لیو ان ریلیشن شپ میں بھی تعصب

 ممتاز میر

  ہمارے شہر مین ایک باوا ہیں۔ باوا تو ہندوستان کے چپے چپے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر شہر میں دو چار تو ملیں گے ہی۔ پھر ہمارے شہر کے باوا میں کیا خاص بات ہے؟خاص بات ان میں نہیں۔ ان کے فرزندنے انھیں خاص بنا دیا ہے۔ چند دنوں پہلے ان کا بچہ پڑوس کی ایک ہندو  بچی کو لے کر بھاگ گیا۔ بچی کے والد کی شکایت پر باوا کو مع اہل و عیال داخل زنداں کر دیاگیا۔ باوا آخر باوا ہوتا ہے۔ وہ چند دنوں بعد رہا ہو کر گھر آگئے۔ مگر پھر کچھ دنوں بعد ہندو شر پسندوں نے ان کے گھر کو آگ لگا دی۔ فی الوقت وہ شر پسند ایک ہندو ڈاکٹر کے بیان کی بنیاد پر گرفتار ہیں۔ یہ ہے وہ پورا واقعہ جس نے ہمارے باوا کو خاص مقام عطا کر دیا۔ اس واقعے نے ہمارے دماغ کو متعدد سوالات کا میدان جنگ بنا دیا ہے۔ ہم ان سوالات کو ذیل میں درج کرتے ہیں۔

  (۱) سب سے پہلاسوال یہ ہے کہ لڑکے نے لڑکی کو لے کر بھاگا تھا یا لڑکی نے لڑکے کو لے کر؟ہمارے علم کے مطابق لڑکی لڑکے کے مقابلے میں زیادہ دبنگ ہے۔ پھر آج کے ماحول میں لڑکے کا وہ بھی مسلمان۔ ۔ کسی لڑکی کو لے کر بھاگنا ہمیں ممکن نظر نہیں آتا۔ پھر ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ مودی جی کے بھارت ورش مین جہاں دن رات women empowerment  کی باتیں ہوتی ہوں جہاں  بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤکے نعرے لگتے ہوں، جہاں مودی جی نے یشودا بین کو آزادی دے رکھی ہو۔ ایسی آزادی کہ اب وہ خود دوسروں کے گھروں میں جھانکتے ہوں۔ وہی آزادی انھوں نے سمرتی ایرانی کو دلا رکھی ہو۔ ان حالات میں لڑکی غالب ہوگی یا مغلوب؟مسلم لڑکا تو لو جہاد کے الزامات تلے دبا کراہ رہا ہے۔

(۲) دوسرا سوال ہمارے دماغ میں یہ اٹھتا ہے کہ آخر ہماری حکومت اور ہماری عدالتیں عوام سے چاہتی کیا ہیں ؟ایک طرف ہماری عدالتیں زبردستی عوام پر لیو ان ریلیشن شپ جیسے قوانین لاد رہی ہیں۔ دوسری طرف پولس اس کے خلاف ایکشن لے لڑکے کے والدین کو جیل میں ڈال رہی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ کیس لیو ان ریلیشن شپ کا ہی ہے۔ پھر آخر لڑکا لڑکی لیو ان ریلیشن شپ کس طرح اختیار کریں گے ؟ابتدا میں تو اس قسم کے واقعات پیش آئیں گے ہی۔ پولس کا کام ہے کہ لڑکا لڑکی کی حمایت کرے اور عدالت کے ’’مجوزہ نیک کام ‘‘ میں  ان کی مدد کرے۔ مگرایسا ہو نہیں رہا ہے۔ عدالت کو ایسی پولس کے خلاف ایکشن لینا چاہئے یا پھر یہ سمجھ لینا چاہئے ہم ابھی اتنے ایڈوانس  نہیں ہوئے کہ عوام کیا ہمارے ادارے اس قسم کی باتوں کو برداشت کر سکیں۔

(۳) آخری سوال یہ ہے کہ ایسے قوانین کا فائدہ کیا جس کی دھجیاں شر پسند روز اڑا رہے ہوں ؟ہندو شر پسندوں پر آج تک کسی حکومت نے قابو پانے کوشش نہیں کی۔ آخر کس دن کا انتظار کیا جا رہے؟

   مسلمان کیا اب تو بہت سے ہندو بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کانگریس ہو یا بی جے پی دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ عوام دشمن دونوں ہیں طریقہء واردات الگ الگ ہے۔ ورنہ کانگریس آزادی کے بعد ابتد میں ہی RSS کو اچھی طرح کچل سکتی تھی۔ مگر دونوں ہی پارٹیاں برہمن مفادات کی محافظ ہیں۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ غیر برہمن پارٹیوں کی حکومت کو دونوں نے ہی مل بانٹ کر اکھاڑپھینکا۔ اسی لئے بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ دونوں ہی سے دور رہ کرتیسرا محاذ بنایا جانا چاہئے۔ یہ طے ہے کہ یہ محاذ ابتداء میں کامیاب نہ ہوگاکیونکہ کانگریس کے سیکولرزم کی حقیقت راہل گاندھی کے ڈراموں کے باوجود عوام کیا خواص تک کے دماغوں پر آشکارا نہ ہوسکی ہے۔ جب بھی الکشن آتا ہے راہل گاندھی کی ہر حرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک میں مفاد مین نہیں برہمن مفاد میں کام کر رہے ہیں۔ ان کے سیکولرزم کی حقیقت عوا م کے  دماغ میں بٹھانے کے لئے کڑی محنت کرنا ہوگی۔

   اس سب کے باوجود یہ کہنا بھی صحیح ہوگا کہ یہ حکومت بھارت ورش کے اتہاس کی بے شرم ترین حکومت ہے۔ یقیناً تاریخ میں اسے اپنی اس صفت کے لئے صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ یہ بوفورس تھوکتے ہیں اور رافیل چاٹتے ہیں۔ یہ مسلم مطلقہ تھوکتے ہیں یشودا بین اور شیلٹر ہومس چاٹتے ہیں۔ گئو ماتا تھوکتے اور بیف ایکسپورٹ چاٹتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا اور ان کی ناک کے نیچے سے ملک کے ہزاروں کروڑ کھانے والے ٹہل جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ملک کا حکمراں اگر بگڑا ہوا ہو تو ملک کا ہر ہر شعبہ ہر ہر عہدیدار بگڑجاتا ہے مودی جی تو وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی اتنے بگڑے ہوئے تھے کہ ان کا دوست ان کو ویزہ نہ دیتا تھا۔ عورتوں کے تعلق سے ان کی کہانیاں میڈیا مین آچکی تھیں۔ پھر ان کے بھائی بند جنسی و دیگر جرائم میں ملوث ہونے کے ریکارڈ قائم نہ کرتے توکیا کرتے؟آج تک کسی اور حکومت میں ایسے اور اتنے کارنامے انجام نہیں دئے گئے۔ واقعی یہ Government with a Difference  ہے پھر موجودہ۰ حکومت کا یہ بھی کارنامہ ہے کہ وہ کم وبیش ہر مجرم کی پشت پناہ بن کر کھڑی ہے۔ یہ بھی ان کا کارنامہ ہے کہ مجرم ملک سے چھپ چھپا کر نہیں  بلکہ حکومتی ذمے داران سے مل کر فرار ہو رہے ہیں۔ ایسے مین عدالتیں بھی نہلے پہ دہلا مارتے ہوئے بھارت ورش کی پراچین سبھیتا کی مٹی پلید کرنے والے فیصلے سناتی ہیں تو اس مین تعجب کیسا ؟اب تو موجودہ حکومت کا ریموٹ جن ہاتھوں میں اور جو کبھی ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کیا کرتی تھی وہ بھی Live in Relationship کی پرستار بن گئی ہے۔

   RSS والوں کے پاس شاید اتنی بصیرت نہ ہو اس لئے ہم واقف کرانا ضروری سمجھتے ہیں کہ لو جہاد بھی تو لیو ان ریلیشن شپ کی پہلیسیڑھی ہے۔

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیاہو جائے گی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔