لہو میں تر ہے چہرہ، آنکھیں بول سکتی ہیں

محمدفرازاحمد

کہا جاتا ہیکہ سوال کرنا جمہوریت کی روح ہے جوکہ کسی بھی ریاست کی ترقی کی مہمیز یے، آج ملک ہندوستان میں اسی پر روک لگائی جارہی ہے، سوال کرنا دیش بھکتی کے خلاف بتایا جارہا ہے، جس نے بھی سوال کیا اس کو دیش کا غدارکہنے میں کوئی شرنہیں سمجھا جارہا ہے، لیکن ہم بھی جمہوری ملک کی جمہور عوام ہے جو اس روح کو کبھی مرنے نہیں دینگے، سوال کرنا جمہور کا حق ہےاور یہ حق عوام سے کوئی چھین نہیں سکتا، ناحکومت، ناعدلیہ، ناصدر اور نا ہی طریقئہ جبراً۔جتنا زور لگاؤگے اتنی شدت کے ساتھ لاوا باہر نکلےگا۔
گزشہ دنوں بھوپال فرضی انکاؤنکٹر پر سوالات اٹھانے پر ملک کے سرکردہ حکومت مخالف افراد کو ملک دشمن عناصر قرار دیکر اپنا دامن صاف کرنے کی کوشش میں حکومت نے بے غیرتی کی انتہاء کردی، ابھی مزید میقات باقی ہے، دیکھنا اور کتنی بے غیرتی اور تماشا نظر آئےگا۔ اسکے علاوہ گزشہ دوعشروں سے جے این یو کے طالب علم نجیب کی گمشدگی کی خبر عام ہوچکی ہے، لیکن اس معاملہ میں کسی نے سوال نہیں اٹھائے، جس طرح انکاؤنٹر پر سوال اٹھایا گیا جوکہ بجا ہے اسی طرح اس معاملہ میں بھی سوالات ضروری ہے۔ ایک نہتی ماں اپنی ایک بیٹی ، ایک بیٹا اور جے این یو کے طلباء سمیت گزشتہ 25دنوں سے اپنے گمشدہ بیٹے کی تلاش میں در در ٹھوکریں کھاتی ، پولیس کی درندگی کا شکار ، حکومت بھکت عناصر کی بدزبانی سہتے ہوئے پھر رہی ہے، لیکن جےاین یو سے کچھ فاصلے پر واقع حکومتی کارندوں کےکان پر جوں تک نہیں دوڑتی، مزید یہ کہ آخر کیا وجہ ہیکہ ابھی تک جے این یو عملہ کی طرف سے ایف آر آئی درج نہیں کرائی گئی؟ اگر نجیب نے بھی مارپیٹ کی ہوگی تب بھی رپورٹ کروانے سے کیوں گریز کیا جارہا ہے؟ یہ سوال کئی سارے جوابات خود ہی دے رہا ہے۔ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہیکہ اس سارے معاملہ میں جےاین یو اڈمنیسٹریشن کا ہاتھ ہو؟ شائد حکومت نوازی کا بھوت سوار ہو یا پھر وائیس چانسلر بھی مودی نواز ہو؟ مزید یہ کہ نجیب کی گمشدگی کی خبر موصول ہونے کے بعد سے آج تک صرف نجیب کے ماضی اور اسکے کردار پر بحث ہورہی ہے، کسی نے ان غنڈہ گردی کرنے والے درندہ صفت طلباء کے بارے میں سوال نہیں کیا، آخر کیوں پولیس ان نوجوانوں کی پشت پناہی کررہی ہے اور کیوں ان سے ایسی پوچھ تاچھ نہیں کررہی ہے جیسی بے قصور منہاج انصاری کے بیف کے نام پر کی گئی تھی؟ اسی لئے کہ۔نجیب کا تعلق اسلام سے ہے؟ نجیب کی ماں اپنے بلکتے ہوئے انداز میں روتی ہوئی کہہ رہی تھی کہ ’’میں نے سنا تھا کہ دہلی پولیس بہت ایکٹیو ہے لیکن کہاں ہیں انکی ایکٹیونیز ؟‘‘ ایک ماں کے آنسوں جس کو زبان دیتے ہوئے عمران پراتابگڑی نے کہا کہ
’’کہیں جھوٹ کی شخصیت بہہ نہ جائے
یہ نفرت کی دیوار ، چھت بہہ نہ جائے
ہے ایک ماں کے آنسوں کا سیلاب صاحب
کہیں آپ کی سلطنت بہہ نہ جائے‘‘
ہماری میڈیا جنھوں نے بھوپال انکاؤنٹر کو فرضی ماننے والوں کو دیش دشمنی کا سرٹیفیکٹ دیا تھا وہ تو نجیب کے معاملہ میں ایسے خاموش ہوگئے ہیں جیسے کہ اس میں انکا ہی ہاتھ ہو، آخر کیا بات ہیکہ ان چینلوں نے نجیب پر رات کے ۹ بجےہونے والے پرائم ٹائیم میں ہاش ٹیگ(HashTag) کا استعمال نہیں کیا؟ رویش کمارنے اپنے پرائم ٹائم میں نجیب کی والدہ سے گفتگو کرتے ہوئے کئی سارے سوالات کھڑے کئے ہیں جن کا جواب حکومت اورجےاین یو عملہ دینے سے خاصر ہے۔
یاد رکھیں جس ملک کی معصوم عوام خوف زدہ اور غنڈہ عناصر کھلے عام دہشت گردی کرتے ہوں وہ ملک کبھی ’ملک‘ نہیں کہلاتا بلکہ ایسا جنگل کہلاتا ہے جسمیں وحشی جانور معصوم جانوروں کو بےجا چیڑ پھاڑ کر ہضم کرجاتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ اپنی جانبدارانہ سیاست کو چھوڑ کر غیر جانبداری اختیار کریں اور ملک کے مسلمانوں کے ساتھ ایسی درندگی کو بند کردیں ورنہ یاد رکھیں کہ یہ وہی مسلمان ہیں جنھوں 1857ء سے 1947ء تک انگریزوں کے خلاف مستقل جنگ کے ذریعہ ملک کو آزاد کروایا ہے، لیکن پھر بھی مسلمانوں نے قربانی دیتے ہوئے آپکو اقتدار چلانے سے روکا نہیں ہے لہٰزا آپ بھی ملک کے تمام شہریوں کو ایک نظر سے دیکھیں اور مسلمانوں کو اپنی سیاست کا کھلونہ نا بنائیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔