سمجھتا ہے مجھے اک دوست اگر تو
عبدالکریم شاد
سمجھتا ہے مجھے اک دوست اگر تو
میں آئینہ دکھاتا ہوں سنور تو
…
کوئی ثانی نہیں اس کا نہ تیرا
فلک پر چاند ہے اور بام پر تو
…
یہ شبنم پڑ رہی ہے پھول پر یا
گلستاں میں کھڑی ہے تر بتر تو
…
مرے آئینے سے شفاف دل کو
نہ آیا راس کوئی بھی مگر تو
…
کہا یہ اشک پی کر ماں نے مجھ سے
نہ رویا کر مرے لخت جگر! تو
…
اس اک جملے نے میرے پاؤں روکے
بچھڑ کر مجھ سے جائے گا کدھر تو
…
ہمارے بھیجنے میں کیا کمی تھی
دعا! کیوں کر نہیں لاتی اثر تو؟
…
مسافر ہوں میں صحرا کا جہاں میں
مری راہوں میں ہے مثل شجر تو
…
رکاوٹ کیا ہے تجھ کو ماننے میں
کہ آخر شاد! ہے فانی بشر تو
تبصرے بند ہیں۔