گھریلو تشدد کی روک تھام کی تدابیر – قسط 2

گھریلو تشدّد روکنے کے لیے اسلام کی تدابیر
گھریلو تشدّد کے مسئلہ کو اسلام نے بہت خوب صورتی سے حل کیا ہے۔ اس نے خاندانی نظام کو جن خطوط پر استوار کیا ہے اور اسے صحیح طریقے پر چلانے کے لیے جو تعلیمات و ہدایات دی ہیں ان پر کما حقہ عمل کیا جائے تو گھر جنت نظیر بن جاتا ہے اور ایک خاندانمیں رہنے والے تمام افراد ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے ہیں۔ نہ کسی کو اپنی حق تلفی کا احساس ہوتا ہے نہ کسی کو دوسرے پر بے جا تشدد کرنے کا موقع ملتا ہے۔ سطور ذیل میں اسلام کی ان تعلیمات اور اقدار کاتذکرہ کیا جاتا ہے جو گھریلو تشدّد کو روکنے میں معاون بنتی ہیں:
(1) مرد اور عورت رفیق ہیں نہ کہ فریق:
اسلام نے مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کا حریف اور مدّ مقابل نہیں، بلکہ رفیق اور ہمدرد بنایا ہے، جو ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کرتے اور باہم مل جل کر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ ۔ (التوبۃ؍ 71)
’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ ‘‘
اس نے نظامِ خاندان میں زوجین کو ایک دوسرے کے لیے باعثِ سکون قرار دیا ہے اور باہم محبت اور رحم و کرم کرنے کی تاکید کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمِنْ آیٰتِہٖ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُوا إِلَیْْہَا وَجَعَلَ بَیْْنَکُم مَّوَدَّۃً وَرَحْمَۃً ۔ (الروم؍21)
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری جنس سے بیویاں بنائیں، تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔‘‘
(2) حقوق میں مساوات اور فطری تقسیم کار
اسلام نے مردوں اورعورتوں کے درمیان مساوات کا اعلان کیا اور زندگی کے مختلف میدانوں میں عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق عطا کیے، لیکن ان کے حقوق میں مساوات کا مطلب ان کے کاموں کی یکسانیت نہیں ہے۔ اس نے دونوں کے دائرۂ کار الگ الگ رکھے اور ان کی فطری صلاحیتوں کی رعایت کرتے ہوئے منصفانہ طورپر ان کے کام تقسیم کیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۔ (البقرۃ؍ 228)
’’اور عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔‘‘
حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الرجل راع علی أہل بیتہ وہو مسؤل عن رعیّتہ، والمرأۃ راعیۃ علی أہل بیت زوجہا وولدہ وہی مسؤلۃ عنہم ۔ 12؂
’’مرد اپنے گھر والوں کا راعی (نگراں) ہے اور اس سے اس کی رعیّت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور بچوں کی راعیہ (نگراں) ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘
(3) مرد کی ذمہ داری خاندان کی حفاظت او رنگرانی
زوجین کے مساوی حقوق کی وضاحت او رفرائض کی تعیین کے ساتھ اسلام نے مرد پر ایک اضافی ذمہ داری یہ عائد کی کہ وہ خاندان کی سربراہی کرے۔ کسی بھی ادارے کا نظم بہتر طریقے پر اسی صورت میں چل سکتا ہے جب ایک شخص کو اس کا سربراہ بنایا جائے اور دوسرے افراد پر اس کی اطاعت لازم قرار دی جائے۔ اس ذمہ داری کو قرآن میں ’قوّامیت‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ۔ (النساء؍ 34)
’’مرد عورتوں کے ’قوّام‘ (سربراہ) ہیں، اس سبب سے کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس سبب سے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں‘‘
لفظ ’قوّام‘ سے کسی اعزاز، غلبہ و تسلّط اور حاکمانہ اقتدار و اختیار کا اظہار نہیں ہوتا، بلکہ حقیقت میں یہ صفت ایک انتظامی ذمہ داری کو ظاہر کرتی ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (م1979ء/ 1399ھ) نے لکھا ہے:
’’قوّام یا قیّم اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے اور اس کی حفاظت و نگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہو‘‘13؂
(4) عورت کو شوہر کی اطاعت کی تاکید
دوسری طرف اسلام نے عورتوں کو پابند کیا کہ وہ اپنے شوہروں کی اطاعت کریں، اور کسی معاملے میں ان کی حکم عدولی نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ (النساء؍ 34)
’’پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔‘‘
امام فخرالدین رازیؒ (م606ھ) نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
’’آیت کے اس ٹکڑے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ قانتات کا معنیٰ ہے اللہ کی اطاعت کرنے والیاں اور حافظات للغیب کا مطلب ہے شوہروں کے حقوق ادا کرنے والیاں۔ یہاں پہلے حق اللہ کی ادائی کا تذکرہ کیا گیا، بعد میں شوہر کے حقوق کی ادائی کی بات کہی گئی۔ دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ پورے ٹکڑے میں شوہر کے حقوق کا تذکرہ ہے۔ قانتات کا مطلب یہ ہے کہ وہ شوہروں کی موجودگی میں ان کی اطاعت شعار ہوتی ہیں اور حافظات للغیب کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کی غیر حاضری میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں‘‘۔ 14؂
ذخیرۂ احادیث میں بھی ایسی بہت سی احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک عورت کا وصف یہ ہے کہ وہ شوہر کی اطاعت کرے اور اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کرے۔
حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا: کون سی عورت سب سے بہتر ہے؟ اس کے جواب میں آپؐ نے فرمایا:
’’التی تسّرہ اذا نظر، وتطیعہ اذا أمر، ولا تخالفہ فی نفسہا ولا مالہا بما یکرہ. 15؂
’’وہ عورت جس کا شوہر اس کی طرف دیکھے تو خوش ہوجائے، وہ اسے کسی چیز کا حکم دے تو اس پر عمل کرے اور اپنی ذات کے بارے میں یا اس مال کے بارے میں جو اس کی تحویل میں ہے، شوہر کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کرے‘‘۔
شوہر کی اطاعت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جب وہ جنسی عمل کی خواہش کا اظہار کرے تو عام حالات میں بیوی اس سے آناکانی نہ کرے۔ رشتۂ نکاح کی غرض و غایت ہی یہ ہے کہ زوجین جائز حدود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے ذریعے جنسی تسکین حاصل کریں۔ متعدد احادیث میں اس کی تلقین کی گئی ہے۔
حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اذا دعا الرجل امرأتہ الی فراشہ فأبت ان تجیئ لعنتہا الملائکۃ حتی تصبح۔ 16؂
’’اگر مرد اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ آنے سے انکار کردے تو فرشتے اس پر صبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں‘‘۔
حضرت طلق بن علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اذا دعاالرجل زوجتہ لحاجتہ فلتأتہ وان کانت علی التنّور۔ 17؂
’’اگر مرد اپنی بیوی کو اپنی ضرورت سے بلائے تو وہ (فوراً) اس کے پاس چلی جائے، خواہ (اس وقت) تنّور پر بیٹھی ہو‘‘۔
(5) مرد کو بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت
اسلام نے مردوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ وہ ان کی خادمائیں نہیں ہیں کہ ان کو اپنے سے کم تر سمجھیں، ان کی تحقیر و تذلیل کریں یا ان کو جسمانی یا نفسیاتی اذیتیں دیں۔ میاں بیوی دونوں الگ الگ خاندانوں سے آکر ایک خاندان تشکیل دیتے ہیں۔ ان کے درمیان مزاجی فرق عین ممکن ہے ، اس لیے اگر بیوی کی کوئی بات یا کوئی رویّہ شوہر کو ناگوار کرے تو اس سے نفرت نہ کرنے لگے، بلکہ اس کے ساتھ محبت ، شائستگی اور ہم دردی کے ساتھ پیش آئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْْراً کَثِیْراً. (النساء:19)
’’ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو، مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘ ۔
حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
استوصوا بالنساء خیراً . 18؂
’’عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو‘‘
حضرت ابوہریرۃؓ ہی سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
لایفرک مومن مومنۃ إن کرہ منہا خلقاً رضی منہا آخر. 19؂
’’کوئی صاحب ایمان مرد (شوہر ) کسی صاحب ایمان عورت (بیوی) سے نفرت نہ کرے۔ اگر اس کی کوئی خصلت اسے بری لگے گی تو دوسری خصلت اس کے نزدیک پسندیدہ ہوگی۔‘‘
متعدد احادیث میں مردوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور لطف و کرم کے ساتھ پیش آنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
خیرکم خیرکم لأہلہ وانا خیرکم لأہلی. 20؂
’’تم میں بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں تم میں بہتر ہوں اپنے گھر والوں کے معاملے میں۔ ‘‘
حضرت ابوہریرۃؓ سے مروی ہے کہ آں حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أکمل المومنین إیماناً أحسنہم خلقاً، وخیارکم خیارکم لنساۂم خلقاً. 21؂
’’اہل ایمان میں کامل ترین ایمان والے وہ ہیں جو اخلاق کے معاملے میں بہتر ہوں اور تم میں بہتر وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ سب سے اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ ‘‘
(6) عورت پر تشدد نہ کرنے کے صریح احکام
اسلام نے بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور ان سے نفرت نہ کرنے کی عمومی ہدایات ہی نہیں دیں ، بلکہ صریح احکام کے ذریعے شوہروں کو ان پر ظلم و تشدّد کرنے سے روکا۔ اس مضمون کی چند احادیث ملاحظہ ہوں:
حضرت عبداللہ بن زمعہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لایجلد أحدکم امرأتہ جلد العبد ثم یجامعہا فی آخر الیوم۔22؂
’’تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو اس طرح نہ مارے جس طرح غلام کو مارتا ہے، کیوں کہ پھر وہ دن گزرنے کے بعد اس کے ساتھ شب باشی کرے گا۔‘‘
حضرت لقیط بن صبرہؓ بیان کرتے ہیں : ایک موقع پر میں نے آں حضرت ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول، میری بیوی کی زبان ٹھیک نہیں، یعنی وہ بد زبان ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اسے طلاق دے دو، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول، وہ کافی عرصہ میرے ساتھ گزار چکی ہے اور اس سے میرے بچے بھی ہیں۔ فرمایا: اسے سمجھاؤ بجھاؤ، اگر اس میں کچھ بھی خیر ہوگا تو وہ تمھاری مرضی کے کام کرنے لگے گی، اپنی گھر والی کو اس طرح ہر گز نہ مارو جس طرح اپنی لونڈی کو مارتے ہو (ولاتضربنّ ظعینتک ضربک أمیّتک)۔ 23؂
ان احادیث میں بیوی کو مارنے کو ناپسندیدہ ، غیر مطلوب اور قابلِ نفرت عمل کی حیثیت سے پیش کرنے کے لیے نفسیاتی تدبیر اختیار کی گئی ہے۔ شیخ رشید رضاؒ (م1354ھ) نے اس مضمون کی بعض احادیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
’’یہ احادیث مرد کو یاد دلاتی ہیں کہ اگر وہ جانتا ہے کہ اسے آئندہ ضرور اپنی بیوی سے ملنا اور خاص تعلق قائم کرنا ہے۔ وہ تعلق جو دو انسانوں کے درمیان پایا جانے والا سب سے مضبوط اور محکم تعلق ہوتا ہے اور اس کے ذریعے دونوں کے درمیان مکمل اتحاد ہوجاتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کا تعلق دوسرے سے اس سے زیادہ قوی ہے جتنا اس کے اپنے اعضاء بدن کا ایک دوسرے کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر وہ یہ تعلق اور اتحاد واقعتاً محسوس کرتا ہے، جو فطرت کا تقاضا ہے، تو کیوں کر اس کے شایانِ شان ہے کہ وہ اپنی بیوی کو ، جو اسی جیسی ہے، اتنا ذلیل اور بے حیثیت کردے جتنا اس کا غلام ہوتا ہے کہ وہ اسے اپنے کوڑے یا ہاتھ سے مارے! واقعہ یہ ہے کہ شرمیلے اور باعزت مرد کا مزاج ایسی زیادتی کرنے سے بچے گا اور جس عورت کو وہ لونڈی کے درجے میں کردے اس سے غیر معمولی اتحاد کا مطالبہ کرنے سے اس کی طبیعت ابا کرے گی ۔ ان احادیث سے عورتوں کو مارنے کی انتہائی شناعت ظاہر ہوتی ہے۔ 24؂
حضرت ایاس بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر مردوں کو تلقین فرمائی: لاتضربوا إماء اللہ (اللہ کی باندیوں، یعنی اپنی عورتوں کو نہ مارو) اسی حدیث میں آگے ہے کہ ایک مرتبہ کئی لوگوں نے اپنی بیویوں کی پٹائی کردی۔ اگلے دن وہ عورتیں ازواج مطہرات کے گھروں میں اکٹھا ہوکر اپنے شوہروں کی شکایت کرنے لگیں۔ رسول اللہ ﷺ تک شکایت پہنچی تو آپ ؐ نے فرمایا:
لقد طاف بآل محمد نساء کثیر یشکون أزواجہن، لیس أولئک بخیارکم ۔ 25؂
’’محمد ﷺ کے گھر والوں کے پاس بہت سی عورتوں نے چکّر لگائے ہیں اور اپنے شوہروں کی شکایت کی ہے۔ یہ لوگ تم میں سے اچھے آدمی نہیں ہیں۔ ‘‘
(7) بے جا تشدّد پر شوہر کی تعزیر ہوگی
اس سے بڑھ کر اسلامی شریعت نے یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے کہ اگر کوئی مرد مذکورہ اسلامی تعلیمات کو پامال کرتا ہے اور اپنی بیوی کو ناحق ستاتا، اس کے ساتھ مارپیٹ کرتا اور اذیتیں دیتا ہے تو عورت کو حق ہے کہ وہ اسلامی عدالت سے فریاد کرے اور قاضی پر لازم ہے کہ اس کی شکایت درست پائے تو مرد کو تعزیری سزا دے۔
الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:
’’فقہاء نے کہا ہے کہ شوہر اگر اپنی بیوی پر ظلم و زیادتی کرے تو حاکم یا قاضی اسے اس سے روکے گا۔ جمہور فقہاء نے صراحت کی ہے کہ قاضی یا حاکم اس پر شوہر کو سزا دے سکتا ہے‘‘ 26؂
اگر ان تعلیمات و ہدایات پر صحیح طریقہ سے عمل کیا جائے تو گھریلو تشدّد کو آسانی سے کنٹرول کیا جاسکتاہے۔ جن معاشروں میں ان پر عمل کیا جاتا ہے وہ امن و سکون کا گہوارہ ہوتے ہیں اور ان میں رہنے والے تمام افراد ہنسی خوشی زندگی گزارتے ہیں۔
نافرمانی اور سرکشی کی صورت میں تادیب کی اجازت ہے
اس موضوع پر گفتگو مکمل نہیں ہوسکتی جب تک یہ وضاحت نہ کردی جائے کہ اسلام نے مذکورہ بالا تدابیر کے ساتھ ایک استثناء بھی رکھا ہے اور وہ یہ کہ نظام خاندان میں اگر عورت اپنے شوہر کے حکموں کی تعمیل نہ کرے اور خودسری و سرتابی کا مظاہرہ کرے تو ایسی سرکش و نافرمان عورت کی اصلاح و تادیب کے لیے شوہر کو اسے معمولی نفسیاتی یا جسمانی سزا دینے کا اختیار ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالّٰتِیْ تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَیْْہِنَّ سَبِیْلاً إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیّاً کَبِیْراً. (النساء: 34)
’’اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں ان سے علیٰحدہ رہو اور مارو۔ پھر اگر وہ تمھاری مطیع ہوجائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو۔ یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے‘‘۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ سرکش عورتوں کی اصلاح کے لیے ان کے شوہر تین تدابیر اختیار کرسکتے ہیں: اول انھیں سمجھائیں بجھائیں۔ دوم: ان سے خواب گاہوں میں علیٰحدگی اختیار کرلیں۔ سوم: انھیں ماریں۔ خواب خواہوں میں رہتے ہوئے جنسی تعلق سے کنارہ کش رہنا نفسیاتی تادیب ہے اور مارنا جسمانی تادیب۔
اسلام کی یہ تعلیم بعض ذہنوں میں الجھن پیدا کرتی ہے۔ اور بعض حضرات اسے اسلام پر اعتراض کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ اس لیے اس پر کسی قدر تفصیل سے اظہار خیال کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
’نشوز‘ کیا ہے؟
اس آیت میں عورتوں کی اصلاح سے متعلق جن تدابیر کا تذکرہ کیا گیا ہے انھیں اس صورت میں بروئے کار لانے کی ہدایت کی گئی ہے جب ان سے ’نشوز‘ کا ارتکاب ہو۔
’نشوز‘ کا لغوی معنیٰ ہے بلند ہونا۔ اس معنیٰ میں بلند زمین کو نشز اور نشاز کہتے ہیں:
’’أصل النشوز الارتفاع ومنہ قیل للمکان المرتفع من الأرض نشز ونشاز ‘‘ ۔ 27؂
قرآن کریم میں ’نشوز‘ کا استعمال شوہر اور بیوی دونوں کے تعلق سے ہوا ہے۔ شوہر کے نشوز کا مطلب ہے بیوی پر ظلم و زیادتی 28؂ اور بیوی کا ’نشوز‘ یہ ہے کہ وہ خود کو شوہر سے بالاتر کرلے، اس کا کہنا نہ مانے ، جس چیز کا شوہر حکم دے اس کے خلاف کرے اور اس سے نفرت کرے ۔ چند ماہرینِ لغت کی تصریحات ملاحظہ ہوں:
جوہری (م393ھ) کہتے ہیں:
نشزت المرأۃ نشوزاً اذا استعصت علی بعلہا وأبغضتہ. 29؂
’’عورت کے نشوز کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کا کہنا نہ مانے اور اس سے نفرت کا اظہار کرے۔ ‘‘
ابن فارس (م395ھ) نے لکھا ہے:
نشز: أصل صحیح یدل علی ارتفاع، ثم استعیر فقیل نشزت المرأۃ استعصت علی بعلہا.30؂
’’نشز اصلاً بلندی کے معنیٰ پر دلالت کرتا ہے۔ استعارۃً اس کا اطلاق اس عورت پر کیا جانے لگا جو شوہر کا کہنا نہ مانے۔ ‘‘
لسان العرب میں ہے:
نشزت المرأۃ نشوزاً: ارتفعت علیہ واستعصت علیہ وأبغضتہ و خرجت عن طاعتہ وفرکتہ. 31؂
’’نشزت المرأۃ کا مطلب ہے عورت شوہر سے بلند ہوگئی ، اس کو ناپسند کرنے لگی، اس کی نافرمانی کرنے لگی، اس سینفرت کرنے لگی۔ ‘‘
راغب اصفہانیؒ (م502ھ) فرماتے ہیں:
نشوز المرأۃ بغضہا لزوجہا ورفع نفسہا عن طاعتہ. 32؂
’’عورت کے نشوز کا مطلب ہے اس کا اپنے شوہر سے نفرت کرنا اور اس کی اطاعت سے خود کو بلند سمجھنا۔ ‘‘
مفسرین کرام نے بھی اس معنیٰ کی توثیق کی ہے۔ چند اقوال ملاحظہ ہوں:
قرطبیؒ (م671ھ) فرماتے ہیں:
عصیانہن وتعالیہن عما أوجب اللہ علیہن من طاعۃ الأزواج. 33؂
’’یعنی وہ نافرمان ہوجائیں اور اللہ نے شوہروں کی جو اطاعت ان پر واجب کی ہے اس سے خود کو بلند سمجھنے لگیں ۔‘‘
خازنؒ (م741ھ) نے لکھا ہے:
نشوز المرأۃ ہو بغضہا لزوجہا ورفع نفسہا عن طاعتہ والتکبر علیہ. 34؂
’’عورت کے نشوز کا مطلب ہے اس کا اپنے شوہر سے نفرت کرنا، اس کی اطاعت سے سرتابی کرنا ۔ ‘‘
ابو حیانؒ (م745ھ) نے یہ تشریح کی ہے:
النشوز ان تتعوّج المرأۃ ویرتفع خلقہا وتستعلی علی زوجہا. 35؂
’’نشوز یہ ہے کہ عورت میں کجی آجائے ۔ اس کے اخلاق میں گھمنڈ پیدا ہوجائے ، وہ خود کو اپنے شوہر سے برتر سمجھنے لگے۔‘‘
ابن کثیرؒ (م774ھ) فرماتے ہیں۔
النشوز ہو الارتفاع فالمرأۃ الناشز ہی المرتفعۃ علی زوجہا التارکۃ لأمرہ المعرضۃ عنہ المبغضۃ لہ. 36؂
’’نشوز کے لغوی معنیٰ بلند ہونے کے ہیں۔ نشوز کرنے والی عورت وہ ہے جو خود کو اپنے شوہر سے برتر سمجھے، اس کا کہنا نہ مانے، اس سے اعراض کرے اور اس سے نفرت کا اظہار کرے۔‘‘
اردو مفسرین میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ (م1997ء/ 1418ھ) نے لفظ ’نشوز‘ کی اچھی تشریح کی ہے۔ فرماتے ہیں:
’’نشوز کے معنیٰ سر اٹھانے کے ہیں، لیکن اس لفظ کا غالب استعمال اس سرتابی و سرکشی کے لیے ہوتا ہے جو کسی عورت کی طرف سے اس کے شوہر کے بالمقابل ظاہر ہو … نشوز عورت کی ہر کوتاہی، غفلت یا بے پروائی یا اپنی شخصیت او راپنی رائے اور ذوق کے اظہار کی قدرتی خواہش کو نہیں کہتے ۔ نشوز یہ ہے کہ عورت کوئی ایسا قدم اٹھاتی نظرآئے جو مرد کی قوّامیت کو چیلنج کرنے والا ہو اور جس سے گھر کی مملکت میں بد امنی و اختلال پیدا ہونے کا اندیشہ ہو‘‘۔ 37؂
عورت کا نشوز زبان سے بھی ہوسکتا ہے او رعمل سے بھی۔ 38؂ مفسرین اور فقہاء نے ’نشوز‘ کی بعض صورتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بیوی شوہر کی جنسی خواہش کی تکمیل میں تعاون کرنے سے انکار کردے۔39؂ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس میں شوہر کی ہر طرح کی نافرمانی شامل ہے۔ شیخ رشید رضاؒ لکھتے ہیں:
’’اکثر فقہاء نے شرعی نشوز کی چند صورتیں بیان کی ہیں: مثال کے طور پر شوہر کی جنسی خواہش پوری کرنے سے انکار کردینا، گھر سے بغیر کسی ضرورت کے نکلنا، شوہر کے کہنے کے باوجود زیب و زینت نہ اختیار کرنا، دینی فرائض سے غفلت برتنا وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ ’نشوز‘ کا مفہوم اس سے زیادہ وسیع ہے۔ اس کا اطلاق ہر اس نافرمانی پر ہوگا جس کا سبب خود کو بڑا سمجھنا اور شوہر کے حکم سے سرتابی کرنا ہو‘‘۔40؂

مقصود تادیب ہے نہ کہ تشدّد
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ مارنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے کہ عام حالات میں بیوی کی ضرور پٹائی کی جائے، بلکہ مخصوص صورت حال میں ، جب اس کی سرکشی اور نافرمانی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہو ، شوہر کو اجازت دی گئی ہے کہ اگر دیگر تدابیر سے کام نہ چلے تو ناگزیر صورت میں بیوی کو بہت معمولی اور ہلکی جسمانی سزا دے سکتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی پیش نظر رکھنے کی تاکید کی گئی ہے کہ اس جسمانی سزا کا مقصد تادیب ہے نہ کہ بیوی پر ظلم ڈھانا اور اس پر تشدّد روا رکھنا۔ اسی وجہ سے اس معاملہ میں غیر معمولی احتیاط برتنے کا حکم دیا گیا ہے۔
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں خطبہ دیا تو اس میں یہ بھی فرمایا:
’’فاتقوا اللہ فی النساء فانّکم أخذتموہن بأمان اللہ واستحللتم فروجہن بکلمۃ اللہ، ولکم علیہن أن لا یوطئن فرشکم أحداً تکرہونہ، فان فعلن ذلک فاضربوہنّ ضرباً غیر مُبَرّح، ولہن علیکم رزقہن وکسوتہن بالمعروف‘‘۔ 41؂
’’عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ تم نے انھیں اللہ کی امان میں لیا ہے او ران کی شرم گاہیں تمھارے لیے اللہ کے کلمہ کے ذریعے حلال ہوئی ہیں۔ تمھارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمھارے بستروں پر ایسے کسی شخص کو نہ آنے دیں جسے تم نا پسند کرتے ہو۔ اگر وہ ایساکریں تو انھیں ایسی مار مارو کہ اس کا جسم پر کوئی نشان ظاہر نہ ہو اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ انھیں دستور کے مطابق کھانا کپڑا دو۔ ‘‘
امام ترمذی نے حضرت عمرو بن الاحوصؓ کے واسطے سے یہ خطبۂ حجۃ الوداع نقل کیا ہے۔ اس کے الفاظ کچھ مختلف ہیں۔ اس میں ہے:
… الاّ ان یاتین بفاحشۃ مبیّنۃ، فان فعلن فاہجروہن فی المضاجع واضربوہن ضرباً غیر مبرّح ۔ 42؂
’’مگر یہ کہ وہ کسی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں۔ اگر وہ ایسا کریں تو انھیں بستروں میں تنہا چھوڑ دو اور انھیں مارو، ایسی مار جس کا جسم پر کوئی نشان ظاہر نہ ہو۔ ‘‘
’بَرَّحَ ‘ کا معنیٰ ہے سختی کرنا، تکلیف پہنچانا۔ ’ضرب مبرّح‘ اس مارکو کہتے ہیں جس میں سخت چوٹ لگے۔ حدیث میں اس سے منع کیا گیا ہے۔ 43؂
ابو حیان فرماتے ہیں:
الضرب غیر المبرّح ہو الذی لایہشم عظماً ولا یتلف عضواً ولا یعقب شیئاً۔ 44؂
’’’ضرب غیر مبرّح‘ سے مراد وہ مار ہے جس سے نہ کوئی ہڈی ٹوٹے، نہ کوئی عضو تلف ہو اور نہ جسم پر اس کا کوئی نشان باقی رہے۔ ‘‘
حضرت ابن عباسؓ سے ان کے شاگرد عطاؒ نے دریافت کیا ’ضرب غیر مبرّح‘ سے مراد کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: مسواک جیسی چیز سے مارنا۔ 45؂
مارنے کا مقصد عورت کو ذلیل و رسوا کرنا، یا اسے جسمانی اذیت پہنچانا نہیں، بلکہ اس کی اصلاح و تادیب ہے، اس لیے علماء نے صراحت کی ہے کہ شوہر مارنے میں حتی الامکان احتیاط ملحوظ رکھے ۔ مثلاً چہرے پر نہ مارے، ایک ہی جگہ نہ مارے، لاٹھی ڈنڈے سے نہ مارے، بلکہ ہاتھ سے، رومال سے یا کسی اور ہلکی چیز سے مارے، جس سے جسم پر کوئی نشان نہ پڑے۔ امام رازیؒ نے مارنے میں مختلف احتیاطی تدابیر بتانے کے بعد لکھا ہے:
وبالجملۃ فالتخفیف مراعی فی ہذا الباب علی أبلغ الوجوہ ۔ 46؂
’’حاصل یہ کہ اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ تخفیف ملحوظ رکھنی چاہیے۔ ‘‘
اصلاحی تدابیر اختیار کرنے میں تدریج
ایک بات یہ بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ قرآن کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ اصلاحی تدابیر میں تدریج ملحوظ رکھی جائے۔ ایسا نہ ہو کہ عورت کی جانب سے سرکشی کااظہار ہوتے ہی بہ یک وقت تینوں تدابیر پر عمل کرلیا جائے، یا شوہر جب جس چیز کو چاہے بروئے کار لے آئے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے لکھا ہے:
’’یہ مطلب نہیں ہے کہ تینوں کام بہ یک وقت کر ڈالے جائیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ نشوز کی حالت میں ان تینوں تدبیروں کی اجازت ہے۔ اب رہا ان پر عمل در آمد تو بہر حال اس میں قصور اور سزا کے درمیان تناسب ہونا چاہیے اور جہاں ہلکی تدبیر سے اصلاح ہوسکتی ہو وہاں سخت تدبیر سے کام نہ لینا چاہیے‘‘۔ 47؂
مولانا شبیر احمد عثمانیؒ (م1950ء/1370ھ) نے لکھا ہے:
’’ یعنی اگر کوئی عورت خاوند سے بدخوئی کرے تو پہلا درجہ تو یہ ہے کہ مرد اس کو زبانی فہمائش کرے اور سمجھاوے۔ اگر نہ مانے تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ جدا سووے ، لیکن اسی گھر میں، اس پر بھی نہ مانے تو آخری درجہ یہ ہے کہ اس کو مارے بھی … ہر تقصیر کا ایک درجہ ہے، اسی کے موافق تادیب یا تنبیہ کی اجازت ہے، جس کے تین درجے ترتیب وار آیت میں مذکور ہیں‘‘۔ 48؂
مولانا امین احسن اصلاحیؒ تینوں تدابیر کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’قرآن کا انداز بیان دلیل ہے کہ ان تینوں میں تربیت و تدریج ملحوظ ہے‘‘۔ 49؂
قدیم مفسرین نے بھی مذکورہ اصلاحی تدابیر میں ترتیب کا لحاظ رکھنے کی تاکید کی ہے اور لکھا ہے کہ اگر ہلکی تدبیر سے کام چل سکتا ہو تو سخت تدبیر کو نہیں اختیار کرنا چاہیے۔ امام رازیؒ فرماتے ہیں:
الذی یدل علیہ انہ تعالیٰ ابتدأ بالوعظ، ثم ترقّی منہ الی الہجران فی المضاجع، ثم ترقی منہ الی الضرب، وذلک تنبیہ یجری مجری التصریح فی أنہ مہما حصل الغرض بالطریق الأخفّ وجب الاکتفاء بہ ولم یجز الإقدام علی الطریق الأشقّ۔ 50؂
’’آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سمجھانے کا حکم دیا ہے، پھر اس سے آگے بڑھ کر بستروں میں تنہا چھوڑنے کو کہا ہے، پھر اس سے آگے بڑھ کر مارنے کا حکم دیا ہے۔ یہ ایسی تنبیہ ہے جس سے تقریباً صراحت سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک ہلکے طریقے سے مقصد حاصل ہو وہاں تک اس پر اکتفا کرنا ضروری ہے۔ اسے چھوڑ کر سخت طریقے کو اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘
ابن عطیہؒ (م542ھ) نے لکھا ہے:
ہذہ العظۃ والہجر والضرب مراتب۔ إن وقعت الطاعۃ عند إحداہا لم یتعدّ الی سائرہا۔ 51؂
’’سمجھانا، تنہا چھوڑنا اور مارنا، تینوں کاموں میں ترتیب ہے۔ کسی ایک تدبیر سے عورت اطاعت کرنے لگے تو دیگر تدابیر نہیں اختیار کی جائیں گی۔ ‘‘
علامہ بیضاویؒ (م685ھ) بیان کرتے ہیں:
الأمور الثلاثۃ مترتّبۃ ینبغی أن یدرّج فیہا۔ 52؂
’’تینوں تدابیر میں ترتیب ہے۔ انھیں اختیار کرنے میں تدریج کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ ‘‘
علامہ آلوسیؒ (م1270ھ) نے لکھا ہے:
الذی یدل علیہ البیان والقرینۃ العقلیۃ أن ہذہ الأمور الثلاثۃ مترتّبۃ فإذا ثبت نشوز المرأۃ تنصح ثم تہجر ثم تضرب۔ 53؂
’’سیاق اور عقلی قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں تدابیر میں ترتیب ہے۔ چنانچہ جب عورت کی سرکشی ثابت ہوجائے تو پہلے اسے نصیحت کی جائے گی، پھر تنہا چھوڑا جائے گا، پھر مارا جائے گا۔‘‘
علامہ ابن الجوزیؒ (597ھ) نے بعض اصحاب علم کا یہ قول نقل کیا ہے:
الآیۃ علی الترتیب، فالوعظ عند خوف النشوز، والہجر عند ظہور النشوز والضرب عند تکرّرہ واللجاج فیہ ، ولا یجوز الضرب عند ابتداء النشوز۔ 54؂
’’آیت میں ترتیب ہے۔ سمجھایا اس وقت جائے گا جب سرکشی کا اندیشہ ہو۔ تنہا اس وقت چھوڑا جائے گا جب سرکشی کا اظہار ہو اور مارا اس وقت جائے گا جب سرکشی کا بار بار اعادہ ہو اور عورت مستقل اس کا ارتکاب کرنے لگے۔ سرکشی کی ابتدا ہی میں مارنا جائز نہیں۔‘‘
قاضی ابن العربی المالکی (م543ھ) نے اس قول کو سعید بن جبیرؒ کی جانب منسوب کرتے ہوئے اسے آیت مذکورہ کی سب سے اچھی تفسیر قرار دیا ہے۔ 55؂
مفسرین نے یہ بھی صراحت کی ہے کہ مذکورہ تینوں امور کے درمیان اگرچہ حرف عطف ’و‘ لایا گیا ہے، جو عربی قواعد کے اعتبار سے ترتیب پر دلالت نہیں کرتا، لیکن سیاق و قرینہ سے ترتیب ہی ظاہر ہوتی ہے۔ 56؂
مارنے کا حکم موجبِ قدح نہیں
اسلام پر اعتراضات کرنے والوں نے قرآن کے اس حکم کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے نزدیک یہ عورت کی انسانیت کی توہین و تذلیل ہے کہ کوئی شخص ، خواہ وہ شوہر ہی کیوں نہ ہو، اسے مارے پیٹے۔ قابل غور یہ ہے کہ قرآن نے یہ حکم اس صورت میں، جب دیگر تدابیر ناکام ہوجائیں، ناگزیر علاجی تدبیر کے طور پر دیا ہے۔ اس کا یہ حکم عام حالات میں اور عام عورتوں کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس مخصوص صورت حال کے لیے ہے جب عورت خود سر ہوجائے، مرد سے نفرت کرنے لگے، اس کا کہنا نہ مانے او راسے اپنے سے کم تر سمجھنے لگے۔ جن لوگوں کو قرآن کا یہ حکم عورت کی توہین وتذلیل معلوم ہوتا ہے انھیں عورت کے باغیانہ تیور او رخودسری پر مبنی رویّہ میں مرد کی تحقیر و تذلیل کا پہلو نظر نہیں آتا۔ مولانا عبدالماجد دریابادیؒ (م1977ء/1397ھ) نے لکھا ہے:
’’قرآن کا خطاب ظاہر ہے (لیکن بار بار اسے یاد کرلینے کی بھی ضرورت ہے کہ کسی ایک طبقہ، کسی ایک قوم، کسی ایک تمدن سے نہیں، اس کے مخاطب … ہر طبقہ، ہر سطح، ہر ذہنیت کے لوگ پہلی صدی ہجری سے لے کر قیامت تک ہر زمانے اور ہر دور والے ہیں اور اس کے احکام و مسائل میں لحاظ ہر انسانی ضرورت اور ہر بشری ماحول کا کرلیا گیا ہے، چنانچہ یہ مشاہدہ ہے کہ بہت سے معاشرے اور طبقے ایسے ہیں جہاں عورت کے لیے جسمانی سزائیں عام ہیں، علاج کی یہ صورت ظاہر ہے کہ انہی طبقوں کے لیے ہے ، پھر اتنی اجازت بھی ضرورت پڑنے ہی پر ہے، ورنہ سیاقِ عبارت نرمی ہی کی سفارش کررہا ہے … قرآن مجید میں اس حکم کا ملنا قرآن مجید کے حق میں ذرا بھی مضر نہیں، جیسا کہ بعض یورپ زدہ مسلمان سمجھ رہے ہیں، بلکہ یہ تو عین دلیل ہے اس کی کہ قرآن مجید کے احکام ہر طبقہ اور ہر مزاج اور ہر سطح انسانی کے لیے ہیں‘‘۔ 57؂
شیخ محمد عبدہٗؒ (م1323ھ) فرماتے ہیں:
’’عورتوں کو مارنے کی مشروعیت ایسی چیز نہیں ہے جو عقل یا فطرت کی روٗ سے اتنی ناپسندیدہ ہو کہ اس کی تاویل کی ضرورت محسوس کی جائے۔ اس کی ضرورت ماحول کے فساد یا فاسد اخلاق کے غلبہ کی صورت میں پڑتی ہے اور اسے اسی صورت میں مباح قرار دیا گیا ہے جب مرد محسوس کرے کہ عورت کی سرکشی اس کے بغیر ختم نہیں ہوسکتی۔ اگر ماحول درست ہو اور عورتیں نصیحت کو سمجھنے اور وعظ پر کان دھرنے لگیں یا ترکِ تعلق سے وہ سرکشی سے باز آجائیں تو مارنے سے بچنا ضروری ہے‘‘۔ 58؂
علامہ رشید رضاؒ نے لکھا ہے:
’’ہمارے یہاں سرکش عورت کو مارنے کی مشروعیت پر مغربی تہذیب و معاشرت کی نقّالی کرنے والے بعض حضرات ناک بھوں چڑھاتے اور ناگواری کا اظہار کرتے ہیں۔ انھیں اس پر کوئی ناگواری نہیں ہوتی کہ عورت مرد کی سرتابی کرے، اس پر اپنی بڑائی جتائے اور گھر کے سربراہ کو اپنا ماتحت بلکہ حقیر سمجھے ، اپنی سرکشی پر مصر رہے، یہاں تک کہ نہ اس کے وعظ و نصیحت پر نرم پڑے، نہ اس کی بے رخی اور ترکِ تعلق کی کوئی پروا کرے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ لوگ ایسی سرکش عورتوں کا کیوں کر علاج کرتے ہیں اور ان کے شوہروں کو ان کے ساتھ کیسا معاملہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ شاید ان کے تصور میں ایک ایسی عورت ہوتی ہے جو نحیف و نزار، تہذیب یافتہ اور اعلیٰ اخلاق کی حامل ہے، جس پر ایک تند خو او رسنگ دل مرد ظلم ڈھاتا ہے۔ چنانچہ وہ اس کے تروتازہ گوشت سے اپنے کوڑے کاپیٹ بھرتا اور اس کے تازہ خون سے اسے سیراب کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس قسم کی مار مارنے کی اجازت دے رکھی ہے اور وہ اسے خواہ کتنی ہی تکلیف پہنچائے اور کیسی ہی سزا دے اس پر کوئی گناہ نہیں، جیسا کہ بہت سے سنگ دل اور درشت خو مرد کرتے ہیں۔ حاشا للہ۔ اللہ تعالیٰ اس ظلم کی اجازت دیتا ہے نہ اسے پسند کرتاہے۔ یہ صحیح ہے کہ بہت سے مرد تند خو اور سنگ دل ہوتے ہیں جو عورت پر خواہ مخواہ ظلم و زیادتی کرتے ہیں۔ ایسے مردوں کی تنبیہ کے لیے بہت سی احادیث آئی ہیں اور ان کے معاملے میں قرآن کریم میں ’تحکیم‘ کااصول بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی صحیح ہے کہ بہت سی عورتیں زبان دراز، سرکش اور بہانے باز ہوتی ہیں۔ وہ اپنے شوہروں سے نفرت کرتی ہیں، ان کے احسانات کی ناشکری کرتی ہیں، محض بغض و عناد میں ان کے حکموں کی سرتابی کرتی ہیں، انھیں ایسے کاموں پر مجبور کرتی ہیں جو ان کے بس میں نہیں ہوتے ۔ روئے زمین میں کیا فساد واقع ہوجائے گااگر کسی متقی و پرہیز گار مرد کو اجازت دے دی جائے کہ وہ کسی ایسی عورت کے ہاتھ پر ایک مسواک مارکر یا اس کی گردن پر ایک چپت رسید کرکے اس کے بغض میں کچھ کمی کردے یا اس کی سرکشی و غرور کا پارہ کچھ اتاردے؟! اگر اس چیز کا جواز ان کے مزاجوں پر گراں گزرتا ہے تو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے مزاجوں میں فساد آگیا ہے اور انھیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ان کے بہت سے انگریز دانش ور پڑھی لکھی ، تہذیب یافتہ، لباس پہننے کے باوجود عریاں نظر آنے والی، دوسروں کی طرف مائل ہونے والی اور دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے والی عورتوں کو مارتے رہے ہیں۔ ایسا ان کے دانش وروں نے بھی کیا ہے اور مذہبی لوگوں نے بھی، ان کے حکم رانوں نے بھی کیا ہے اور ان کے سربر آوردہ طبقہ کے لوگوں نے بھی۔ یہ ایسی ضرورت ہے جس سے ان تعلیم یافتہ عورتوں کی عزت افزائی میں غلو کرنے والے بے نیاز نہیں ہیں تو ایک ایسے مذہب میں اس کی ضرورت اور اس کے مباح ہونے پر ناگواری کا کیوں کر اظہار کیا جاسکتا ہے جو بدوی اور متمدن، انسانوں کے تمام طبقات کے لیے عام ہے‘‘۔59؂

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔