتھ ایسٹ میں اپنی پکڑ مضبوط کرنے سے پہلے یہ غور کرنا ہوگا کہ آسام کی کامیابی اس کی اکیلی نہیں ہے ۔ یہ بوڈو پیوپلس فرنٹ ، آسام گن پریشد اور کانگریس کا ساتھ چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے والے سربانند سونووال ، ہیمنت بشپ شرما کی مرہون منت ہے ۔ بنگال میں کانگریس کی سیٹوں کا بڑھنا اور پڈوچیری میں سرکار کا بننا اس کی مایوسی کو کم کرسکتا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عام آدمی کے بنیادی مسائل ان انتخابات میں مدا بن سکے؟
ملک کے بنیادی مسائل کی بات کریں تو خاص مدے ہیں غریبی ، اقتصادی نابرابری ، بے روزگاری ، ناخواندگی ، جہالت ، حفظان صحت سہولیات کی عدم موجودگی ، بے لگام انتظامیہ ، دہشت گردی ، متشدد مذہبی کٹرپن ، کرپشن ، کالی دولت ، ذخیرہ اندوزی ، مہنگائی ، ان داتا (کسان ) کو فصل کی مناسب قیمت نہ ملنا ، ناانصافی ، عدالتوں سے انصاف نہ ملنا یا فیصلوں میں لمبا وقت لگنا ، غیر منظم مزدوروں کا استحصال ، آلودگی ، فرقہ وارانہ تشدد ، ذات کی بنیادی پر تشدد ، آدی واسیوں ، دلتوں اور کمزور طبقات کی خراب حالت ، ریزرویشن پالیسی ، انتخابات میں بے تہاشا دولت کا استعمال ، جمہوری اداروں کے کام کاج میں گراوٹ اور اراجکتا وغیرہ ۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہر سیاسی جماعت ان قومی مسائل کے حوالے سے بتائے کہ اس کے مطابق ان مسائل کا کیا حل ہوسکتا ہے ؟ ہر دل اپنی یوجنا ملک کے سامنے رکھے ۔ اسی کی بنیاد پر وہ عوام سے ووٹوں کی اپیل کرے۔
موٹے طور پر نا برابری ، بے روزگاری ، مہنگائی اور کرپشن تمام پریشانیوں کی جڑ ہے ۔ جن ریاستوں میں اقتصادی ترقی کی شرح تیز رہی اور جنہیں وقتاً فوقتاً ماڈل کی طرح پیش کیا گیا اب وہاں بھی سماجی معاشی صورتحال خراب ہورہی ہے ۔ ہریانہ کے جاٹوں ، گجرات کے پٹیلوں ، مہاراشٹر میں مراٹھا اور آندھرا میں کاپوذاتوں کا آندولن اس کی مثال ہے ۔ سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ الیکشن کے دوران ایک روپیہ کلو گیہوں ، چاول ، کم قیمت پر دالیں ، تیل فراہم کرنے کا اعلان اور مفت میں نمک اور کیا کیا مہیا کرانے کے وعدوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عوام سرکاروں سے کتنے غیر مطمئن ہیں ۔ پانچ ریاستو ں کے انتخابات کے دوران ہی بھوک کی وجہ سے تین لوگوں کی موت کی خبر آئی جس میں سے دو مرنے والے اترپردیش کے اور ایک بہار کا تھا ۔ تلنگانہ کی نرسمہا 13 برسوں سے پانی پی کر زندہ ہے ۔ یہ اس وقت ہے جبکہ پارلیمنٹ فوڈ سیکورٹی بل پاس کرچکا ہے یعنی جو کام نہیں کرسکتے ان کو کھانا مہیا کرانا سرکار کی ذمہ داری ہے ۔
اگر 2005-12 کے بیچ کے سات سال کو دیکھیں تو اس دوران بھار ت میں معاشی ترقی کی شرح تقریباً 5.4 فیصد رہی ۔ لیکن اس دوران روزگار کے مواقع کتنے بڑھے ؟ حقیقت یہ ہے کہ ان سات سالوں میں صرف 1.5 کروڑ نئے روزگار پیدا ہوئے اور نئے روزگاروں کی پیداوار میں صرف 3 فیصد کی بڑھوتری دیکھی گئی ۔ المیہ یہ ہے کہ تیز رفتار سے اقتصادی ترقی اسی تناسب میں روزگار پیدا نہیں کرتی ۔ آنے والے وقت میں یہ تضاد خطرناک شکل اختیار کرسکتا ہے ۔ 2025 تک اقتصادی ترقی کی سالانہ شرح 7-8 فیصد مانتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مجموعی قومی پیداوار ( جی این پی ) تو دوگنا ہوجائے گی لیکن تین کروڑ ہی نئے روزگار پیدا ہوپائیں گے ۔ جبکہ ہمیں آٹھ کروڑ روزگاروں کی ضرورت ہوگی۔ اس طرح پانچ کروڑ بے روزگاروں کی فوج سامنے کھڑی ہوکر یہ سوال ضرور پوچھے گی کہ ملک ترقی کررہا ہے تو انہیں بھلا نوکریاں کیوں نہیں مل رہی ہیں ؟ دھن دولت کچھ لوگوں کے پاس کیوں اکھٹا ہوتاجارہا ہے ،ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بنیادی سہولیات روزی روٹی اور مکان سے محروم کیوں ہے؟ اس مسئلہ سے نپٹنے کیلئے پچھلے سال وزیراعظم نریند رمودی نے مینوفیکچرنگ کو بڑھاوا دینے کیلئے میک ان انڈیا اسکیم کا اعلان کیاتھا ۔ اس میں 25ایسے کاموں کو شامل کیاگیا ہے جس میں مینوفیکچرنگ کو سرکار بڑھاوا دے گی ،ان میں حفاظت ،آٹو موبائل ،ریلوے ٹیکس ٹائل اور آئی ٹی ادیوگ شامل ہیں ۔ میک ان انڈیا پالیسی قومی آمدنی میں 2022تک ادیوگوں کی مدد سے 25فیصد اضافہ کرنا چاہتی ہے جو ابھی 17فیصد ہے ، چین میں یہ 36فیصد ،تھائی لینڈ میں 28،کوریا میں 30اور ملیشیا میں 23فیصد ہے ۔ میک ان انڈیا کے تحت 2022تک 10کروڑ روزگار پیدا کرنے کا منصوبہ ہے،جانکاروں کا ماننا ہے کہ اگلے دس سالوں میں میک ان انڈیا ادیوگوں کو ترقی دینے میں بھلے ہی کامیاب ہوجائے لیکن 10کروڑ روزگار پیداہوجائیں یہ ضروری نہیں ۔
عوام کو معیشت میں سدھار چاہئے اسی کو دھیان میں رکھ کر بھاجپا نے 2014کے عام انتخابات میں عوام کو اچھے دنوں کا خواب دکھایاتھا ، وہ جانتی تھی کہ مندر بنانے ،کامن سول کوڈ لاگو کرنے ،کشمیر یا دوسری ریاستوں سے دفعہ 370ہٹانے یا ریزرویشن پر دوبارہ غور کرنے کے نعروں سے الیکشن نہیں جیتا جاسکتا تھا، دراصل عوام کا دھیان بنیادی مدوں سے ہٹانے کیلئے ہی فرقہ واریت ،ذات ،مذہب کی بنیاد پر تشدد یا پولرائزیشن کو بڑھا وادیا جاتا ہے ۔جیساکہ ان پانچ ریاستوں کے انتخابات کے دوران بھی دیکھا گیا۔ دھن، بل ،باہو بل ،سنگھٹن بل اور جتنی طرح کے بھی بل ہوتے ہیں اقتدار تک پہنچنے کیلئے انہیں استعمال کیا جاتا ہے،ساری پارٹیاں یہی کرتی ہیں کررہی ہیں۔ بھاجپا تو پھر بھی باتوں و نعروں کی دھنی ہے اس کی سرکار نے کتنے ناموں سے کیا کیا اسکیمیں چلارکھی ہیں ،عوام تو نام تک نہیں لے پائیں گے۔ آنکڑوں میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے ،مہنگائی کم ہوئی ہے ،غریبوں کو گیس ملی ہے،ہنر میں اضافہ ہورہا ہے ، کسانوں کی پریشانیاں کم ہوئی ہیں ، دلتوں وکمزوروں کی حالت میں بہتر ی آئی ہے، جبکہ زمینی سطح پر تصویر اس کے الٹ ہے ، کسانوں کے قرضے معاف کرنے کیلئے سرکار کے پاس پیسے نہیں ہیں لیکن کارپوریٹس کو کروڑوں کے ٹیکس سے چھوٹ دینے کی گنجائش موجود ہے۔ غریبوں کو جتنے کی گیس دی جارہی ہے اس کے اشتہار میں اس سے دوگنی رقم خرچ ہوچکی ہے۔ غریبی بھکمری میں کمی آئی ہے لیکن کھانے کے بغیر موت کی خبروں
کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ٹرانسپورٹ بہتر ہوا ہے لیکن اس کے بجٹ میں کمی ،مہنگائی کم ہوئی ہے لیکن عام آدمی کو بازار میں کوئی چیز سستی نہیں مل رہی ہے، لوگوں کی صحت پر خاص دھیان دیا جارہا ہے لیکن حفظان صحت کا بجٹ کم کردیاگیا ہے ،تعلیم کے معیار کو بڑھانے کی بات ہورہی ہے لیکن اس شعبے کو دی جانے والی رقم کم کردی گئی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ تعلیم گاہوں پر کیسریارنگ چڑھانے کی کوشش ہورہی ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی بنیادی مسائل کو سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنایاجائے ، گھریلو ادیوگ اور کھیتی کو ڈیولپ کیا جائے ۔ان دونوں شعبوں میں روزگار پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری کی کوششیں امن قائم کئے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتیں ۔ ملک کو سب کی ضرورت ہے، مگر سب کا ساتھ سب کو سمان دئیے بغیر نہیں مل سکتا ، وسائل کی تقسیم اور انصاف میں نابرابری تشدد کو جنم دیتی ہے ، بے روزگاری اور بھوک جرم پیدا کرتی ہے ، ملک کو ان دقتوں سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ ایسے حالات نہ بننے دئیے جائیں جن میں جرم اور تشدد پروان چڑھتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ جب عوام مذہب ،قوم، ذات ،علاقہ اور نظریہ سے اوپر اٹھ کر سیاسی پارٹیوں کو مجبور کریں کہ وہ ان کے مسائل کو اپنے ایجنڈے کا حصہ بنائیں تبھی عام آدمی کا بہتر زندگی کا خواب پورا ہوسکے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔