ہماری بانہوں میں آ کر بھی کیوں ہمیں سے گریز

راجیش ریڈی

ہماری بانہوں میں آ کر بھی کیوں ہمیں سے گریز
سپُردگی میں کبھی تو کرو ”نہیں“ سے گریز

میں داستان میں اُس کی جہاں جہاں بھی رہا
سُنا رہا ہے وہ کر کے وہیں وہیں سے گریز

تمام عمر ہمیں اُس مکاں میں رہنا پڑا
وہ جس مکان کو ہر پل رہا مکیں سے گریز

مِلا کے ہاتھ ہی کیوں رک گئے!گلے بھی ملو
بَنے ہو دوست تو پھر کیوں ہو آستیں سے گریز

نہ کُھلتے راز کبھی کائنات کے ہم پر
ہماری جستجو کرتی نہ گر یقیں سے گریز

فَلک سے نکلا تو رستے میں پڑ گئی یہ زمیں
میں چاہ کر بھی نہ کر پایا اِس زمیں سےگریز

تبصرے بند ہیں۔