وہ (افسانہ)

محکمہ پولیس کی جانب سے شہریوں کی خاطر اپنی خوشیوں سے لے کر جان تک قربان دینے کی مختصر داستان، صاحبان اقتدار کے لئے لمحہ فکریہ، عنایت عادل کے قلم سے۔۔۔

سورج کے سوا نیزے آنے کی مثال کی عملی شکل شدت سے محسوس کی جا سکتی تھی۔ جھلسا دینے والی گرمی نے اجلی رنگتوں تک کو سانولے رنگ میں بدل دیا تھا۔ خواہش کے باوجود اس نے کسی سایہ دار مقام کی تلاش کو اپنی پیشہ ورانہ مجبوری کے بوجھ تلے دبا ئے رکھا ۔ قریبی چوک پر لگے میونسپلٹی کے نلکے کی کم آبی اور اسکے نتیجے میں اسکے گلے میں چبھتے کانٹوں نے اسے بارہابلدیہ کے ساتھ ساتھ پورے حکومتی نظام تک کی شان میں مغلظات سوچنے اور کبھی توبڑبڑا دینے پر مجبور کر دیا تھا۔چند ماہ پہلے اس کے آنگن میں کھلنے والے ننھے پھول کی مسکراہٹ کا خیال اس کی پیشہ ورانہ تلخیوں میں کمی لانے کے لئے اس کے ذہن میں کوندا ہی تھا کہ اسی اثناء میں اسے دور سے بغیر سائلنسر کے کسی موٹر سائیکل کا شور سنائی دیا ،جو مسلسل قریب آ رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس نے دیکھا کہ ایک موٹر سائیکل پر دو نوجوان چوک سے مڑ کر اسکی جانب فراٹے بھرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ جھٹ سے سیدھا ہوا اور بغل میں لٹکتی سیٹی ہونٹوں کے درمیان دبا لی۔ موٹرسائیکل سوار جب مناسب فاصلہ تک آ پہنچے تو اس نے تیز آواز میں سیٹی بجانے کے ساتھ ساتھ دستانوں میں لپٹے، پسینے سے شرابورہاتھ پھیلا کر ان موٹر سائیکل سواروں کو رکنے کا اشارہ کیا۔ دوپہر کے سناٹے میں بریکوں کی تیز آواز کے ساتھ موٹر سائیکل سواراسکے پہلو سے گزرتے ہوئے ایک جانب رک گئے۔ موٹر سائیکل کے پیچھے نمبر پلیٹ کی عدم موجودگی اس نے پہلے ہی دیکھ لی تھی۔ کاغذات کے مطالبے پر بھی نوجوانوں کی جانب سے پھیکی مسکراہٹ کے سواکچھ وصول نہ ہو سکا۔ لڑکوں کی کم عمری ۔۔شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس کے متعلق سوال کا بذات خود جواب تھی۔اس نے درشت لہجے میں لڑکوں کو ڈانٹتے ہوئے موٹر سائیکل کی چابی قبضہ میں لے لی اور موٹر سائیکل کو قریبی سٹیشن منتقل کروانے کے لئے موبائل فون پر متعلقہ افسر سے انتظام کی درخواست کرنے لگا۔دوسری جانب لڑکوں نے بھی اپنے موبائل فون نکالتے ہوئے نمبر ڈائل کرنا شروع کر دئیے تھے۔
۔۔۔۔۔
”پولیس میں اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی تمہاری آنکھیں پہچان نہیں کر سکتیں کہ کہاں کس کے ساتھ کیا برتائو رکھنا ہے؟ٹریفک میں کام کرنا تمہارا کام نہیں۔۔۔ جائو تمہیں دوسرے شعبے میں ٹرانسفر کی اطلاع کر دی جائے گی”۔۔
”یس سر۔۔۔”
۔۔۔۔۔
موسم کافی بدل چکا تھا ، دن میں گو کہ گرم کپڑوں کی ضرورت ابھی محسوس نہیں ہوتی تھی تاہم رات کو خنکی کافی حد تک محسوس کی جا سکتی تھی۔خاص طور پر رات کے آخری پہر کی ٹھنڈک کم از کم بنا کسی شال یا گرم جرسی کے کھلی فضاء میں چلنے پھرنے کی اجازت ہرگز نہیں دیتی تھی۔۔وہ گزشتہ کئی راتوں سے شبینہ گشت کی ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا اور اس کی یہ ڈیوٹی اس کے اس جرم کی سزا کے طور پر اسکی قسمت میں آئی تھی کہ جس میں اس نے ایک اعلیٰ افسر کے دفتر کے باہر حفاظتی خدمات انجام دینے کے دوران ایک صحافی سے اس کا تعارفی کارڈ مانگنے کی جسارت کر ڈالی تھی۔
صبح ہونے میں بس ایک آدھ گھنٹہ باقی تھا۔۔۔
وہ پیدل چلتے ہوئے ایک گلی کے اندر داخل ہوا۔ اس نے دیکھا کہ ایک گھر کے باہر لگے تھڑے پر کچھ نوجوان تاش کے پتوں سے دل بہلا رہے تھے۔ توانائی کے بحران سے نبر د آزما قوم کے یہ معمار، موبائل فون کی جدت سے مستفید ہوکر روشنیوں میں خود کفالت کا پرچار کرتے ہوئے بلند آواز میں ایک دوسرے پر جگتیں اور پھر ان جگتوں پر قہقہوں کا تڑکہ لگا رہے تھے۔ اس نے ناک سکوڑ کر محسوس کیا ان نوجوانوں کے ہاتھوں سے لبوں تک کے چکر کاٹتے سگریٹ غیر معمولی ہی نہیں، قابل گرفت بھی تھے۔ان میں سے ایک نوجوان نے شاید ساتھیوں کو وردی والے کی اچانک انٹری کی خبر سنائی۔۔ تب ہی سب نے اسکی جانب مڑ کر دیکھا۔ لیکن ایک نوجوان، جو کہ شاید میزبان رہا ہو گا، نے کچھ الفاظ کہے، جنہیں سن کر باقیوں نے قہقہہ لگایا اور بے فکری سے تھڑے پر بکھرے پتوں کی جانب متوجہ ہو گئے۔ وہ ان کے قریب پہنچا۔۔۔
۔۔۔۔
”تمہیں سارے علاقے میں وہی ایک گھر ملا تھا؟ جانتے ہو وہ اپنے علاقے کے معززین میں شمار ہوتے ہیں اور ہر سیاسی جماعت انکی برادری کی حمایت کے لئے سبقت لینے کی کوشش کرتی ہے۔ ۔۔
‘سوری سر’۔۔۔
”تمہیں پتہ بھی ہے کہ وہ ابھی تازہ تازہ بلدیاتی انتخاب جیتے ہیں۔۔۔اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ وہ ہمیشہ افسران بالا کے آس پاس منڈلاتے رہتے ہیں۔ بندہ کچھ تو عقل سے بھی کام لیتا ہے”۔
۔۔۔۔۔
”بابا۔۔۔ میرے نئے کپڑے امی کے کپڑوں سے زیادہ پیارے ہیں ناں۔۔۔۔۔؟”
ننھی پری نے اپنی توتلی زبان کے ساتھ بابا کے ساتھ لاڈ کرتے ہوئے کہا۔۔
”ہاں بابا کی جان۔۔۔ ہماری بیٹی بھی تو پالی پالی ہے”۔۔۔ باپ نے اسی لاڈ بھرے انداز میں جواب دیا۔۔۔
”بابا۔۔۔ کل مجھے جھولوں پر لے جائو گے نا۔۔۔؟”
”کیوں نہیں میری جان۔۔۔ صبح ڈیوٹی سے واپس آکر سب سے پہلے اپنی بیٹی کو جھولوں پہ لے جائوں گا۔۔”
” آپ کی نوکری بھی عجیب ہے۔۔ ناں دن رات کا پتہ، ناں سردی گرمی کی کوئی پہچان اور اب عید کے دن بھی آپ ڈیوٹی پر ہونگے”۔۔ پاس کھڑی اس کی بیوی نے افسردگی اور قدرے نا پسندیدگی سے شکوہ کیا۔۔
”پگلی۔۔۔یہ نوکری نہیں ۔۔ خدمت ہے، حفاظت ہے، جہاد ہے۔۔۔ اگر ہم خدمت ناں کریں تو ناں خلق خدا کے دن کا چین ہو اور ناں ہی را ت کا آرام۔۔ناں کسی کو گرمی راس آئے نہ سردی کسی طور بھائے۔۔۔”
وہ قدرے جذباتی ہوگیا۔۔
”ہر طرف بھیڑئیے انسانوں کے شکاری بن کر گھوم رہے ہیں۔۔ہم سستی کاہلی کریں تو ناں ہی کوئی عید شب برات کی خوشیاں منا سکے اور ناں ہی کوئی آزادی سے گھوم پھر سکے۔”
اس کا جواب سن کر بیوی بغیر کچھ کہے کمرے سے نکل گئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
”عید مبارک”۔۔۔ اسکے کانوں میں آواز ابھری۔۔۔
اس نے فرط مسرت سے مڑ کر آواز کی جانب باہیں پھیلانے کا ارادہ کیا۔۔لیکن ۔۔ وہ شخص پہلے ہی مطلوبہ سینے سے بغل گیر ہو چکا تھا۔اس نے جھینپتے ہوئے عید گاہ سے نکلتے نمازیوں کو نظم وضبط کی راہ دکھانا شروع کر دی۔۔
وہ عید ملنے ملانے کی خواہش اور خاص طور پر اپنی ننھی پری کے ساتھ جھولوں پر جانے کی گھڑی کے قریب آنے پر دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ فضاء ۔۔۔۔کسی بھیڑیئے کی کامیابی کا نوحہ پڑھنے لگی۔
دوسرے دن کسی قلمکار نے جلی حروف میں خبر لگائی۔۔۔
”دلیر نوجوان نے فرائض کی بجاآواری کے دوران اپنی عید دوسروں پر قربان کر دی”۔۔
اسی خبر کے نیچے، ایک تصویر لگی تھی جس کے نیچے درج تھا۔۔
” پولیس نوجوان کی شہادت پر نو منتخب عوامی نمائندے اور دیگر ممتاز شخصیات پولیس کے اعلی حکام سے اظہار تعزیت کررہے ہیں”۔
دوسری جانب کسی کی توتلی زبان پوچھ رہی تھی۔۔
”دادی اماں! عید کی نماز کتنی لمبی ہوتی ہے۔۔؟؟ بابا مجھے جھولوں پر لے جانے کب آئیں گے۔۔؟
(نوٹ:یہ افسانہ گزشتہ یوم شہدائے پولیس کے موقع پر تخلیق کیا گیا)

تبصرے بند ہیں۔