اللہ کی تلوار: حضرت خالد بن ولیدؓ

مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی

رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدرصحابی حضرت خالد بن ولیدؓ ایک عظیم سپہ سالار اورایک عظیم فاتح تھے میدان جنگ میں ان کی مہارت تدبراورصف آرائی پرعقل دنگ رہ جاتی تھی عسکری قائدانہ اوصاف میں سے کوئی وصف ایسانہ ہوگاجوحضرت خالد بن ولیدؓ میں نہ ہو، شجاعت جواں مردی، حاضر دماغی میں لاثانی تھی آپ کی کنیت ابوسلیمان اورابوالولیداورلقب سیف اللہ (اللہ کی تلوار)تھاآپ ؓ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت میں حضرت ابوبکرصدیق ؓ سے جاکرملتاہے آپ ؓ کی والدہ لبابۃ الصغریٰ بنت الحارث الہلالیہ تھیں جوام المئومنین حضرت میمونہ بنت الحارث اورحضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی والدہ لبابۃ الکبریٰ کی ہمشیرہ تھیں۔

آپ ؓ کے والد الولید بن المغیرہ قریش کے سرداروں میں سے تھے اورمکہ کے بڑے دولتمندوں میں ان کا شمارہوتاتھا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ شروع سے ہی بڑے بہادر محنت کش اورجفاکش انسان تھے۔ آپ ؓ کے والد محترم اگرچہ سرداراورامیرترین انسان تھے لیکن آپ ؓ نے ان آرام کردہ چیزوں کوچھوڑکر کے اپنے ہاتھوں سے محنت کی۔ اسلام کاجب ظہورہواتوحضرت خالد بن ولیدؓقبیلہ قریش کے ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے پیغمبراسلام اوراہل اسلام کی شدیدمخالفت کی ۔ کفارمکہ نے صلح حدیبیہ تک اہل اسلام کے خلاف جتنی جنگیں لڑیں ان میں حضرت خالد بن ولید بھی شریک تھے۔ جنگ احد میں آپ قریش مکہ کے شہسوار دستے کی قیادت کر رہے تھے۔ مسلمانوں نے آپ ﷺ کے حکم کے باوجود جب پہاڑی درے کے ایک اہم مقام جوچھوڑدیاتوآپ ؓ نے عقب سے آکر لشکر اسلام پہ حملہ کر دیاجس سے جنگ کاپانسہ پلٹ گیاآپ حدیبیہ کے موقع پہ بھی ایک جنگی دستہ لے کر مسلمانوں کے خلاف نکلے مگر ایک وقت ایساآیاکہ آپ ؓ حضوراکرم ﷺ کے عسکری نظم وضبظ وحکمت وتدبرسے اتنے متاثر ہوئے کہ نبی کریم ﷺ سے محبت وعشق ان کے دل میں سماگیاجوبعدمیں اسلام کے جھنڈے تلے آنے کے لیے آسانیاں پیداکرگیااورحضوراکرم ﷺکے جانثاورں میں اپنانام بھی لکھوانے میں پیش خیمہ ثابت ہواحضوراکرمﷺ جب عمرۃ القضاء کے موقع پہ صحابہ کرام ؓ کے ہمراہ مکۃ المکرمہ میں داخل ہوئے توحضرت خالد بن ولید بھی ان لوگوں میں شامل ہوگئے جواہل اسلام کے منظر کودیکھنے کی تاب نہ لاتے ہوئے مکہ سے باہر چلے گئے تھے۔ حضرت خالد ؓ کے ایک بھائی حضرت الولید ؓبن الولیداسلام کوقبول کر چکے تھے توعمرۃ القضاء کے موقع پہ آپ ﷺ نے ان سے حضرت خالد بن ولیدؓ کے باہر چلے جانے پہ افسوس کااظہار کیااوران کے قبول اسلام کے آپ ﷺ نے اللہ پاک سے دعافرمائی کہ یااللہ ولید کواسلام کی دولت سے سرفرازفرما!

حضرت الولیدنے اپنے بھائی کودعوت اسلام دی آپ ؓ نے کہاکہ میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کروں گااس لیے اپنے ایک ساتھی حضرت عثمان بن طلحہ سے مشورہ کیااوردونوں حق کی تلاش میں مکہ سے مدینہ پاک کی طرف نکل پڑے۔ حضرت عمروبن العاص اورنجاشی شاہ حبشہ کے ہاں سے اسلام کی صداقت کایقین کیااوراپنے راستے پہ چل پڑے راستے میں حضرت خالدؓ اورحضرت عثمان ؓ سے ملاقات ہوگئی اورتینوں ایک ساتھ آپ ﷺ کے جانثاروں میں شامل ہونے کے لیے خدمت مصطفیٰﷺ میں پہنچے۔ حضورمصطفیﷺ نے جب ان تینوں کودیکھاتوبہت خوش ہوئے اور اورصحابہ کرام ؓ سے فرمایـا۔ ’’مکہ والوں نے اپنے جگر گوشے تمہاری جانب پھینک دیے ہیں۔ ‘‘سب سے پہلے حضرت خالد بن ولیدؓ نے آپ ﷺ سے بیعت کی اس کے بعددوسروں نے۔ اورتینوں اسلام کی عظیم فوج میں شامل ہوگئے۔ حضرت خالدبن ولیدؓ نے قبول اسلام کے بعد عہدنبوت، عہدصدیقی وعہدفاروقی میں لشکراسلام کی مختلف معرکوں میں قیادت کی۔ جمادی الاولیٰ۸ ہجری میں غزوہ موتہ میں آپ ؓ نے بھی شرکت کی اوریکے بعد دیگرے تین سپہ سالاروں حضرت زیدبن حارثہؓ، حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓاورحضرت جعفرطیارؓکی شہادت کے بعد لشکراسلام کی قیادت سنبھالی اس موقع پہ پہلی بار حضرت خالد بن ولید کی جنگی مہارت وصلاحیت اسلام کے کام آئی۔ آپ ؓ فرمایاکرتے تھے کہ غزوہ موتہ میں نوتلواریں میرے ہاتھ سے ٹوٹ گئیں بلآخرایک یمنی تلوار ہی باقی رہ گئی تھی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے دور میں داخلی اورخارجی محاذپرجوعظیم الشان خدمات جوانجام دیں وہ اسلامی تاریخ میں ایک سنہرے باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔

مرتدین کے خلاف جوفوج حضرت ابوبکرصدیقؓ نے جوافواج روانہ فرمائیں ان میں سے ایک فوج کی قیادت آپ ؓ کے سپرد فرمائی اس فوج نے جھوٹے مدعی نبوت طلحہ الاسدی اورمامالک بن نویرہ کی سرکوبی میں شاندارکامیابیاں حاصل کیں، مالک قتل ہواتھااورطلحہ بھاگ گیامالک کے قتل اوراس قبیلے کی سرکوبی کے بعدآپ ؓ کومسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ کے لیے روانہ کر دیاتھا، شدیدجنگ کے بعد مسیلمہ قتل ہوگیااوراس کی قوم بنوحنفیہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے جہاں رومیوں کے مقابلے کے میں شام وعراق میں افواج روانہ کیں وہاں حضرت خالد بن ولید کارخ ایرانیوں کی طرف موڑ دیا۔ الابلۃ کے مقام پرایرانی افواج اورمجاہدین اسلام کے درمیان حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں سب سے پہلامعرکہ برپاہواجس میں رب کائنات نے لشکراسلام کوفتح نصیب فرمائی اس کے بعدحضرت خالدبن ولیدؓ کوحضرت عیاض بن غنم کی امدادکاحکم ملاجوفتح عراق کے لیے روانہ کیے گئے تھے۔ حضرت خالدبن ولیدؓ ایک سال دوماہ عراق میں ہی رہے اورپندرہ جنگیں لڑیں سب میں فتحیاب ہوئے پھر یہاں سے آپ ؓ کویرموک پہنچنے کاحکم ملاتوآپ ؓ یرموک پہنچے جہاں انہیں تمام امرائے لشکر نے قائداعلیٰ منتخب فرمایااوررومی شہنشاہیت کے خلاف مجاہدین اسلام نے آپ ؓ کی قیادت میں فیصلہ کن معرکہ اپنے نام کر لیا۔ اسی جنگ کے دوران حضرت خالد ؓ کودربارِفاروقی سے معزول کردیاگیالیکن آپ ؓ نے کسی قسم کے ملال کااظہار کیے بغیرحضرت ابوعبیدہؓ کی قیادت میں شریک جہادرہے۔

حضرت خالد بن ولیدؓ جنگی فنون میں اپنے مثال آ پ تھے آپ کے عظیم کارنا موں کوتاریخ کے انمٹ نقوش میں آج بھی دیکھاجاسکتاہے۔ آپ ؓ کی وفات ۲۱ہجری میں ہوئی اس وقت آپ کی عمرساٹھ سال تھی۔ آپ ؓکی وفات بعض روایات میں حمص میں ہوئی اوربعض کے نزدیک مدینۃ المنورہ میں۔ وفات کے وقت آپ ؓ نے فرمایا۔ ’’میں نے تقریباًتین سوجنگیں لڑی ہیں میرے جسم کے ہرحصے میں کہیں تلوار، کہیں نیزے اورکہیں تیرکازخم لگاہے مگرشہادت سے محروم رہااورآج بستر پہ مر رہاہوں اللہ تعالیٰ بزدلوں کوکبھی چین نصیب نہ کرے۔ ‘‘آپ نے وصیت فرمائی کہ میرااسلحہ اورسواری کاگھوڑااللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے لیے وقف کردیاجائے اور ان کاکل اثاثہ ایک غلام ایک گھوڑااوراسلحہ تھا۔

حضرت خالدبن ولیدؓ کواللہ کے رسول ﷺ سے بے پناہ محبت تھی۔ آپ ؓ کے بارے میں رسول اللہ ﷺکافرمان ہے کہ ’’خالد کواذیت نہ دیناکیونکہ وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوارہے جسے اس نے کفار کے خلاف میان سے نکالاہے۔ ‘‘

افسوس کی بات ہے کہ آج کے اس دور میں آپ ؓ کے مزارپہ بمباری کی گئی اورآپ کے مزارکوشہیدکیاگیاجنہوں نے یہ کام کیاانہوں نے مسلمانوں ہی کے نہیں بلکہ گنبدخضریٰ میں ہمارے پیارے آقاکریم ﷺ کے دل کوتکلیف پہنچائی ہے۔ عالم اسلام اس سانحے پہ اپنامئوثرکرداراداکریں اوریکجہتی کے ساتھ اسلام دشمن کاروائیوں کوناکام بنائیں اسلامی ممالک کوایک اہم کرداراداکرناہوگاورنہ کل قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کومنہ دکھانامشکل ہوجائے گااللہ پاک دشمنان اسلام سے عالم اسلام کی حفاظت فرمائے(آمین)

تبصرے بند ہیں۔