لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

وصیل خان

انتخابات خواہ پارلیمانی ہوں یا ریاستی، لوکل باڈیزکے ہوں یا گرام پنچایت کے کہیں بھی یہ اپنے اصل مقصد اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کے تناظر میں لڑے ہی نہیں جارہے ہیں، ہمار ے سیاستدانوں کے نزدیک جن میں عوام کا بھی ایک بڑا طبقہ ان کا شریک کار ہے یہ انتخابات محض ایک انتہائی منافع بخش کاروبار سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے اگر بات صرف کاروبار تک ہی ہوتی تب بھی کوئی ہرج نہیںکیونکہ کاروبار بہر حال ایک جائز کام ہے، ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا اور گہری حکمت عملی کا  استعمال، لیکن کسی کو نقصان پہنچائے بغیر اپنے بزنس کو ترقی کی بلندیوں پر پہنچانے کے عمل کو کبھی غلط نہیں کہا جاسکتا لیکن ہر جگہ دیانت وایمانداری شرط اول ہے یہاں بھی قدم قدم پر وہی اوصاف درکارہیں اگر اس کے برعکس بدعنوانی اور بے ایمانی کا بول بالاہو تو اسے کاروبار نہیں لوٹ گھسوٹ، سینہ زوری اور ڈاکہ زنی کے سوا اور کیا نام دیاجاسکتا ہے ۔

آؑج ہمارے معاشرے اور سماج میں یہی سب کچھ بڑے پیمانے پرپروڈکٹ کیا جارہا ہے۔ سیاستداںکسی الگ دنیا کی مخلوق نہیں وہ بھی ہمارے اسی معاشرے اور سماج سے اٹھنے والے افراد ہیں،ظاہر ہےمعاشرتی کارخانے میںآج جس چیز کا پروڈکٹ زیادہ ہورہا ہے وہ یہی دھوکہ، فریب، جھوٹ، بدعنوانی، بے ایمانی اور مکاری وتشدد جیسے عوامل ہیں پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہمارے لیڈران قانون ساز یا عوامی اداروں میں جاکر صداقت، عدل،وفاداری، صلہ رحمی اور شفافیت کاجھنڈا بلند کریںگے۔

ہندوستان بہر حال ایک جمہوری ملک ہے برطانوی استعماریت سے گلو خلاصی کے بعد اس ملک کی داغ بیل جمہوری طرز پر قائم کی گئی تھی اس کی دستور سازی ملک کی رنگا رنگ تہذیب، طرز معاشرت اور مختلف المذاہب افراد کا خیال رکھتے ہوئے کی گئی تھی تاکہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب میں کوئی شگاف نہ پڑنے پائے اور آپسی رشتے مزید مستحکم ہوسکیں، لیکن بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہ سارے خواب بکھرتے چلے گئے، ملک میں نسلی، مذہبی اور ہندو مسلم منافرت کا ایک سیلاب پھوٹ پڑا جس میں سب سےپہلے تو آپسی بھائی چارہ مجروح ہوا جگہ جگہ گائے کے نام پر تشدد اور قتل و غارتگری نے ملک کے سارے تانے بانے ہی بکھیر دیئے ماب لنچنگ اورہجومی حملوں میں سر عام پیٹ پیٹ کر مارڈالنے کی وارداتیںمعمول کی باتیں ہوچکی ہیں۔

یہ صحیح ہے کہ سبھی سیاسی پارٹیاں اپنے مفاد اوراقتدار کے حصول کی دوڑ میں سبقت لے جانے کیلئے تھوڑا بہت غیر دستوری اور غیر قانونی کام کرتی رہی ہیں لیکن جوڑتوڑاور انتہائی ہلکے پن کا گھٹیا مظاہرہ اور جمہوری ڈھانچے کی تذلیل جس طرح بی جے پی کے دور اقتدار میں دیکھی گئی ماضی میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ملک کی موجود صورتحال اس قدر نازک ہے کہ اس پر خلوص کے ساتھ اور وقت ضائع کئے بغیر یہ حکمت عملی طے کرنی ضروری تھی کہ موجودہ حالات میں حزب اختلاف کو کس طرح کا کردار ادا کرنا چاہیئے وقت کا تقاضا تو یہی تھا کہ ایک بار پھر لوک نائک جے پرکاش نارائن کی ایمرجنسی کے بعدہونے والے الیکشن کی حکمت عملی کو دوہرایا جاتا جب انہوں نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کردیا تھا یہاں تک کہ ان جماعتوں نے اپنی اپنی پارٹیائی شناختوں کو ختم کرکے جنتا پارٹی کے نام سے ایک نئی جماعت کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس عظیم ترین اتحاد نے اندرا گاندھی والی کانگریس ( آئی ) کو  ہزیمت کا ایسا مزہ چکھایا جسے کانگریس کی تاریخ کا سب سے سیاہ دور کہا جاسکتا ہے۔ لیکن ابھی تک کی صورتحال یہی بتارہی ہے کہ مہا گٹھ بندھن کے باوجود سیکولر جماعتیں اس پوزیشن میں نہیں نظر آرہی ہیں جس سے یہ اندازہ یقین میں تبدیل ہوسکے کہ آنے والے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو شکست فاش دی جاسکتی ہے۔

یوپی بہار بنگال جیسی بڑی ریاستوں میں بھی وہی مشکوک صورتحال بنی ہوئی ہے۔ یوپی میں ایس پی، بی ایس پی اور آرایل ڈی کے اتحاد میں کانگریس کی عدم موجودگی کے سبب یہ کہنا مشکل ہے کہ وہاں بی جے پی کا مکمل صفایا ہوسکتا ہے جبکہ کانگریس نے تمام سیٹوں پر اپنے امیدوار وں کو اتارنے کا عزم کررکھا ہے۔ حالانکہ یوپی میں کانگریس کی پوزیشن قطعاً بہتر نہیں ہے لیکن پرینکا کے میدان میں اترنے کے بعد کم از کم ۲۰۱۴والی پوزیشن بہر حال نہیں رہ گئی ہے، اس تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس سیکولر ووٹوں میں جو شگاف ڈالے گی وہ بہر صورت ایس پی، بی ایس پی اتحاد کے ہی ووٹ ہونگے، اگر ایسا ہوا اور بادی النظر میں جس کا امکان بھی نظر آرہا ہے ایسے میں بی جے پی کو اچھا خاصا فائدہ ہوسکتا ہے اور سیکولر حکومت کے قیام کا خواب ایک بار پھر چکنا چور ہوسکتا ہے جو ملک کی سالمیت کیلئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا۔ مہاراشٹر کی بھی بہت بہتر صورتحال نظر نہیں آرہی ہے جہاں این سی پی اور کانگریس کے اتحاد کے باوجود بی جے پی اور شیوسینا کا اتحاد بھاری پڑسکتا ہے اگر این سی پی اور کانگریس کے ساتھ آرپی آئی اور کچھ دیگر سیکولر پارٹیاں بھی اتحاد میں شامل ہوجاتیں تو صورتحال یقینی طور پر فیصلہ کن حد تک تبدیل ہوسکتی تھی۔

اتحاد کی یہی نازک صورتحال کم و بیش ملک کے تمام صوبوں میں پائی جارہی ہے جہاں غیر مستحکم اتحاد ویسے بھی کمزور تھا اب بہار سے آنے والی تازہ ترین خبروں نے اسے مزید متزلزل کردیا ہے۔ آر جے ڈی اور کانگریس کے اتحاد میں بھی بغاوت کے آثار ظاہر ہوناشروع ہوگئے ہیں ایک طرف کانگریس کے شکیل احمد، اشرف علی فاطمی اور حال ہی میں کانگریس میں شمولیت اختیار کرنے والی لولی آنندجیسے سینئراور بااثر لیڈران نے باغیانہ تیور دکھاتے ہوئے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کا اشارہ دے دیا ہے تو دوسری طرف لالو یادو کے فرزندان آر جے ڈی کے تیجسوی یادو اور ان کے بڑے بھائی تیج پرتاپ یادو کے درمیان شدید اختلافات کی خبریں گشت کررہی ہیں اورتیج پرتاپ نے آر جےڈی کے مقابل اپنے امیدوارمیدان میں اتارنے کا فصلہ کرلیا ہے،اسی طرح سے مسلم اکثریتی علاقوں کی متعدد سیٹوں پر کئی کئی مسلم امیدواروں کو کھڑا کردیا گیاہے،کشن گنج (بہار ) اس کی تازہ مثال ہے، ظاہر ہےیہاں بھی بی جے پی کو ہی راست فائدہ پہنچنے والاہے۔

ایوزیشن جماعتوں کے اس زبردست بکھراؤ او ر اختلافات کو دیکھتے ہوئے کبھی کبھی یہ احساس گہرا ہونے لگتا ہے کہ کہیں سیکولرنظریات کی حامل سیاسی پارٹیوں نے بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کا کام اپنے ذمے تو نہیں لے لیا ہے۔ اس نازک ترین گھڑی میں جب منصوبہ بند طریقے سے ملک کو فرقہ پرستی اور ظلم وبربریت کی آگ میں جھونکا جارہاہو اپوزیشن جماعتوں کے شدید انتشار کا کیا مطلب لیا جاسکتا ہے جس کے سبب امن و امان اور گنگا جمنی تہذیب کی واپسی کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے سیکولر جماعتوں کو عظیم اتحاد کے تئیں خود پر نظر ثانی کرلینا چاہیئے۔

اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا 

   لڑتےہیںاور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں 

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔