سمجھتا ہے مجھے اک دوست اگر تو

عبدالکریم شاد

سمجھتا ہے مجھے اک دوست اگر تو

میں آئینہ دکھاتا ہوں سنور تو

کوئی ثانی نہیں اس کا نہ تیرا

فلک پر چاند ہے اور بام پر تو

یہ شبنم پڑ رہی ہے پھول پر یا

گلستاں میں کھڑی ہے تر بتر تو

مرے آئینے سے شفاف دل کو

نہ آیا راس کوئی بھی مگر تو

کہا یہ اشک پی کر ماں نے مجھ سے

نہ رویا کر مرے لخت جگر! تو

اس اک جملے نے میرے پاؤں روکے

بچھڑ کر مجھ سے جائے گا کدھر تو

ہمارے بھیجنے میں کیا کمی تھی

دعا! کیوں کر نہیں لاتی اثر تو؟

مسافر ہوں میں صحرا کا جہاں میں

مری راہوں میں ہے مثل شجر تو

رکاوٹ کیا ہے تجھ کو ماننے میں

کہ آخر شاد! ہے فانی بشر تو

تبصرے بند ہیں۔