کیا آپ ڈیٹا چوری کا مطلب سمجھتے ہیں؟

رويش کمار

مترجم: محمد اسعد فلاحی

فیس بک نے ڈیٹا لیک کیا ہے، اسے لے کر اس بھارت میں بحث ہو رہی ہے۔ جو بنا سوچے سمجھے لائن میں لگ کر آدھار کارڈ بنوا رہا ہے. جہاں لوگ نہ پرائویسی کا مطلب سمجھتے ہیں اور نہ ڈیٹا کی ڈکیتی کا کھیل. آدھار نمبر کا ڈیٹا پانچ فٹ چوڑا اور 13 فٹ اونچی دیوار کے درمیان محفوظ ہے. اسے کوئی فرق نہیں سکتا، ایسا دعوی کرنے والی حکومت کے پاس اگر سیکورٹی کے اتنے ہی مضبوط انتظام ہیں تو کیا وہ بتا سکتی ہے کہ اس نے لوگوں کی ذاتی معلومات کو چرانے کے کون سے کیس پکڑے ہیں. دنیا بھر میں گوگل، فیس بک پر ڈیٹا چوری کے کیس درج ہو رہے ہیں. مقدمے چل رہے ہیں. کیا  بھارت سرکار بتا سکتی ہے کہ اس نے گوگل، فیس بک کے خلاف ایسا ایک بھی معاملہ پکڑا ہو. کیا ہم یہ مان لیں اور کیوں مان لیں کہ بھارت میں فیس بک اور گوگل نے کوئی خرابی نہیں کی ہوگی.

یہ سوال اس لیے کیا کیونکہ بدھ کو آئی ٹی وزیر کافی جوش میں بول رہے تھے. انہوں نے کہا کہ مسٹر مارک ذوكربرگ، آپ بھارت کے آئی ٹی وزیر کی رائے کو نوٹ کر لیں، ہم بھارت میں فیس بک کا خیرمقدم کرتے ہیں، لیکن اگر فیس بک سسٹم کی ملی بھگت سے ہندوستانیوں کا ڈیٹا چوری ہوا ہے تو یہ برداشت نہیں کیا جائے گا. ہمارے آئی ٹی ایکٹ کافی سخت ہیں. ہم اس کا استعمال کر سکتے ہیں، آپ کو بھی بھارت بلا سکتے ہیں. ہمارے پاس کافی مضبوط فریم ورک ہے. لیکن آج میں اپنا انتباہ اٹلانٹک پار سدور کیلی فورنیا تک سنا دینا چاہتا ہوں.

جس تیور سے انگریزی میں کہا گیا ہے وہ تیور ترجمہ میں تو نہیں جھلکتا ہے مگر پھر بھی وزیر جی کا ‘ارے او سامبھا ٹائپ’ بیان دینے سے اچھا ہوتا کہ بتا دیتے کہ بھارت نے گوگل اور فیس بک کے خلاف کبھی کوئی مقدمہ کیا ہے، چوری پکڑی ہے جیسے يوروپيين یونین نے جون 2017 میں گوگل کے خلاف 2.4 بلین یورو کا جرمانہ عائد کیا تھا، کیونکہ گوگل غلط طریقوں سے اپنا تسلط بنا رہا تھا. نیٹ نيوٹرالٹي کے وقت حکومت ہند نے ضرور فیس بک کو راستے پر لا دیا تھا کیونکہ اس وقت فیس بک یہاں کے اخبارات میں اشتہارات دے کر حکومت کے خلاف ہی لوگوں کو اکسانے لگا تھا. اس واقعہ کو بھی ہم بھول چکے ہیں. یہ معاملہ بھی لوگوں نے پہلے اٹھایا، خوب بحث ہوئی تب جاکر حکومت اس میں آئی.

فیس بک، كیمبرج اینالٹكا سے منسلک بحث بہت سنگین ہے. احتیاط سے سمجھا جانا چاہئے. بھارت میں قانون تو ہے، لیکن کیا اسے لے کر ہماری اپنی سمجھ ہے. کل جب کوئی آدھا نمبر کے سہارے انتخابی کھیل کر جائے، اس کے بعد آپ اور ہم کس طرح سمجھیں گے کہ ان معلومات کے ذریعہ رائے عامہ کو پلٹ دیا گیا. ہم کس طرح سمجھیں گے کہ جو ہوا وہ غلط تھا، اس کے لیے ہم ہی ذمہ دار تھے، ہم نے ہی معلومات دے دی تھی اور اس کے بعد یہ ثابت کیسے ہوگا. کیا الیکشن کمیشن اس طرح کے حالات کے لیے تیار ہے. بھارت جیسے ملک میں ہر الیکشن میں کسی نہ کسی کی سیکس ویڈیو چینلز پر چلنے لگتی ہے، اس ملک میں ہمارے نیتا پرائیویسی کے ایکسپرٹ بن کر تقریر کر رہے ہیں. عوام کا اعتماد بحال کر رہے ہیں کہ آپ کا ڈیٹا یعنی آپ کی معلومات محفوظ ہے. آپ اپنے شہر کے کسی بھی سائبر سیل میں چلے جائیں. اس کی حالت دیکھ لیجئے پھر پتہ چلے گا کہ بھارت نے کیا انتظامات کیے ہیں.

پوری دنیا میں بحث چل رہی ہے کہ کہیں باہر کا ملک، کمپنیوں کے گروہ مل کر ہمارے آپ کے ڈیٹا سے الیکشن کا نتیجہ ہی نہ بدل دیں. گزشتہ سال ستمبر میں اس معاملے کو لے کر سپریم کورٹ میں بحث ہوئی تھی. اس وقت حکومت نے ستمبر 2017 میں سمارٹ فون بنانے والی 21 کمپنیوں سے پوچھا تھا کہ آپ کے موبائل فون میں ڈیٹا کتنا محفوظ ہے. وهاٹس اپ نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ وہ کسی بھی تیسری پارٹی کو اپنا ڈیٹا نہیں دے گا. اسی میں حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اس نے ڈیٹا کی حفاظت کے لئے ایک کمیٹی بنائی ہے. 23 جنوری 2018 کو سینٹر نے سپریم کورٹ کو کہا ہے کہ ریٹائر جسٹس بی این شری کرشن کی صدارت میں جو کمیٹی بنائی گئی ہے وہ بل مارچ تک تیار ہو جائے گا. یعنی بھارت ابھی کافی پیچھے ہے. دنیا کی حکومتیں پہلے ہی جگ چکی ہیں.

امریکہ میں ہوئے صدارتی انتخابات، اٹلی، فرانس اور جرمنی کے انتخابات کے دوران ہی وہاں بحث چل پڑی کہ روس ان انتخابات کو تبدیل کرنے کی طاقت رکھتا ہے. ٹیكنالوجي اور ڈیٹا کے ذریعہ وہ الیکشن کو متاثر کر رہا ہے. جھوٹ اور نفرت کی باتوں کا زور شور سے تشہیر ہوتی ہے، جس کے اثر سے نتائج بدل جاتے ہیں. خاص طور پر يوروپيين یونین کو لگا کہ روس ہر الیکشن میں مداخلت کرکے یورپی یونین کے اتحاد کو متاثر کر رہا ہے. يوروپيين یونین کو توڑ رہا ہے. خاص طور پر برطانیہ کے الگ ہونے کو بھی اعداد و شمار کے استعمال سے منسلک کیا جا رہا ہے. سوچئے بھارت میں انتخابات ہو رہے ہیں اور ہمارے ڈیٹا سے امریکہ طے کر رہا ہو کہ کون سے پارٹی کو اکثریت ملنا چاہئے تاکہ اس کی حکومت بننے کے بعد وہ من پسند طریقے سے پالیسیاں بنا سکے. کیا آپ ایسا چاہتے ہیں. يوروپيين یونین کے 28 ممالک نے اپنے یہاں ہونے والے انتخابات کو بچانے کے لئے ڈیٹا پروٹیکشن قانون بنایا ہے. آپ جانتے ہیں کہ امریکہ کی کئی ٹیكنالوجي کمپنیاں، فیس بک گوگل کے ہیڈکوارٹر آئر لینڈ میں ہیں کیونکہ آئر لینڈ میں باقی ممالک کا قانون لاگو نہیں ہوتا تھا.

 يوروپيين یونین نے قانون کے ذریعہ اس نظام کو بدل دیا ہے. اب ان کمپنیوں پر يوروپيين یونین کے برقرار قوانین نافذ ہونے تھے. جرمنی نے بھی اپنے قانون بہت سخت کئے ہیں. چند سال پہلے بیلزیم نے فیس بک کو پرائیویسی ڈیٹا قانون کے خلاف ورزی کی صورت میں عدالت میں گھسیٹ لیا تھا. برطانیہ کی پارلیمنٹ میں ایک کمیٹی بنی ہے کہ سوشل میڈیا کا انتخابات پر کیا اثر پڑ رہا ہے، وہاں معلومات کا کمشنر آفس ہے جو اس طرح کے معاملات کی جانچ پڑتال کرتا ہے.

بھارت دعوی تو کرتا ہے کہ اس کے قانون سخت ہیں مگر وہ کافی پیچھے چل رہا ہے. کسی ضلع میں کشیدگی ہو جائے تو براہ راست انٹرنیٹ بند کرنا پڑتا ہے. جن عناصر کی وجہ سے بند کرنا پڑتا ہے انہیں کبھی ان سخت قوانین کے دم پر سزا ملی ہے یا نہیں، اس کا ریکارڈ بہت خراب ہی ہوگا. گزشتہ سال ستمبر میں سپریم کورٹ میں اس پر بحث ہوئی تھی. تب وهاٹس اپ نے کہا تھا کہ وہ یوزر کا ڈیٹا کسی تیسرے کو نہیں دیتا ہے. حکومت نے سمارٹ فون بنانے والی 21 كپنيو سے پوچھا تھا کہ آپ کے یہاں ڈیٹا کتنا محفوظ ہے. ریٹائر جسٹس بی این شری کرشن کی صدارت میں ڈیٹا پروٹیکشن پر کمیٹی بنائی. اب جنوری ماہ میں حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ اس رپورٹ کے بعد مارچ تک ڈیٹا پروٹیکشن بل تیار ہو جائے گا. یعنی ابھی ہم تیار نہیں ہیں، تیاری کر رہے ہیں.

کیا آپ چاہیں گے کہ روس یا امریکہ ہمارا آپ کا ڈیٹا لے کر ایسی انتخابی مہم چلا دے جس کے جھانسے میں ہم سب آجائیں اور ہم ایسی حکومت منتخب کر لیں جو بعد میں ہماری ہی جیب کاٹنے لگے. جینا مشکل کر دے. اسی کو کہتے ہیں کہ اعداد و شمار سے الیکشن متاثر کیا جا رہا ہے. پھر بھی بہت سے لوگ نہیں سمجھتے ہیں کہ انتخابات کو کس طرح متاثر کیا جا سکتا ہے. ہم نے یہی سوال راکیش سے پوچھا جو بیلیٹ بوكس انڈیا نام کے ادارے چلاتے ہیں. نیا ادارہ ہے، ہم زیادہ نہیں جانتے.

ابھی آتے ہیں موجودہ تنازع پر. آپ جانتے ہیں کہ جب سے ٹرمپ جیتے ہیں امریکہ میں تحقیقات ہو رہی ہے کہ کیا اس انتخاب میں روس نے دخل دیا تھا، مطلب کیا روس نے اپنی طرف سے کوئی پروپیگنڈہ چلایا تھا جس کا فائدہ ٹرمپ کو ملا. مان لیں بھارت میں دس کمپنیاں کسی لیڈر کو اپنا بنٹی سمجھتی ہوں، کہ بنٹی کو جتا دیں اور بعد میں بنٹی ہماری سیٹی پر کام کرے گا. بنٹی جیت گیا، آپ کے سامنے شیر بنے گا مگر کمپنیوں کے سامنے خاموش رہے گا. اسی لیے دنیا بھر میں ریسرچ چل رہا ہے کہ کہیں اعداد و شمار کے استعمال سے جمہوریت ہی نہ ختم ہو جائے. اب یہ سمجھا ہی جا رہا ہے کہ کیا غلط ہے، کیا صحیح ہے. لیکن بھارت میں کانگریس اور بی جے پی اس طرح ایک دوسرے پر الزام لگا رہی ہیں جیسے ان دونوں نے سب کچھ سمجھ لیا ہو.

دسمبر 2016 میں امریکہ کی ڈیزائن کی پروفیسر ‘Carole Cadwalladr’ نے اپنے ریسرچ کے دوران پایا کہ امریکی انتخابات میں كیمبرج اینالٹا کا کردار ہے اور اس کا تعلق يوروپيين یونین سے برطانیہ کو علیحدہ کرنے کے مہم میں بھی ہے. کیمبرج اینالٹكا کو 5 کروڑ سے زیادہ امریکی شہریوں کا ڈیٹا ایک رسرچر سے ملا. اس رسرچر نے ایک ایپ بنایا تھا، جس سے لوگ اپنی رضامندی سے جڑے تھے. جیسے فیس بک پر بہت سے ایپ آتے ہیں، آپ اس پر کلک کر کے جڑنے لگ جاتے ہیں اور آئی ایگری کا بٹن دبا دیتے ہیں. یا تو آپ سمجھ نہیں پاتے یا لاپرواہ ہو جاتے ہیں، ادھر وہ ایپ آپ کی تمام معلومات لے کر کسی تیسری پارٹی کو بیچ دیتا ہے. وہ کمپنی اس ڈیٹا کا استعمال سیاسی ہوا کو بدلنے میں کرتی ہے یا کسی پروڈکٹ کو بیچنے میں. یہی ہوا ہے اس تنازعہ میں. اب پانچ دنوں بعد فیس بک کے مارک ذوكربرگ نے مانا کہ بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے. آگے سے نہیں ہوگی اس کے لئے اہتمام کیا جائے گا. ڈیٹا اور پرائیویسی سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے. ذوكربرگ یہ بتائیں کہ 2014 سے پہلے جن جن ایپ نے ڈیٹا چرایا ہے، اس کا وہ کیا کر رہے ہیں؟اس کی جانچ ممکن نہیں ہے، کیونکہ ایپ کی تعداد تو ہزاروں میں ہے.

ہم اور آپ فیس بک کا استعمال کرتے ہیں. ایک بھروسہ ہوتا ہے مگر اسی سے معلومات کسی اور کے پاس چلی جائے تو پھر بھروسہ ٹوٹ جاتا ہے. اور اس معلومات کا استعمال آپ کے سیاسی مفاد کو متاثر کرنے میں روس یا امریکہ میں بیٹھی کوئی کمپنی کر لے تو سیدھا مطلب یہ ہوا کہ جمہوریت ٹیكنالوجي کی وجہ کبھی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے. آپ دیکھئے کہ کئی مقامات پر ایسا ہو رہا ہے. ایک بار جو اقتدار میں آ رہا ہے، وہ ہار ہی نہیں رہا ہے. روس کے صدر پوتن کو دیکھئے، چین کے صدر تو زندگی بھر ہی کے لیے تخت پر بیٹھ گئے ہیں. بھارت میں کوئی اس طرح کا خواب نہ دیکھے لہذا عوام کو اس موضوع کو لے کر محتاط ہو جانا چاہئے. یہ مسئلہ فیس بک کا ہے مگر آپ کو سوچنا چاہیے کہ کہیں آدھار نمبر کی وجہ سے یہ خطرہ قریب تو نہیں ہے. امریکہ، اٹلی، فرانس اور جرمنی میں آدھا نمبر نہیں ہے، بھارت میں آدھا نمبر ہے. کہیں ایسا نہ ہو کہ سبسڈی بچانے کے نام پر جمہوریت ہی ہاتھ سے چلا جائے. برطانیہ میں معاملہ اٹھا تو وہاں کا الیکشن کمیشن فوری طور پر انکوائری کرنے لگا، بھارت میں کانگریس بی جے پی پر الزام لگا رہی ہے، کھلے عام کہہ رہی ہے کہ آپ نے ایسا کیا تو آپ نے ایسا کیا. مگر الیکشن کمیشن کا پتہ نہیں. کیا پتہ اس کے دائرہ اختیار میں ہی یہ نہ آتا ہو.

بھارت میں جب بھی ای وی ایم کے ہیک کئے جانے کا سوال اٹھتا ہے تو ہم مذاق اڑاتے ہیں. سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ الیکشن کمیشن پر شک کس طرح کر سکتے ہیں. ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ اسی الیکشن کمیشن کے رہتے دہائیوں تک بوتھ لوٹے جاتے رہے ہیں. کمیشن نے نہیں، ایک شخص نے کمیشن کو بھروسے کے قابل بنایا تھا. کیا آپ کو یہ لگتا ہے کہ امریکہ، فرانس، اٹلی، جرمنی کے الیکشن کمیشن میں لوگوں کا اعتماد ہی نہیں ہیں. پھر بھی وہاں بحث ہو رہی ہے کہ ٹیكنالوجي سے کہیں رذلٹ یا الیکشن کے عمل کو متاثر تو نہیں کیا جا رہا ہے. جرمنی میں عام انتخابات کے پہلے وہاں خوب بحث ہوئی. وہاں کے فیڈرل آفس فار دی پروٹیکشن آف دی كانسٹی ٹيوشن کے سربراہ نے کہا تھا کہ انتخابات کو ہیک کرنا، باہر سے متاثر کرنا بالکل ممکن ہے. ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا جس میں کہا گیا کہ جرمنی میں ایک كاٹگ سافٹ ویئر ہے جسے PC-Wahl کہتے ہیں، اسے ہیک کیا جا سکتا ہے. اس ڈیٹا کو چھیڑ کر رذلٹ تبدیل کیا جا سکتا ہے. ان ممالک میں ایسے سوالوں کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے، ہمارے یہاں ایسے سارے سوال کا یہی جواب ہے کہ ہم الیکشن کمیشن پر شک کس طرح کر سکتے ہیں. یہی پوچھ لیجئے کہ الیکشن کمیشن کے پاس ایسے امکان کو روکنے کے لئے نظام ہی کیا ہے. بیلیٹ بوكس انڈیا کے راکیش نے حال ہی میں ایک طویل خط لکھ کر ان خطرات کی تئیں آگاہ کیا تھا مگر وہی جواب ملا، بلکہ اب تو جواب نہ ملنا ہی جواب سمجھا جانے لگا ہے.

یہ پیچیدہ مسئلہ ہے مگر سمجھنا آسان ہے. کیا ہوگا کہ آپ رضامندی سے اپنی معلومات کسی ایپ کو دے دیں، اور وہ اس کا استعمال کسی اور کام کے لیے کر لے. جیسا کہ کیمبرج اینالٹكا کے معاملے میں ہوا. لوگوں نے خود ہی کیمبرج یونیورسٹی کے رسرچن كوگن کو معلومات دی. اس نے ضرور کیمبرج اینالٹكا بیچ دی. اتنی جلدی سے کانگریس بی جے پی کے اس کھیل میں مت پڑیے. محنت سے حاصل ہوئی جمہوریت کی فکر کیجیے. بھارت میں ہر پارٹی ابھی ڈیٹا کا استعمال کر رہی ہے. اسی لیے ہر الیکشن میں آپ دیکھیں گے کہ جھوٹ کا غلبہ ہو گیا ہے. ہر جھوٹ دوسرے جھوٹ سے بڑا ہوتا ہے. بھارت میں کیمبرج اینیلٹكا کمپنی کے فارمولے ابھی جے ڈی یو کے لیڈر کے سی تیاگی کے بیٹے امریش سولٹیئر سے جڑ رہے ہیں. کیمبرج اینیلٹكا کمپنی کے بانی الیگزینڈر نکس نے ہندوستان میں سٹریٹجك كميونكیشن لیبارٹری بنائی۔ نكس دو لوگو کے ساتھ مل کر دیکھ رہے تھے جن میں سے ایک ہیں اونیش رائے اور دوسرے ہیں امریش تیاگی، سی تیاگی کی لڑکے. اونیش رائے نے سری نواسن جین سے بات کی اور تفصیل سے بتایا کہ کس طرح نکس کی دلچسپی بھارت کے انتخابات میں تھی. آغاز میں نکس نے کہا تھا کہ وہ کانگریس کے لئے ڈیٹا کلیکشن کی بات کرنے آئے ہیں مگر بعد میں پتا چلا کہ وہ کانگریس کو شکست دینے کے لئے کام کر رہے تھے.

اونیش یہ بھی بتا رہے ہیں کہ کیسے ایپ بنا کر کس طرح ڈیٹا اکٹھا کیا اور اس ڈیٹا کا ہوسٹ کون ہوگا اس پر تنازعہ ہوا. اونیش اب اس معاملے میں وهسل وہلوور  بن گئے ہے. آپ ان کا انٹرویو سنیے، ہوش اڑ جائیں گے. نکس کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب صرف دھندہ کرنے سے ہے وہ پیسہ کمانے آیا تھا.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔