لکھنؤ کے تاریخی آثار: نوابین اودھ اور ہماری معلومات

عادل فراز

بات ایک ماہ قبل کی ہے۔ ہمارے عزیز دوست اور معروف ناول نگار رحمٰن عباس لکھنؤ آئے ہوئے تھے۔ انہیں ایک ادبی پروگرام میں شریک ہونا تھا۔ ان کا فون آیامیں رحمٰن عباس بول رہا ہوں۔ کچھ دیر کے بعد بڑا اما م باڑہ پہونچوں گا، ملاقات ضروری ہے۔ میں نے انکی لکھنؤ آمد پر تہہ دل سے خوش آمدید کہااور ان سے ملنے کے لئے بڑے امام باڑہ پہونچ گیا۔ ’’بڑاامام باڑہ ‘‘ جو اب ’’بھول بھلیا‘‘ میں تبدیل ہوچکاہے،ایک مذہبی تاریخی عمارت فقط سیاحوں کی تماش گاہ بنتی جارہی ہے۔ اب تو اس عمارت کا حال ریذیڈنسی اور بیگم حضرت محل پارک سے بھی بدتر ہوگیاہے۔ ہماری غلفت اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہے کہ حکومتیں ہماری مذہبی عمارتوں کو خالص سیاحت کے لئے استعمال کررہی ہیں اور ہم اپنی نادانی کے زیر سایہ زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگانے میں مست ہیں۔

بہر حال !جب میں امام باڑہ میں داخل ہوا تو اس وقت رحمن عباس اپنے کچھ تخلیق کار دوستوں کے ساتھ ’’بائولی‘‘ کی سیر کررہا تھا۔ میں نے فون ملایا تو وہ باہر آگیا۔ یوں تو وہ کئ برساتیں مجھ سے زیادہ دیکھ چکاہے مگر دل کے لحاظ سے ہم دونوں ہم عمر نکلے۔ وہ پرتپاک انداز میں ملا۔ دونوں بغل گیر ہوئے۔ رحمن عباس نے دوسرے ادیبوں سے ملاقات کرائی۔ دل خوش ہوگیاکہ ایک اردو کا ادیب دیگر زبانوں کے ادباءکے ساتھ اسٹیج شیر کررہا تھا۔ ورنہ اردو والے تو اپنے گھر میں ہی اپنی کچی پکی کچھڑی پکاکر خوش ہیں۔

ابھی ہم لوگ محو گفتگو تھے کہ جان فراز قمر عبا س بھی آگیا۔ ہم لوگ بے تکلفانہ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے بڑے امام باڑہ کے صحن میں آگئے۔ اسٹال پرجوتے جمع کرائے تاکہ کوئی ضرورتمند جوتے لیکر چلتانہ بنے۔ جوتے جمع کراکے امام باڑے کی عمارت میں داخل ہوئے۔ کئی گارڈ جو آدھی ادھوری تاریخ بتلاکر سیاحوں سے پیسے اینٹھتے ہیں، ہم لوگوں کی طرف لپکے مگر ہم نے ان کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ امام باڑہ کی پرشکوہ عمارت،وسیع وعریض ہال، قدم آدم کے برابر بلوری آئینے،بیش قیمت جھاڑ فانوس،عمارت میں ایرانی طرز تعمیر کی خیرہ چشمی اور شہ نشینوں میں سجے ہوئے تعزیوں کو دیکھ کر سب مبہوت تھے۔

اب چونکہ امام باڑہ کی چھت پر جانا تھا اس لئے گائڈ کے بغیر اوپر جانا مناسب نہیں تھا۔ ایک گائڈجو لکھنؤ کے شیش محل کا باشندہ تھا، ہمارے ساتھ ہولیا۔ یوں تو ہم نے کبھی کسی گائڈاور دیگر اراکین کو امام باڑہ کی زیارت کاایک دھیلا نہیں دیا مگر ان کا حق زحمت ضرور ادا کیا۔ گائڈ کچھ غیر ضروری باتیں بتاتا ہوا ہمیں لیکربھول بھلیاں میں داخل ہوا۔ وہ رٹی رٹائی تاریخ دہرانے لگا۔ امام باڑہ کاسنہ تعمیر، مصالحہ کیسے تیار کیا گیا،کتنے مزدور کام پر لگے، کتنے سالوں میں امام باڑہ بن کر تیار ہوا۔ نواب آصف الدولہ کس قدر سخی تھے۔ پھر لکھنؤ پرانگریزوں کا حملہ کرنا، دشمنوں کے حملے سے محفوظ رہنے کے لئے امام باڑہ کی تعمیراتی خوبیاں وغیرہ وغیرہ، چونکہ رحمن عباس اور دوسرے ادباء پہلی بارلکھنؤ آئے تھے اس لئے ممکن ہے یہ سب انکے لئے نیا اور دلچسپ رہا ہو مگرمیرے اورقمر کے لئے اکتا دینے والا بیان تھا۔

بھول بھلیا میں داخل ہوتے ہوتے وہ ہمیں اپنے زعم میں لکھنؤ کی پوری تاریخ بتاچکا تھا۔ وہ تاریخی حقائق جو اسکی سرکاری تربیت کا حصہ تھے۔ ورنہ جو تاریخ اسے زباں زد تھی وہ نہ عبدالحلیم شرر نے بیان کی ہے اور نہ آغا مہدی مرحوم نے۔ وہ بتانے لگا۔ جب لکھنؤ پر انگریزوں کو غلبہ حاصل ہوا تو لوگ جان عالم واجد علی شاہ کو فرار ہونے کے لئے جگانے پہونچے۔ بادشاہ کوجگایا گیا کہ حضور عالم پناہ اودھ انگریزوں کے تسلط میں ہے، چلیے بھاگ چلیے۔ سب فرار ہوگئے مگر واجد علی شاہ اپنے پلنگ پر پیر لٹکائے بیٹھے رہے کیونکہ کوئی انہیں جوتیاں پہنانے والا نہیں تھا۔ سب حیران و ششدر گائڈ کی شکل دیکھ رہے تھے۔ ظاہرہے یہ جملے کسی بھی ادیب کےلئے قابل برداشت نہیں ہونگے۔ اگر وہ اودھ کی تاریخ سے ناآشنا ہے تو واجد علی شاہ کی جو امیجری اسکے ذہن میں کریئیٹ ہوگی وہ کتنی غلط او ر بدرنگ ہوگی اس کا اندازہ لگانا بھی دشوار ہے۔

گائڈ کی یہ بے تکی باتیں سن کرہمارےتن بدن میں آگ لگ گئی۔ مگر اسے لعن طعن کرنے سے کیا حاصل ہوتا۔ اسے تو جوکچھ رٹوایا گیا تھا وہ رٹو طوطے کی طرح دہرا رہا تھا۔ مگر افسوس اس لئے ہواکہ وہ لکھنؤ کا باشندہ تھا۔ تاریخی محلہ شیش محل کا رہنے والا تھا۔ اسکی زبان سے جان عالم کی تضحیک میں انگریزوں کے پروپیگنڈہ جملے سن کر ایسا محسوس ہوا جیسے دل میں کوئی پھانس چبھ گئی ہو۔ نہ جانے کتنے قومی و بین الاقوامی سیاحوں کو یہ نادان گائڈ نوابین اودھ کی من گھڑنت اور انگریزوں کی پروپیگنڈہ تاریخ بتا چکا ہوگا۔ سوچیے علم دوست اور ادب پرور نوابوں کے بارے میں وہ سیاح کیا تاثر لیکر لوٹےہونگے۔ حیف ہے ایسے افراد کو ایسی جگہوں پر متعین کردیا جاتاہے جنہیں اپنی تاریخ کا بھی علم نہیں ہوتا۔ افسوس یہ بھی ہے کہ ہم نے نوابین اودھ کی صحیح تاریخ سے عوام کوآگاہ نہیں کیا۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ آگاہی کا کام وہ لوگ انجام دیتے ہیں جو خود پروپیگنڈہ کا شکار نہ ہوں۔

وہ تو ایک تربیت یافتہ گائڈ تھا، جو کچھ اسے سکھایا گیا تھا وہی بیان کررہا تھا۔ مگر اس تعلیم یافتہ اور مہذب طبقہ کی عقل و ہوش پر ماتم کرنے کو جی چاہتاہے جو آج بھی انگریزوں کے زرخرید مورخین کی پروپیگنڈہ تاریخ کو حقیقت مان کر گمراہی کا شکار ہیں۔ مسلمان بادشاہوں خصوصا نوابین اودھ کے سلسلے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں بکے ہوئے مؤرخین او ر واقعہ نویسوں نے جو تاریخ وضع کی ہے وہ تمام مسلمان بادشاہوں کوایک لاٹھی سے ہانکنے کا کام کرتی ہے اور مجرم کی حیثیت سے عوامی عدالت میں لاکھڑا کرتی ہے۔ واجد علی شاہ جیسا علم دوست،فنون لطیفہ کا شیدائی،سو سے زائد کتابوں کا مصنف جس کی کردارکشی کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور ہم آج تک تمام ان روایات کو صحیح سمجھ رہے ہیں جو انکے خلاف دشمن کا پروپیگنڈہ تھا۔ انکے نام پر جنسی افزائش کی گولیاں فروخت کی جارہی ہیں۔ آصف الدولہ کی فرضی تصویر جس میں انکا گریبان کھلاہے اور چھاتی کی جھلک دکھائی پڑتی ہے ہر کتاب اور سیمینار کی زینت ہے۔ افسوس ہوتاہے ایسی قوم پر جو اپنی میراث کی حفاظت نہ کرسکے۔ جو دشمن کے پروپیگنڈہ کا شکار ہوکر اپنے قومی رہنمائوں کی تضحیک کرے۔ یہ سلسلہ صرف نوابین اودھ تک محدود نہیں ہے بلکہ ٹیپو سلطان، مولوی محمد باقر علیہ الرحمہ،اور دیگر قومی رہنمائوں پر محیط ہے۔ ہم نے ایسے رہنمائوں اور جانبازوں کی قدر نہیں کی۔ آج بھی ہم انہیں اپنا قومی رہنما اور ملّی ہمدرد سمجھتے ہیں جنہوں نے دشمن کی جوتیاں سیدھی کی ہیں اور ہمیشہ قوم کو غلامی اور مخبری کی دعوت دی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ عصبیت سے دامن بچاکر تاریخ کا مطالعہ کریں، مسلک و مذہب کی عینک لگاکر تاریخ کا مطالعہ کریں گے توہر کردار ایک الگ رنگ میں نظر آئے گا جس کا حقیقت سے دور تک کا تعلق نہیں ہوگا۔ اس پرپیگنڈہ کو سمجھیں جو انگریزوں کے زرخریدقلم ایجاد کررہے تھے۔ اگر ہم تاریخ کے سمند ر میں ڈوب کرحقیقت کا سراغ نہیں پاسکتے تو ہمیں اپنی شومیٔ قسمت کا نوحہ پڑھنے کا بھی حق نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں۔