قرآن کا پیغام والدین کے نام – کیا آپ چاہتے ہیں۔۔۔ قسط (10)

کہ جنت میں اپنی اولاد کے ساتھ رہیں

وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْھُمْ ذُرِّیَّتُھُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَابِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَ مَا اَلَتْنَاھُمْ مِنْ عَمَلِھِمْ مِنْ شَیْئٍ کُلُّ امْرِئٍ بِمَا کَسَبَ رَھِیْنٌ۔ (الطور۵۲:۲۱)
’’اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ان کی اولاد بھی کسی درجہ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے ان کی اس اولاد کو بھی ہم جنت میں ان کے ساتھ ملادیں گے اور ان کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے۔ ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے ‘‘۔
جنت میں اہل ایمان کو بہت سی نعمتیں عطا کی جائیں گی۔ ان نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ اہل ایمان کی ذریت(اولاد) اگر ایمان کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلی ہوگی تو اللہ تعالیٰ جنت میں ان کی اولاد کو ان کے ساتھ کردے گا گرچہ اولاد اپنے اعمال کی بدولت اس کی مستحق نہیں ہوگی۔ اس کیلئے کسی کے درجے اور بدلے میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔
اس آیت سے ایک بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ فیملی اور آل و اولاد کے ساتھ زندگی گزارنا ایک نعمت ہے اس سے آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سکون وخوشی حاصل ہوتی ہے ۔ اگر کوئی اس نعمت سے محروم ہو تو زندگی بے کیف اور بے لطف بن جاتی ہے حتی کہ جنتی جب جنت میں جائے گا تو وہاں بھی وہ آل و اولاد کے ساتھ زندگی گزارنے کی خواہش کرے گا۔ طبرانی میں سعید بن جبیرؓ سے روایت ہے ’’جب کوئی شخص جنت میں داخل ہوگا تو اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کے متعلق پوچھے گا وہ کہاں ہیں؟ اسے خبر دی جائے گی کہ وہ تمہارے درجے کو نہیں پہنچے اس لئے جنت میں ان کا الگ مقام ہے۔ وہ شحص عرض کرے گا اے میرے پروردگار! میں نے جو کچھ عمل کیا وہ اپنے لئے اور ان سب کے لئے کیا تھاتو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا ان کو بھی اس کے ساتھ کردیا جائے‘‘۔ اس مفہوم کی دوسری روایت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ مومنین صالحین کی اولاد کو ان کے آباء کے درجہ میں پہنچا دے گا اگرچہ وہ عمل کے اعتبار سے اس درجہ کے مستحق نہیں ہوں گے تاکہ ان کے آباء کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں‘‘(حاکم، بیہقی)
اس آیت میں جہاں اس نعمت کی بشارت دی گئی ہے وہیں اس کی شرطیں بھی بیان کی گئی ہیں۔
پہلی شرط یہی ہے کہ آباء خود صاحب ایمان ہوں۔ جنت کے حق دار ہوں اور اونچے مرتبے پر فائز ہوں۔ گویا آباء اور والدین کا خود صاحب ایمان اور نیک بننا ضروری ہے۔ تبھی ان کی اولاد کو جنت میں ان کے ساتھ کیا جائے گا۔ لہٰذا اگر والدین چاہتے ہیں کہ جنت میں ان کی اولاد ان کے ساتھ رہے تو انہیں پہلے خود صاحب ایمان اور نیک بننا ہوگا۔
دوسری شرط یہ ہے کہ اولاد بھی ایمان پر قائم ہو اور آباء کے نقش قدم پر چلے ’’وَ اتَّبَعَتْھُمْ ذُرِّیَّتُھُمْ بِایْمَانٍ‘‘ میں اس کا اشارہ موجود ہے۔ اب اگر اولاد ایمان سے دور ہو جائے آباء کے نقش قدم پر نہ چلے تو پھر وہ اولاد اس نوازش کی مستحق قرار نہیں پاسکتی۔ لہٰذا اگر والدین یہ چاہتے ہیں کہ جنت میں بھی اولاد کے ساتھ رہنا نصیب ہو تو انہیں ان کے ایمان کی بھی فکر کرنی چاہئے بلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ اولاد صاحب ایمان بنے، ایمان پر قائم رہے اور ایمان کے جس راستے پر وہ خود چل رہے ہیں ان کی اولاد بھی اس نقش قدم پر چلے۔
اگر اولاد کو صاحب ایمان اور نیک بنانے کی کوشش کی تو اس کا صرف یہی فائدہ نہیں ہے کہ وہ جنت میں ساتھ کردی جائے گی۔ بلکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ اولاد جنت میں والدین کے درجات بلند کرنے کا سبب بن جائے کیونکہ نیک اولاد صدقہ جاریہ ہوتی ہے۔ مسند احمد کے اندر ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ ’’ایک شخص جنت میں اپنا درجہ بلند ہوتے دیکھے گا تو وہ تعجب سے دریافت کرے گا کہ میرے درجات کیسے بلند ہورہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تیری نیک اولاد تیرے لئے دعا کرتی ہے تو اس کے طفیل تیرا درجہ بلند ہوتا ہے ‘‘۔
ہر ایک کیلئے صاحب ایمان ہونے کی شرط اس لئے ہے کہ ایمان ہی نجات اور انعام الٰہی کی اصل بنیاد ہے۔ اگر یہ نہ ہو توپھر کچھ بھی ممکن نہیں اور اگر کسی کے پاس یہ بنیادی دولت موجود ہے تو پھر اپنے اپنے اعمال کے مطابق صرف مراتب کا فرق ہوگا اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اپنے انعام و اکرام کی تکمیل کیلئے درجات بلند کردے گا جس طرح ایک نیکی پر کئی گنا اجر عطا فرمائے گا۔
ایمان کی شرط سے ہی اس تصور کی بھی نفی ہوتی ہے کہ ’’صرف خاندانی نسبت سے کام بن جائے گا‘‘۔ جیسا کہ بگڑی اقوام عموماً اس طرح کی خام خیالی میں مبتلا ہوتی ہیں۔ یہود اور مشرکین عرب نے ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کے دین کو بالکل مسخ کردیا تھا۔ کفرو شرک میں مبتلا ہوچکے تھے لیکن محض ان انبیاء سے نسبی رشتے کے بل پر جنت کے اعلیٰ مقامات پانے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ آج کے سید زادوں اور پیرزادوں کے ذھنوں میں بھی کچھ ایسا ہی خنّاس پایا جاتا ہے حالانکہ محض نسبت کچھ کام نہ آئے گی۔

تبصرے بند ہیں۔