لوک سبھا چناؤ: اس بار ووٹر کا امتحان ہوگا

شہاب مرزا

لوک سبھا انتخابات قریب ہے اور بہت جلد آپ کے اردگرد نیتاؤں کا ڈیرا ہو گا وہ آپ لوگوں کے ساتھ بیٹھیں گے گھل مل جائیں گے آپ کے ساتھ کھانا کھائیں گے پھر صحن میں بیٹھ کر چائے کی فرمائش کریں گے سیاسی حالات پر گفتگو ہو گی مسائل  کے حل کا بھروسہ ملے گا ساتھ ہی ساتھ کچھ نئے وعدے بھی جوڑ دیے جائیں گے خود کو عام آدمی اور مخلص انسان ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش ہو گی عوام کی پریشانی کو خود کی پریشانی سمجھا جائیے گا پھر دعا کی درخواست کے ساتھ رخصتی ہوگی۔

عوام کو ان لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جو پانچ سال قبل الیکشن کے وقت آئے تھے پھر الیکشن جیتنے کے  بعد آپ انہیں دیکھنے کے لئے ترس گئے تھے۔ اب انتخابات میں آپ کی ضرورت تھی تو آپ کی یاد ستا رہی تھی اس لئے آپ کے در پر تشریف فرما ہے۔

دوسری اہم بات اخبارات میں خبر چھپوائی  جائیگی جس میں لکھا ہو گا فلاں صاحب مسائل کے حل کے لئے وزیر اعلی سے ملاقات کریں گے اگلے دن گرتے پڑتے وزیراعلی کے ساتھ ایک تصویر شائع ہوگی۔ پھر کامیاب نمائندگی کے دعوے کئے جائیں گے پھر بھی مسئلہ حل نہ ہوتو تو ایک دھرنے یا بھوک ہڑتال کا اعلان کیا جائے گا۔

سوشل میڈیا پر نیئ نیئ تصاویر اپ لوڈ کی جائیں گی اور کیپشن میں لکھا جائیگا نیئ سوچ ،نیا انقلاب ، یا پھر تبدیلی کا دوسرا نام فلاں فلاں صاحب۔لیکن بدقسمتی سے ہماری عوام ان لوگوں کی چالوں سے واقف نہیں ہے کیونکہ سیاست کا دوسرا نام منافقت ہے جہاں عوامی خدمت کے نام پر کروڑوں کا بینک بیلنس بنایا جاتا ہے لاکھوں انویسٹ کرکے کروڑوں روپیہ کمانے کا واحد ذریعہ سیاست بن گئی ہے۔ ترقیاتی فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے بطور کمیشن وصول کیے جاتے ہیں۔ ان لوگوں کا چال چلن دیکھئے انتخابات تک رحمدل ہمدرد اور ملنسار اور انتخابات جیتنے کے بعد ان کے پیر زمین پر نہیں ٹکتے !

یہاں سے وہاں جانے کے لیے ہوائی سفر انکا معمول بن جاتا ہے عوامی مسائل سے ان کا کوئی سروکار نہیں رہتا کبھی کبھی تو ان کے پروٹوکول کے چکر میں کسی مریض کی جان بھی چلی جاتی ہے خواب تو خواب ہوتے ہیں جو دکھایا جائے وہ انسانی نفسیات میں بیٹھ جاتے ہیں

یہاں بہترین اسٹیڈیم’ وہاں عالیشان شادی خانہ بہت بڑے صنعتی شعبے کا قیام جس میں ہربیروزگارنوجوان

 کو روزگار کا موقع ‘ ریاست کی سب سے بڑی یونیورسٹی کی تعمیر ‘غرباء کو ذاتی مکانات کی تقسیم اور بھی کئی سنہرے خواب دکھائے جاتے ہیں جس کے آس میں بھولی بھائی عوام چار سالوں تک انتظار کرتی رہتی ہے اور اگلے انتخابات میں نئے وعدے نئے خواب جن کی تکمیل بھی شاید کبھی ہو جاتی پر!

ان حالات کو مدنظر رکھ کر معروف شاعر راحت اندوری نے کیا خوب کہا تھا

آج جو صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے

 کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے

اب عوام کو ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ انتخابات قریب ہے اور وعدے وفاؤں کا موسم آنے والاہے بڑے بڑے جلسے ہونگے لاکھوں کے اسٹیج سجائے جائیں گے نوجوانوں کو پیسوں دیکر  پروگرام کامیاب کریں گے بڑے بڑے وعدے اور جھوٹے منصوبوں کا پل باندھ لیں گے پھر چار سالوں تک عوام کو صورت تک نہیں دکھائیں گےان لوگوں کی باتوں پر انکھ بند کرکے یقین کرنا بند کرے اگر یقین کریں گے تو اگلے پانچ سالوں تک دربدر کی ٹھوکریں آپ کا مقدر بن جائیں گے۔

لیڈران عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں ہتھیلی میں جنت  دکھاتے ہیں لیکن بدلتے وقت کے ساتھ راے دہنگان میں اتنا شعور تو آ گیا ہے کہ وہ اچھے  برے اور نا اہل میں تمیز کرنے لگے ہیںوہ دن ہوا ہوئے جب مندر مسجد اور فرقہ واریت کی بنیاد پر ووٹ مانگے جاتے تھے اور ووٹ دیے بھی جاتے تھے ووٹر امیدوار کی کارکردگی کردار اور صلاحیتوں کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے تاہم ایسا ہی ہو یہ ضروری نہیں ہے سیاست کے بازیگر اپنے ترکش سے کونسا تیر نکال لے اور پورا ماحول بدل دے اس تعلق سے کچھ کہا نہیں جاسکتا اس لیے عوام کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے بقا کے لئے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔

ووٹ دینا ہمارا جمہوری حق ہے ووٹ ضرور دیں لیکن یہ ذہین نشین کریں ووٹ کسی کے حق میں شہادت دینے کے باربر ہے مفت کھانے اور چند پیسوں کے بدلے ووٹ کا استعمال نہ کریں بلکہ ضمیر کی آواز سُنیں پچھلے انتخابات کے وعدے ، وعدوں کی تکمیل کو مدنظر رکھیں اپنے ضمیر سے سوال کریں ضمیر کی آواز بھی سنیں  صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنا آپ کے اختیار میں ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔