ساحر لدھیانوی: فن اور شخصیت 

محمد عباس دھالیوال

(مالیر کوٹلہ، پنجاب)

مذکورہ مصرع ہندوستان کے معروف نغمہ نگار و شاعر ساحر لدھیانوی کی نظم اے شریف انسانوں میں سے لیا گیا ہے یہ نظم ساحر آج سے قریب پچاس سال قبل ہندوستان و پاکستان کے مابین کشیدگی بھرے حالات کے پیش نظر جنگ کی تباہ کاریوں کے ضمن میں لکھی تھی اور پڑوسی ممالک کے ساتھ ساتھ اس زمیں پر آباد تمام دیشوں کو دنیا میں امن و امان کے ساتھ رہنے کی پر زور اپیل کی تھی. یہ نظم اپنی اپنی اہمیت و افادیت کے اعتبار سے آج بھی مقام و مرتبہ رکھتی ہے جتنی کہ اس دور میں… یقیناً اس نظم نما امن کی اپیل کو جنگ کے لیے آمادہ شریف انسانوں تک پہنچانے کی آج بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ اس وقت تھی. مذکورہ نظم کو آپ قارئین بھی یہاں ملاحظہ فرمائیں.

خون اپنا ہو یا پرایا ہو

نسل آدم کا خون ہے آخر

جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں

امن عالم کا خون ہے آخر

بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر

روح تعمیر زخم کھاتی ہے

کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے

زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

ٹینک آگے بڑھیں کہ پچھے ہٹیں

کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے

فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ

زندگی میتوں پہ روتی ہے

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

آگ اور خون آج بخشے گی

بھوک اور احتیاج کل دے گی

اس لئے اے شریف انسانو

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں

شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

برتری کے ثبوت کی خاطر

خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے

گھر کی تاریکیاں مٹانے کو

گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے

جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں

صرف میدان کشت و خوں ہی نہیں

حاصل زندگی خرد بھی ہے

حاصل زندگی جنوں ہی نہیں

آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں

فکر کی روشنی کو عام کریں

امن کو جن سے تقویت پہنچے

ایسی جنگوں کا اہتمام کریں

جنگ وحشت سے بربریت سے

امن تہذیب و ارتقا کے لئے

جنگ مرگ آفریں سیاست سے

امن انسان کی بقا کے لیے

جنگ افلاس اور غلامی سے

امن بہتر نظام کی خاطر

جنگ بھٹکی ہوئی قیادت سے

امن بے بس عوام کی خاطر

جنگ سرمائے کے تسلط سے

امن جمہور کی خوشی کے لیے

جنگ جنگوں کے فلسفے کے خلاف

 ویسے بولی وڈ میں جب کبھی بھی معروف نغمہ نگاروں کی بات چلتی ہے تو ساحر لدھیانوی شکیل بدایونی، جانثار اختر مجروح سلطان پوری وغیرہ کے نام سر فہرست نظر آتے ہیں مذکورہ سبھی شعراء میں سے نے فلم انڈسٹری میں اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے اپنی شہرت و مقبولیت کے جھنڈے نصب کیے ہیں اس شاعر کا نام ساحر لدھیانوی ہے ہمارے خیال میں ساحر کے قد کے سامنے ان کے ہم پیشہ و ہم عصر دوسرے فلمی نغمہ نگار ایک طرح سے بڑی حد تک پست و بونے نظر آتے ہیں.

جو اوصاف و خوبیاں ساحر کو اپنے ہم عصر شعراء سے ممتاز کرتی ہیں وہ انکا شدت درد سے لبریز کلام اور انکے خیالات کی ندرت ہے آپ نے عورت ذات کی ہمیشہ عزت کی اور اسکے دکھ درد اور اس مرد پردھان سماج میں جس طرح سے عورت ذات پر صدیوں سے ظلم و تشدد ڈھائے جانے کا سلسلہ جاری ہے اور جس طرح سے اس کا استحصال کیا جاتا رہا ہے ایسے سبھی موضوعات کو ساحر نے اپنی شاعری میں جگہ دیکر خواتین کے کی دلی جذبات و کیفیات کو جس طرح سے انھوں نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے اس سے قبل اس کی مثال شاید ہی دیکھنے کو ملے. کیونکہ اس قبل اردو کے مختلف بڑے شعراء کا کلام عورت ذات کی جسمانی بناوٹ کی تعریف یا اس کی زلف کے پیچ و خم کو سنوارنے پہ صرف ہوتا ہوا نظر آتا ہے. دراصل ساحر کی شاعری اپنے عہد کی حقیقی شکل میں عکاسی کرتی ہوئی نظر آتی ہے ساحر نے زندگی میں اپنی آنکھوں سے جن سماجی حالات و واقعات کا مشاہدہ و سامنا کیا اور جو سبق زندگی نما کتاب سے آپ نے سیکھے. ا نھیں کو اپنی شاعری کی زبان میں قلم بند کرتے ہوئے ہمارے سامنے لا کھڑا کیا. اس کا اظہار وہ ایک جگہ خود ہی کچھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں 

جو کچھ مجھے دیا وہ لوٹا رہا ہوں میں 

 ہندی فلموں کے اس معروف نغمہ نگار اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ شاعر ساحر لدھیانوی کی پیدائش 8 مارچ 1921ء کو ہندوستانی پنجاب کے شہر لدھیانہ میں ہوئی ۔ ساحر نے اپنی ابتدائی تعلیم یہیں خالصہ اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ لیا۔ کالج کے زمانے سے ہی انہوں نے شاعری کا آغاز کیا اور اسی درمیان امرتا پریتم کے عشق میں گرفتار ہونے کے چلتے کالج سے نکالے گئے اور لاہور چلے گئے۔ 1947 میں جب ملک دو دیشوں ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم ہو گیا تو ترقی پسند نظریات کے چلتے ساحر کے نام 1949ء میں وارنٹ جاری کیے گئے جس کے بعد ساحر واپس ہندوستان سیدھے ممبئی چلے آئے ۔ ساحر کا قول بڑا مشہور ہے کہ "بمبئی کو میری ضرورت ہے”۔

اس کی سب سے بڑی وجہ شاید یہ تھی کہ اس دور میں ساحر اور دوسرے ترقی پسند شعرا نے بھلی بھانت محسوس کر لیا تھا کہ فلم ایک ایسا مادھیم ہے کہ جس کے ذریعے اپنی بات عوام تک قوی شکل میں شدت کے ساتھ بآسانی پہنچا سکتا ہے سکتے تھے.

اس طرح ہم محسوس کرتے ہیں کہ ساحر جس مشن کے تحت بمبئی آئے تھے اس میں انھیں کافی حد تک کامیابی ملی اور 1949ء میں بے شک ان کی پہلی فلم "آزادی کی راہ پر” قابلِ اعتنانہ ٹھہری، لیکن موسیقار ایس ڈی برمن کے ساتھ 1950ء میں فلم "نوجوان” میں ان کے لکھے ہوئے نغموں نے خوب مقبولیت حاصل کی.

فلم نوجوان کے بعد ایس ڈی برمن اور ساحر کی شراکت پکی ہو گئی اور اس جوڑی نے یکے بعد دیگرے کئی فلموں جیسے کہ "بازی”، "جال”،”ٹیکسی ڈرائیور”، "ہاؤس نمبر 44″،”منیم جی” اور "پیاسا” وغیرہ میں اکٹھے کام کیا ۔ جبکہ ساحر کی دوسری سب سے تخلیقی شراکت روشن کے ساتھ تھی. چنانچہ اس جوڑی نے "چترلیکھا”، "بہو بیگم”، "دل ہی تو ہے”، "برسات کی رات”، "تاج محل”، "بابر”اور "بھیگی رات” جیسی بے مثال فلموں میں اپنی تخلیقی قوتوں کے جوہر دکھا تے ہوئے اور خوب نام کمایا. ساحر نے جن دیگر موسیقاروں کے ساتھ کام کیا ان میں او پی نیر، این دتا، خیام، روی، مدن موہن، جے دیو اور کئی دوسروں کے نام شامل ہیں ۔

ساحر کے علاوہ کئی اچھے شعراء نے فلمی دنیا میں اپنے فن کا جادو جگایا، لیکن جو شہرت و بلندی کے حصے میں آئی وہ کسی دوسرے نغمہ نگار کو نصیب نہ ہوئی.

اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ ساحر فلمی دنیا میں اپنی آئیڈیالوجی و افکار ساتھ لے کر آئے اس کے علاوہ دوسرے ترقی پسندنغمہ نگاروں کے مقابلے میں ساحر کو اپنی آئیڈیالوجی کو عوام تک پہنچانے کے مواقع بہت زیادہ ملے، جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ساحر نے اپنے دور میں جن فلم سازوں کے ساتھ کام کیا وہ خود ترقی پسندانہ خیالات کے بڑے حامی تھے۔ اس سلسلے میں گرودت، بی آر چوپڑا اور یش راج چوپڑا کی مثالیں آج بھی روزروشن کی طرح ہمارے سامنے موجود ہیں.

ساحر کی زندگی جن حالات میں گزری اور لوگوں کو انکی ذاتی زندگی میں کس قدر دلچسپی تھی. اس کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ ساحر نے اپنے عروج کے زمانے میں دو ایسی مشہور فلموں کے گانے لکھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی کہانی ساحر کی اپنی زندگی سے کسی قدر ماخوذ تھی۔ ان فلموں میں گرودت کی پیاسا اور یش راج کی کبھی کبھی شامل ہیں یقیناً ہم سبھی جانتے ہیں کہ یہ دونوں فلمیں اپنے وقت کی بڑی ہٹ فلمیں ثابت ہوئیں ۔ پیاسا فلم کے نغموں میں جو صدا بہار پن کا پہلو پوشیدہ ہے وہ آج بھی کسی ڈھکا چھپا نہیں ہے آج بھی اس فلم کے نغموں کے بول ہمارے کانوں میں ایک الگ طرح کا رس گھولتے محسوس ہوتے ہیں.آپ بھی دیکھیں…

یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا

یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

اور یہ گانا

جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا

اسی طرح فلم کبھی کبھی کے ٹائٹل سونگ "کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے” شاید آج تک کوئی نہیں بھولا ہوگا. ساتھ ہی اس فلم کے دوسرے گیتوں "میں پل کا شاعر ہوں” جیسے گیت ایسا لگتا ہے کہ ساحر کو رہتی دنیا تک کے لیے زندہ جاوید کر گئے ہیں ۔ یوں تو ساحر کے مقبول ترین گیت سینکڑوں کی تعداد میں ہیں جیسے کہ "ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی”، "نیلے گگن کے تلے”، "چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو”، "میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی”، "میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں” اور "دامن میں داغ لگا بیٹھے”، وغیرہ اور "ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں”،”میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا”، "رات بھی ہے کچھ بھیگی بھیگی "آپ آئے تو خیالِ دلِ ناشاد آیا، بابل کی دعائیں لیتی جا، جا تجھ کو خوشی سنسار ملے، بچے من کے سچے، بستی بستی پربت پربت گاتا جائے بنجارہ، تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرے،جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کو پیار سے پیار ملا، جب بھی جی چاہے نئی دنیا بسا لیتے ہیں لوگ، جو بات تجھ میں ہے تیری تصویر میں نہیں، رنگ اور نور کی بارات کسے پیش کروں، زندگی بھر نہیں بھولے گی یہ برسات کی رات، ساتھی ہاتھ بڑھا نا، غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم، مطلب نکل گیا تو پہچانتے نہیں، میں جاگوں ساری رین سجن تم سو جاؤ، میں ہر اک پل کا شاعر ہوں، کو ن آیا کہ نگاہوں میں چمک جاگ اٹھی، کیا ملیے ایسے لوگوں سے، یہ دیش ہے ویرانوں کا جیسے سدا بہار گیتوں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے.

فلموں کے علاوہ ان کی غزلیں اور نظمیں آج بھی اہل ادب میں جس شوق و جنون کی سی کیفیت سے پڑھی جاتی ہیں اس میں یقیناً ساحر اپنی مثال آپ ہیں. آپ زندگی کے تقریباً ہر موضوع کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے جیسے کہ

عشق و محبت کے موضوع پر ان کے کچھ مختلف رنگوں والے اشعار ملاحظہ فرمائیں کہ

محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے 

زمانے اب تو خوش ہو زہر یہ بھی پی لیا میں نے

اپنی تباہیوں کا مجھے کوئی غم نہیں 

تم نے کسی کے ساتھ محبت نبھا تو دی 

ابھی زندہ ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں خلوت میں 

کہ اب تک کس تمنا کے سہارے جی لیا میں نے

پھر کھو نہ جائیں ہم کہیں دنیا کی بھیڑ میں 

ملتی ہے پاس آنے کی مہلت کبھی کبھی

پھر نہ کیجے مری گستاخ نگاہی کا گلا 

دیکھیے آپ نے پھر پیار سے دیکھا مجھ کو

تجھ کو خبر نہیں مگر اک سادہ لوح کو 

برباد کر دیا ترے دو دن کے پیار نے

جذبات بھی ہندو ہوتے ہیں چاہت بھی مسلماں ہوتی ہے 

دنیا کا اشارہ تھا لیکن سمجھا نہ اشارہ دل ہی تو ہے

اسی طرح عورت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر انھوں نے الگ الگ نظمیں اور شاعری کی ہے آپ بھی یہاں ایک شعر دیکھیں کہ

عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا 

جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا

زندگی و حیات کے فلسفے کو ساحر کس طرح سے دیکھتے ہیں ان کے چند مختلف اشعار آپ یہاں دیکھیں کہ

لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے 

کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم

مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کر سکے 

کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم 

اس رینگتی حیات کا کب تک اٹھائیں بار 

بیمار اب الجھنے لگے ہیں طبیب سے 

گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے 

پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم 

اس طرح زندگی نے دیا ہے ہمارا ساتھ 

جیسے کوئی نباہ رہا ہو رقیب سے

ساحر کی تمام زندگی ایک طرح سے زندگی کی تلخیوں و اداسیوں سے لبریز تھی جس کی جھلک ان کے کلام میں جا بجا دیکھی جا سکتی ہے آپ بھی دیکھیں کہ

چند کلیاں نشاط کی چن کر مدتوں محوِ یاس رہتا ہوں 

تیرا ملنا خوشی کی بات سہی تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا 

بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا

بس اب تو دامن دل چھوڑ دو بیکار امیدو 

بہت دکھ سہہ لیے میں نے بہت دن جی لیا میں نے

ابھی نہ چھیڑ محبت کے گیت اے مطرب 

ابھی حیات کا ماحول خوش گوار نہیں

دنیا کے ضمن ساحر کے خیالات و افکار بھی دیکھیں کہ 

دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے 

چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے

نالاں ہوں میں بیداریٔ احساس کے ہاتھوں 

دنیا مرے افکار کی دنیا نہیں ہوتی

جس محبت کے افسانہ کو صحیح انجام یا اس کی تکمیل تک لانا ممکن نہ ہو تو اس کیا خوبصورت ترغیب دیتے ہیں آپ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ

وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن 

اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

تاج محل جسے محبت کی لاثانی یادگار قرار دیا جاتا ہے لیکن ساحر کو اس محبت کی یادگار میں سطوتِ شاہی کے نشاں ثبت نظر آتے ہیں . یہی وجہ ہے کہ وہ اس میں اپنے محبوب سے ملاقات کرنے سے گریز کرتے ہیں اور اپنے محبوب کو کس دوسری جگہ ملنے کی تلقین کرتے ہیں.

بے شک تاج محل پر اس سے پہلے بھی کئی شعراء نے نظمیں لکھیں. لیکن جو مقبولیت و شہرت ساحر کے حصے میں آئی ہے وہ کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہیں ہوئی. جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ نظم تاج محل میں شاعر کا محبوب ان کو تاج محل میں ملنے کا متمنی و خواہش مند ہے لیکن اس کے بر عکس شاعر اپنے محبوب کی اس سوچ سے متفق نہیں ہے اور وہ اس ضمن میں اپنے محبوب سے کچھ اس انداز میں مخاطب ہے کہ

تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی 

تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی 

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے 

بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی 

ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں 

اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی 

میری محبوب پس پردہ تشہیر وفا 

تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا 

مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی 

اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا 

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے 

کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے 

لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں 

کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے 

یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار 

مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں 

سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور 

جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں 

میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہوگی 

جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل

ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود 

آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل 

یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل 

یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق 

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر 

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق 

ساحر لدھیانوی کو ان کی ادبی و فلمی خدمات کے اعتراف میں کئی بڑے ایوارڈ و اعزازات سے نوازا گیا. اس ضمن میں ساحر کو 1977 میں فلم کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کے فلم فیئر اعزاز برائے بہترین غنائی شاعر کے ملا. اس سے پہلے انھیں بہترین غنائی شاعر کا ایوارڈ 1964میں بھی ملا. آپ حکومت کی جانب سے پدم شری اعزاز برائے و تعلیم سے بھی نوازے گئ. فلمی دنیا کا یہ ہر دلعزیز شاعر آخر کار 25 اکتوبر 1980 کو کل 59 سال کی عمر میں دورہ قلب پڑنے کے چلتے اس دار فانی سے ہمیشہ ہمیش کے لیے لیے رخصت ہو گیا. بے شک آج ساحر ہمارے درمیان نہیں ہے لیکن ان کی نظم "اے شریف انسانوں” آج بھی ہمیں جنگ سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے امن و امان کے ساتھ رہنے کا درس دیتی ہے اور ہندوستان و پاکستان دونوں ممالک کی قیادتوں کو ان کشیدگی بھرے حالات میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کا پیغام دیتی ہے. آج اگر  دونوں پڑوسی ملکوں کے رہنما یا شریف انسان.! ساحر کے بتائے راستے پر چلیں اور امن و استحکام کو یقینی بنائیں اور دونوں ہی ملک آپس میں جنگ لڑنے کی بجائے اپنے اپنے دیش میں پھیلی بے روزگاری، بھوک مری اور خطے میں پھیلی غلاظت و پولیوشن و بڑے پیمانے پر پھیلی کرپشن اور مظلوم انسانوں کے خلاف ہو ظلم و استحصال و بے انصافی کے خلاف جنگ لڑیں تو یقیناً اس وقت یہی ساحر کو سچی شردھانجلی یا خراج عقیدت ہوگی.

تبصرے بند ہیں۔