‘لنگی’ افسانہ یا حقیقت بیانی!

محسن خان

یونیورسیٹوں کے پروفیسرس اور اردو کے ادبی حلقوں میں ایک لفظ جوباربارسننے میں آرہا ہے وہ ہے لنگی۔ لنگی ایک فائدہ مند چیز ہے اورہرکوئی اسے پہنتا ہے لیکن پچھلے کچھ دنوں سے لوگ لنگی پہننے سے ڈررہے ہیں ۔ وہ لوگ جو عام طورپر ہمیشہ لنگی میں نظرآتے تھے انہوں نے بھی اپنا حلیہ بدل دیا ہے اورایسا سننے میں بھی آیا ہے کہ اب لنگی کی فروخت میں بھی کمی آئی ہے۔ قصہ کیا ہے لنگی کا‘دراصل چند ماہ قبل ایک افسانہ منظرعام پرآیا تھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا میں مقبولیت حاصل کرلی۔ اور جیسے ہی یہ منظرعام پرآیا اس کے تخلیق کار شموئل احمد کے خلاف کئی گوشوں سے آوازیں بلند ہوئیں اوربات پولیس اسٹیشن تک پہنچ گئی۔ اس کے چند ماہ بعد لنگی افسانہ سے ناراض لوگوں نے شموئل احمد پربہار اردواکیڈیمی کی کانفرنس کے دوران حملہ کیا جو اس بات کوتقویت پہنچاتا ہے کہ افسانہ بالکل حقیقت کے قریب ہے۔ صحافی دکن کے پیر کوشائع ہونے والے ادبی ایڈیشن’’قرطاس وقلم‘‘میں اس افسانہ کوپچھلے ہفتہ شائع کیاگیاتھا اور اس حملے کی مذمت کی گئی۔

 شموئل احمد کی لنگی افسانہ تھی یا حقیقت بیانی ساری دنیا اس سے واقف ہے۔ آج یونیورسٹیوں کا ماحول دن بہ د ن خراب ہوتا جارہاہے۔ لڑکیوں کو اسکالر کاٹائٹل دیتے ہوئے ان کا استحصال کیاجاتا ہے۔ بات ریسرچ اسکالر تک ہی محدود نہیں بلکہ دیگر اوربھی کئی قصّے سامنے موجود ہیں لیکن کوئی ہمت نہیں کرتا ان کے خلاف آوازاٹھانے کی۔ ایک قومی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے تو تمام حدیں پار کردیں ۔ یونیورسٹی کے باب الداخلہ پر اپنی پسندیدہ پروفیسر کوڈائرکٹربناتے ہوئے ان کے لئے تاج محل جیسی ایک عالیشان عقیدت بھری نشانی تعمیر کروائی۔ جس کے لئے وہ عمار ت بنائی گئی وہ اپنے آپ کوبہت ہی قابل سمجھتے ہیں انہوں نے جب سلمان رشدی ملعون کو جئے پور لٹریری فیسٹیول میں بلانے پر لوگ احتجاج کررہے تھے ایک قومی اخبار کوانٹرویو دیتے ہوئے سلمان رشدی کی تائید کی تھی۔ اسی طرح ایک قومی یونیورسٹی میں جہاں اسّی فیصد سے زائد طلبہ ایک ہی شعبہ میں فیل ہوتے ہیں اور صرف دوہی اسٹوڈنٹ پاس ہوئے تو ایک لیکچرر نے اپنے خاص شاگردکو دوسری غریب طالبہ کوڈرانے کے لئے دھمکیاں دینے لگائے اور فون پراغوا اور دوسرے قسم کے ایس ایم ایس کروائے تاکہ وہ لڑکی کا دھیان پڑھائی سے ہٹ جائے ‘اس کی تحریری شکایت پراکٹرآفس میں کی گئی تھی۔ ان لیکچرر صاحب کی خواہش تھی کہ تمام کلاس کے اسٹوڈنٹ فیل ہو ں اور ان کی اکلوتی اسٹوڈنٹ کامیاب اور اسی کو گولڈ میڈل حاصل ہو اورہوا بھی ایسا ہی۔

 اس طرح کے کریمنل واقعات ہمارے جامعات میں ہورہے ہیں اور وہیں پراکٹر بھی جو پہلے ذکر کئے گئے وائس چانسلر کے بھانجے ہیں اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بھائی کوسنٹرل یونیورسٹی میں معمولی سے سکیورٹی کی نوکری دلانے میں کامیاب ہوگیا۔ یعنی ایک پروفیسر کی خاص شاگردہ کو گولڈ میڈل مل گیا اور پراکٹر جو طلبہ کے معاملات کی نگرانی کرتا ہے اس کے بھائی کو ملازمت  اورجنسی استحصال کمیٹی کی چیئرپرسن کی بہن کوملازمت۔ یہاں سالوں سے کام کرنے والے مستقل ملازمت حاصل نہیں کرپائے لیکن مذکورہ افراد کے بھائی بہن کوآتے ہی مستقل ملازمت حاصل ہوگئی۔ یونیورسٹیوں میں ایم فل اورپی ایچ ڈی میں داخلہ کے بعدہراسٹوڈنٹ کو ایک پروفیسر کے حوالے کردیاجاتا ہے اور اس کا تعلق اب صرف اسی پروفیسر سے رہتا ہے یعنی اب وہ پروفیسر اس کے لئے نا خدا کاد رجہ حاصل کرجاتا ہے۔ یونیورسٹی کے کسی فرد سے یا کلاس سے اب اس ریسرچ اسکالر کا کوئی تعلق نہیں رہتا۔

اب پروفیسر اور لڑکی ایم فل میں اٹھارہ ماہ یا قریب دو سال اورپی ایچ ڈی میں تین سا ل یا پانچ سال تک دونوں کے درمیان ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں ۔ اس کے لئے کوئی کلاس روم نہیں ہوتا۔ بس وہ پروفیسر اور لڑکی جب دل میں آیا روم میں بیٹھ کر مقالہ کی تیاری ‘ابواب کی فہرست یا دیگر اہم نکات پر گھنٹوں بات کرتے ہیں ‘سمجھتے ہیں ‘ سمجھاتے ہیں جبکہ حدیث میں واضح طورپراشارہ دیدیاگیا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے(مشکوۃ شریف)۔ یونیورسٹیوں میں پروفیسرس صاحبین کے لئے شاندار روم ہوتا ہے۔ اے سی ہوتاہے اور اس روم کے اندر ہی بیت الخلاء ہوتا ہے۔ بعض پروفیسرس کے روم میں حمام بھی ہوتا ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ روم میں بیت الخلاء اور حمام کی ضرورت کیا ہے۔ شعبہ میں ریسرچ اسکالر کودااخلہ دینے یا نہ دینے کے اختیارات شعبہ کے ہی اساتذہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں ۔ ایسے میں کیا ضمانت کہ صاف وشفاف انتخاب عمل میں لایا جاتا ہو اوروہی اسکالر سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے جو ان سے قربت رکھتا ہو۔ لڑکوں کی شکایت ہوتی ہے کہ زیادہ تر لڑکیوں کوہی ایم فل او رپی ایچ ڈی میں داخلہ کیوں ملتا ہے۔

 ایسی خبریں بھی سننے میں آئی ہیں کہ پہلے سے معاملہ طئے ہوتا ہے کہ ماہانہ ایم فل اور پی ایچ ڈی میں سے ملنے والی اسکالرشپ کا آدھا حصہ پروفیسر کودیں گے تو وہ داخلہ دیدیں گے اور آپ گھرمیں آرام سے بیٹھئے یاکیمپس میں سیر وتفریح کریں ‘  یونیورسٹی جانے کے بہانے گھر سے نکل کر دوستو ں کے ساتھ اسکالرشپ کی رقم پرعیش کریئے ‘ آپ کی کوئی حاضری نہیں لی جاتی ‘ پروفیسر صاحب خود آپ کو پورا مقالہ تیار کرکے دیدیں گے اور فائنل وائیوا کے دن آپ اپنے گھروالوں ‘دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ آکر تلخیص پیش کرکے ڈگری لیکرچلے جائیں اوراس دن ایک شاندار دعوت دیدیں اورآپ کے نام کے ساتھ ڈاکٹر کی ڈگری لگ جائے گی۔ یونیورسٹیوں میں جنسی واقعات کی شکایت کے لئے ایک کمیٹی ہوتی ہے لیکن اس کے تمام ارکان یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اپنے ساتھی اور یونیورسٹی کوبدنامی سے بچانے کی خاطر شکایت کرنے والی لڑکی کو ہی ڈرادھمکاکر کہتے ہیں کہ خاموش پڑھ لو اور نکل جائو ورنہ تمہارا کیریئر کے ساتھ ساتھ نام بھی بدنام ہوجائے گا۔

ایک معاملہ میں کمیٹی کی چیرپرسن نے ایک لنگی لیکچرر کوبچاتے ہوئے معاملہ داری کرتے ہوئے اپنی سگی بہن کو قومی یونیورسٹی میں ملازمت دلادی۔ اس طرح ان کی اب دو بہنوں کو قومی جامعہ میں آسانی سے ملازمت حاصل ہوگئی۔ ہمارے یہاں قائم بعض یونیورسٹیوں میں ایک شعبہ کے لئے اتنی بڑی عمارت بنائی جاتی ہے جبکہ اس کی ضرورت نہیں ہوتی ہے صرف چار یا پانچ طلبہ کے لئے تین منزلہ عمارت تعمیر ہوتی ہے اور بعض شعبوں میں ایک بھی خاتون لیکچرر نہیں ہوتی ہے جبکہ وہاں کئی طالبات پڑھتی ہیں ایسے میں کوئی ایمرجنسی ضرورت ہو تو لڑکیو ں کوکافی مشکلات پیش آتی ہیں ۔ تقریباً  یونیورسٹیاں توجنگل جیسے ماحول میں قائم ہیں ۔ ویرانے میں دور دور ایک ایک ڈپارٹمنٹ ہوتا ہے۔ استاد کا درجہ اعلیٰ ہوتا ہے لیکن چند لنگی برادر پروفیسروں کی وجہ سے اس مقدس پیشہ کوبھی بدنامی کا داغ لگ رہا ہے۔ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرس کوبھی چاہئے کہ وہ اس بات کویقینی بنائے کہ اگر کوئی لڑکی ریسرچ اسکالر ہو تو کلاس روم میں یا ہال میں بیٹھ کرمقالہ کے تعلق سے بات کرنے کی ہدایت اپنے پروفیسرس کودیں نہ کہ ان کے روم میں ‘ تنہائی میں ۔ لنگی ڈیانس کرنے والے پروفیسرس کی وجہ سے کئی اسٹوڈنٹس ترک تعلیم کررہے ہیں اور ذہنی اورجسمانی طورپر پریشان ہورہے ہیں ۔

شموئل احمد کے افسانہ نے منٹو کی یاد دلادی کہ کس طرح ان کوبھی حقیقت بیان کرنے پر مقدموں کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ صحافی دکن کے ادبی ایڈیشن کے ذمہ داروں کوبھی مبارکباد کہ انہوں نے تلنگانہ اور حیدرآباد دکن کے عوام کویہ افسانہ شائع کرتے ہوئے اس بات سے واقف کروایاکہ کس طرح کا ماحول یونیورسٹیوں میں ہورہا ہے اور معصوم اوربھولی بھالی طالبات کے ساتھ کھلواڑکیاجارہا ہے۔ غریب ماں باپ ان کویہ معلوم نہیں ہوتا کہ ایم فل اورپی ایچ ڈی کے لئے روز یونیورسٹی کے لئے جانا ضروری نہیں ہوتا وہ تویہ سمجھتے ہیں کہ ان کی لڑکی پابندی سے یونیورسٹی جاکر اعلیٰ ڈگری حاصل کررہی ہیں ۔ افسانہ کے آخر میں یہ سبق ہے کہ پاپ کا گھڑا ایک نہ ایک دن پھوٹ جاتا ہے۔ تمام اسکالرس اور ماں باپ جن کی لڑکیاں یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کررہی ہیں ان سب کویہ افسانہ پڑھنا چاہئے اور وائس چانسلر ‘ ڈین اوردیگر ذمہ دارو ں کوبھی چاہئے کہ وہ سختی سے ان معاملات پرنظررکھیں ۔

رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے

استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

تبصرے بند ہیں۔