لوک سبھا جیتنے کے لیے ہر چیز قربان کردی جائے گی

حفیظ نعمانی

جس دن سے اُترپردیش میں بی جے پی کی حکومت بنی ہے اسی دن سے اس کا چرچا ہے کہ حکومت وہ تمام مقدمے واپس لے گی جس میں بی جے پی کے لیڈر اور ورکر ماخوذ ہیں۔ یہ بات تو پہلے دن سے ہی تذکرہ میں ہے کہ نائب وزیراعلیٰ جو حکومت بننے سے پہلے بی جے پی کے صوبائی صدر تھے 10 سے زیادہ مقدمات میں ماخوذ ہیں جس میں سنگین دفعات کے مقدمے بھی ہیں۔

مقدمات کی واپسی کوئی نئی بات نہیں ہے 1969 ء کے الیکشن سے پہلے لکھنؤ میں سنی شیعہ جھگڑا ہوگیا تھا۔ 1969 ء کا الیکشن ہوا تو شہر کی چاروں سیٹوں پر چودھری چرن سنگھ کی پارٹی بھارتیہ کرانتی دل کے اُمیدوار جیت گئے۔ وہ مقدمات جو اس فساد کے چل رہے تھے وہ بدستور چلتے رہے۔ جس میں سیکڑوں سنی اور شیعہ عدالت میں آتے تھے ان کے ساتھ ان کے حمایتی اور ضامن بھی ہوتے تھے۔ اور برابر خبریں آرہی تھیں کہ عدالت کی فضا خراب ہوجاتی ہے۔ ہم نے چودھری صاحب کی حکومت بننے کے بعد ان سے کہا کہ کبھی کبھی یہ خطرہ پیدا ہوجاتا ہے کہ عدالت میں ہی نیا جھگڑا نہ ہوجائے۔ چودھری صاحب نے کہا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ ہم نے کہا کہ جو سیکڑوں افراد دونوں طرف کے معمولی دفعات جیسے کرفیو کی خلاف ورزی یا گالی گلوج یا دھکامکی جیسی ہلکی دفعات میں ماخوذ ہیں ان کے مقدمے واپس لے لئے جائیں۔ آتشزنی یا اقدام قتل اور لوٹ مار کے جو سنگین دفعات کے مقدمے ہیں وہ اگر رہ جائیں تو عدالت میں گنے چنے لوگ آئیں گے۔ چودھری صاحب نے ہوم سکریٹری کو ٹیلیفون کردیا کہ ہلکی پھلکی دفعات والے سارے مقدموں کی واپسی کا آرڈر بناکر لے آؤ۔

مظفرنگر اور شاملی میں جو ہوا اس میں سے ایک حادثہ بھی ایسا نہیں ہے جسے واپس لیا جائے پانچ سال ہوچکے ہیں اور آج بھی نہ جانے کتنے بے گھر اور بے در پڑے ہیں حکومت کا صرف یہ منصوبہ کہ 2019 ء میں جاٹ برادری ان کی حکومت بنوا دے انتہائی گھٹیا بات ہے اور یہ اس بات کا اعلان ہے کہ حکومت نااہل ہے وہ اپنے کاموں سے تو عوام کو مطمئن کرنہیں سکتی رشوت دے کر ان کی حمایت حاصل کرے گی۔ اترپردیش میں مختلف پارٹیوں کی حکومت رہی ہے بی جے پی کی بھی حکومت رہی ہے اور جنتا پارٹی کی بھی رہی ہے لیکن آج تک یہ کسی پارٹی نے نہیں کہا ہے کہ وہ مقدمے بھی واپس لے لے جن کی سزا سات سال یا اس سے زیادہ ہے۔

وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پر جب کوئی جھوٹ کا الزام لگاتا ہے تو اچھا نہیں لگتا یہ دونوں منصب ایسے ہیں کہ ان کا نام احترام سے لیا جائے لیکن اسے کیا کہا جائے کہ سب سے زیادہ زوردار طریقہ سے وزیراعظم نریندر مودی ہی پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ممبروں کو اور وزیروں کو بے داغ دیکھنا چاہتے ہیں اور عمل یہ ہے کہ وہ جس کے اوپر شفقت کا ہاتھ رکھتے ہیں وہ داغی ہوتا ہے۔ انہیں اگر اترپردیش بی جے پی کا صدر بنانا تھا تو کیا دس مقدموں میں ماخوذ موریہ کے علاوہ کوئی دلت نہیں تھا؟ یا اگر کسی سنیاسی کو ہی وزیراعلیٰ بنانا تھا تو کیا آدتیہ ناتھ یوگی کے علاوہ ایسا کوئی نہیں تھا جس پر سنگین مقدمے نہ ہوں؟ پارٹی کے صدر امت شاہ سہراب الدین والے مقدمے سے جیسے بری ہوئے ہیں وہ سب کو معلوم ہے اور اب جسٹس لویا کی روح ان کا تعاقب کررہی ہے۔

اترپردیش کے وزیراعلیٰ ان جاٹوں کو گلے لگانے کو بیتاب ہیں جنہوں نے ہریانہ میں جاٹ ریزرویشن کے نام پر غیرجاٹ ہندوؤں کے ہزاروں کروڑ کے کاروبار کو جلاکر راکھ کردیا تھا اور اب وہ حکومت کے گلے پر گھٹنا رکھ کر کہہ رہے ہیں کہ تمام مقدمے واپس لو۔ اگر ہریانہ اور اترپردیش اس طرح دباؤ میں آتے رہے تو پھر یوگی سرکار کو انکاؤنٹر کا کیا حق ہے ؟ وزیراعظم ایک طرف اتنے قانون نواز بن رہے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان تین بار طلاق طلاق طلاق کہہ دے تو اسے بغیر ثبوت اور گواہ کے تین سال کی سزا ہوگی اور اگر بی جے پی کا ہندو ورکر قتل بھی کردے تو اس کا مقدمہ واپس لے لیا جائے گا۔ اب یہ وزیراعظم کے سوچنے کی بات ہے کہ ان کی جو تصویر بن رہی ہے کیا وہ اس پر فخر کریں گے؟ کیونکہ کہا یہ جارہا ہے کہ اگلے پارلیمانی الیکشن کے پیش نظر جاٹوں کو اپنا بنانے کے لئے مقدمات واپس لئے جارہے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔