اک اور اپنے ساتھ کا بیمار مرگیا

حفیظ نعمانی

پیکر عزم و حوصلہ اور نمونۂ جدوجہد خواجہ سید محمد یونس بھی ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ انّا للّٰہ واِنّا اِلَیہِ راجِعُون۔ مرحوم کے ساتھ ہر وقت رہنے والے ڈاکٹر طارق اور فرزندان خواجہ سے معلوم ہوتا رہتا تھا کہ صحت رفتہ رفتہ جواب دے رہی ہے۔ اپنے پیوند لگے دل اور ٹوٹی ہوئی ٹانگ کی معذوری تھی کہ ہر دن مزاج پرسی کیلئے حاضری تو کیا ہوتی۔ بس نام کے لئے جانا رہ گیا تھا۔

ایک سال پہلے انہوں نے اپنی سوانح میں جو سنہ پیدائش لکھا تھا اس کے اعتبار سے وہ مجھ سے دو سال چھوٹے تھے۔ اگر پروردگار کے کارخانے میں آنے جانے کا قانونی حساب کا طریقہ ہوتا تو وہ میری نماز جنازہ دو سال پہلے پڑھ چکے ہوتے۔ لیکن پروردگار کے کارخانہ میں حساب کا کیا طریقہ ہے اس کا علم صرف ان کو ہی ہے۔

خواجہ صاحب کو اس وقت بھی دیکھا تھا جب وہ دینی تعلیمی کاؤنسل میں ملازمت کررہے تھے اور پھر اس وقت بھی دیکھا جب انہوں نے اپنے بل بوتے پر اپنے پاؤں جمانا شروع کئے اور پھر مسلسل دیکھتا رہا کہ وہ نہ چل رہے ہیں نہ دوڑ رہے ہیں بلکہ اُڑ رہے ہیں۔ ملک تو بہت بڑا ہے اپنے صوبہ اور اپنے شہر میں بھی ایسے نمونے دیکھے جو پہلے کم تھے اور پھر بہت کچھ ہوگئے اور پھر کچھ نہ رہے جیسے حاجی فقیر محمد مرحوم، احمد حسین دلدار حسین، اصغر علی محمد علی، حاجی شمس الدین قمرالدین اور برسوں لکھنؤ پر برسوں کالی گھٹا کی طرح برسنے والے مقبول احمد لاری اور خاندان غلام حسنین ان کے علاوہ اور نام بھی ہیں لیکن خواجہ یونس کی پرواز میں کوئی کمی نہیں آئی اور انہوں نے اپنے چاروں بیٹوں کو وہاں پہونچا دیا جہاں آج راجہ مہاراجہ بھی نہیں ہیں۔ وہ جب پہلی بار ملے تھے تو اُردو کی واجبی تعلیم کا سرمایہ ان کے پاس تھا اور اب رخصت ہوئے ہیں تو ایسی کوئی ڈگری نہیں ہے جسے انہوں نے حاصل نہ کرلیا ہو انتہا یہ ہے کہ وہ ایل ایل بی بھی تھے۔ اور انہوں نے قوم کے بچوں کو ہی نہیں اپنے چاروں بیٹوں کو علم کے زیور و زرپوش بنا دیا۔

لکھنؤمیں ان کی ہی عمر کے صرف جگدیش گاندھی ہیں جنہوں نے تعلیم کو موضوع بنایا۔ ان کو بھی ہم نے لکھنؤ یونیورسٹی میں دیکھا تھا جب وہ ایم اے کررہے تھے۔ ان کا پس منظر کیا تھا یہ معلوم نہیں۔ انہوں نے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا اور اسی کے کلی پھندنے سجاتے رہے ان کے برعکس خواجہ یونس نے تعلیم کا کوئی شعبہ نہیں چھوڑا جہاں اپنا سکہ نہ چلایا ہو وہ عام تعلیم کے ساتھ بی ٹی سی اور بی ایڈ بھی بنا رہے ہیں اور ڈاکٹر بھی وہ طالبات کو دینی تعلیم بھی دے رہے ہیں اور مدرسہ سید احمد شہیدؒ میں درس نظامی بھی اور یوپی حکومت کے مدرسہ عربی فارسی بورڈ کے مدارس بھی۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جتنے کاموں کا ایک آدمی نقشہ بھی بنانا چاہے تو اسے برسوں لگ جائیں انہوں نے وہ سار ے کام جوانی سے شروع کئے اور بڑھاپے کے آتے آتے پورے کردیئے۔

خواجہ یونس کا انتقال ایک شخص کا نہیں ایک کلب کا انتقال ہے۔ وہ ان تمام تعلیمی مصروفیات کے ہوتے اپنے کلب میں ماہانہ شعری نشستیں یا سالانہ آم غالب اور بیسنی روٹی ہی نہیں نہ جانے کس کس عنوان سے سب کو جمع کرلیتے تھے اور اب شہر میں کوئی نہیں تھا جو میری طرح مجبور وہ شریک نہ ہو۔ ان کی علمی تقریبات میں مولانا سید محمد رابع حسنی کو بھی دیکھا اور مولانا سید کلب صادق کو بھی وزیر بھی ان کے بلانے پر آئے اور سفیر بھی پروفیسر بھی آئے اور حقیر بھی۔

ہم ہوں یا آپ، ہر انسان کی جیسی ابتدائی عمر میں اٹھان ہوتی ہے وہ اس لائن پر بڑھتا چلا جاتا ہے خواجہ محمد یونس نے اپنے بقول بندر بھگانے اور کھیتوں سے کوّ ے اُڑانے اور اپنے بھاری مالک کو سائیکل کے کیرئیر پر بٹھاکر ہر ہفتہ کئی میل لانا اور لے جانا جیسی مشقت بھری خدمت کی اور اس زمانہ میں جب نہانے کا صرف ایک صابن لائف بوائے اور کپڑے دھونے کا معیاری صابن سن لائٹ ہوتا تھا ایک کارخانہ اس کی نقل بناتا تھا اور اسے اندھیری رات میں یحییٰ گنج پہونچاتا خواجہ صاحب کے سپرد ہوتا تھا وہ خدمت بھی انجام دی۔ ان تمام باتوں کا تقاضہ تو یہ تھا کہ وہ غلط راستے پر چل پڑتے لیکن یہ انہوں نے غلط قدم اٹھانے کے بجائے انجمن تعلیمات دین اور دینی تعلیمی کونسل میں جو دیکھا تھا اس راستہ کو اپناکر ثابت کردیا کہ ان سے جو غلط کام ہوئے وہ ان کی مجبوری تھی ورنہ ان کا خون اور ان کی نسبت کا تقاضہ وہ تھا جو انہوں نے کیا اور میں خود گواہ ہوں کہ جیسی محنت کرتے ہوئے میں نے ان کو دیکھا ہے اتنی محنت کرتے کسی اور کو نہیں دیکھا۔

خواجہ یونس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ان کی کوئی منزل نہیں تھی انہوں نے جتنے ادارے اور جتنے قسم کے ادارے قائم کئے اور صرف لکھنؤ میں نہیں بارہ بنکی، میلا رائے گنج اور جہانگیر آباد تک ہی وہ نہ رُکتے اگر صحت ساتھ دیتی تو قریب کے ہر ضلع میں ارم کا پرچم لہرا رہا ہوتا۔ انہیں نے ایک سفرنامہ میں لکھا ہے کہ خانۂ کعبہ کا پردہ پکڑکر رو روکر اپنے مولا سے اولاد کی دعا مانگی یہ اسی دعا کا اثر ہے کہ جو اسکول اور جتنے اسکول جس بیٹے کے کنٹرول میں ہیں وہ سب نیک نام ہیں اور جہاں ذکر آتا ہے لوگ تعریف کرتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ جس آدمی کی ابتدا وہ ہو کہ شرفاء کی محفل میں جاتے اسے شرم آئے وہ صرف اپنے دست بازو سے اس مقام پر آجائے جہاں عمائدین شہر فخر کے ساتھ اپنے تعلق کا اس سے اظہار کریں اور ان کا حال یہ کہ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد ان کی نظر میں جس کا جو مقام تھا اس میں تبدیلی نہیں آئی۔ ایک گواہ میں ہوں جس سے جو تعلق 1960 ء میں تھا آخر تک وہی رہا اب ذمہ داری اولاد کی ہے کہ جو دنیا صرف دو ہاتھوں نے بنائی ہے اسے آٹھ ہاتھ کتنا سنبھالتے اور کتنا بڑھاتے ہیں۔ خواجہ یونس کو پروردگار نے صرف ہاتھ نہیں دماغ بھی مثالی دیا تھا۔ ان کی بسائی ہوئی علم کی اس دنیا میں دماغ کا بھی بہت دخل ہے بچوں کو اس پر سوچنا چاہئے۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا 

تبصرے بند ہیں۔