مالیگاؤں بلاسٹ فیصلہ؛ کیا یہی انصاف ہے؟

 مالیگاؤں 2006 بم دھماکوں کے کیس میں بہت ساری قانونی داؤ پیچ ،ملزمین کی زندگی کے قیمتی سالوں کے زیاں ، ان کی جسمانی ذہنی اور نفسیاتی امعاشی ہراسانی اور پہلے ہی کام کے بوجھ اور پینڈنگ کیسس سے پریشان عدلیہ کے انمول وقت کی بربادی کے بعد اب فیصلہ آیا ہے اور دس سال کے لمبے عرصہ بعد آیا یہ فیصلہ وہی ہے جو مسلمان ابتدا سے کہتے آرہے ہیں ۔خصوصی مکوکا عدالت نے اس کیس میں مہاراشٹر اے ٹی ایس کے ذریعہ گرفتار کئے گئے تمام مسلم افراد پر درج مقدمہ خارج کردیا یہ کہتے ہوئے کہ ان کے خلاف جرم ثابت کر نے کے لئے کوئی ثبوت نہیں ہے اور انہیں بلی کا بکرا بنایا گیا (ہندوستان ٹائمز آن لائن 26،اپریل 2016) ۔ مالیگاؤں میں یہ دھماکہ 8ستمبر 2006 کو جمعہ کی نماز کے بعد حمیدیہ مسجد کے باہرعین اس وقت ہواجب لوگ نماز پڑھ کر باہر نکل رہے تھے ۔یہ کیس تفتیش کی چوں چوں کا مربہ رہا ہے نیز حکومت کی غیر ذمہ داری،ملزمین کو ہونے والی تکالیف کے تئیں بے حسی اور اصل مجرمین کا پردہ فاش کر نے میں غیر سنجیدگی کی اعلیٰ مثال ہے۔اس کیس کی تفتیش کی ابتداء مقامی پولس سے ہوئی تھی جس میں پتہ چلا تھا کہ ان دھماکوں میں بجرنگ دل یا لشکر دونوں گروہوں میں سے کوئی بھی ملوث ہو سکتا ہے۔یہ بھی کہا گیا تھااس سے پہلے بجرنگ دل نے پربھنی کی محمدیہ مسجد اور جالنا و پورنا کی مساجد میں بم دھماکے کے لئے بالکل اسی طرح کا طریقہء کار اختیار کیا تھا ۔ان دو افراد کے خاکے بھی جاری کر دئے گئے تھے جنہوں نے بم دھماکے میں استعمال کی گئی تین میں سے دو سائکلیں خریدی تھیں۔یہ بھی خبر آئی تھی کہ دھماکوں کے پانچ دن بعد پولس نے قصبہ کے ایک ہندو اکثریت والے محلے سے بیس افراد کو حراست میں لے لیا لیکن اس تفتیش کو آگے بڑھنے نہیں دیا گیا اور کیس مہاراشٹر اے ٹی ایس کے سپرد کردیا گیا اور اے ٹی ایس نے کچھ ہی دنوں میں مقامی پولس کی ابتدائی تفتیشی نکات سے یکثر مختلف تھیوری قائم کر لی اور کیس کو حل کر نے کا دعویٰ بھی کر لیا کہ سازش کے پیچھے سیمی کا ہاتھ ہے9،مسلم افراد کو ملزم بنایا گیا جن میں سے ایک پہلے ہی سے پولس کی حراست میں تھا اور بقیہ آٹھ بھی گرفتار کر لئے گئے پولس کا دعویٰ تھا کہ ان دھماکوں میں دو پاکستانی بھی ملوث تھے اور انہی میں سے ایک نے ان ملزمین کو جدید قسم کا بم بنانے میں مدد دی تھی۔ اس تفتیش میں مقامی پولس کے تفتیشی نکات کا کوئی ذکر نہیں تھا ،نہ ان اس کے ذریعہ جاری کئے گئے خاکوں پر روشنی ڈالی گئی اور نہ ہی یہ معلوم ہوا کہ اس کے ذریعہ گرفتار کئے بیس افراد کا کیا ہوا ؟خیراے ٹی ایس نے اپنی مذکورہ تفتیش کے مطابق دسمبر 2006 یعنی دھماکوں کے تین مہینے بعد ہی چارج شیٹ داخل کردی ۔لیکن حکومت نے اسی چارج شیٹ پر مقدمہ چلانے کی بجائے فوراً بلکہ اسی دن اس کیس کو تیسری تفتیش کے لئے سی بی آئی کے سپرد کردیا ۔ پہلے تو سی بی آئی نے اے ٹی ایس ہی کی لائن پر تفتیش کی لیکن کیس دئیے جانے کے چارسال بعدجب اس نے اسیمانند کے اعتراف کی روشنی میں صحیح خطوط پر تفتیش شروع کی ہی تھی کہ کیس نیشنل انویسٹٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے )کے سپرد کر دیا گیا این آئی نے سجب اس معاملہ کی تفتیش کی تو اس میں ہندوتوا وادی دہشت گردوں کا ہاتھ نکل آیا اور اسے مسلم ملزمین کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا سو اسنے یہ کیا کہ مسلم ملزمین کی درخواست ضمانت کی مخالفت نہیں کی اور اس طرح انہیں ضمانت پر رہائی نصیب ہوئی۔جس کے بعد ان ملزمین نے خصوصی مکوکا عدالت میں ان پر لگائے الزامات خارج کر نے کی درخواست دائر کی تھی جسے قبول کرتے ہوئے معزز عدالت نے ان تمام ملزمین پر درج مقدمہ خارج کرنے کے احکامت دیتے ہوئے نہ صرف ان کے خلاف شواہد کی کمی کا اعلان کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ انہیں ’بلی کا بکرا ‘ بنایا گیا ۔ معزز عدالت کا یہ فیصلہ خوش آئند ہی نہیں بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ ملک میں جہاں پولس اور تفتیشی ایجنسیوں کی من مانی اور مسلم مخالف تعصب عام ہوتا جارہا ہے وہیں عدالتی نظام قانون کی مکمل اور غیر جانبدار پا بندی کرتے ہوئے فیصلے کررہا ہے ۔ لیکن اب سوال اٹھتا ہے کہ پانچ سال جیل کی اذیت ناکی اور دس سال کی ذہنی اسیری کے بعد کیااب بریت ہی ان ملزمین کے لئے انصاف ہے؟کیا اسے مکمل انصاف کہا جاسکتا ہے؟اگر یہی مکمل انصاف ہے توان بے قصوروں کوبلی کا بکرا بنا کر ان کی زندگی کے قیمتی سالوں کو جیل کی نظر کر نے والوں ان کا کرئیر تباہ کر نے والوں انہیں جسمانی ذہنی نفسیاتی اور معاشی ہراسانی سے دوچار کر نے والوں،ان کے خاندانوں کو اذیت ناک دور سے گزارنے والوں اور سب سے بڑی بات کہ ان کے حوالے سے پوری مسلم قوم پر دہشت گردی کا داغ لگانے والوں کا کیا؟ قابل صد احترام جج صاحب نے اس ضمن میں کہا ہے کہ ’ میرے خیال سے انہوں( اے ٹی ایس ) نے اپنا فرض ادا کیا لیکن غلط طریقہ سے ، جس کے لئے اسے مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ہم معزز عدالت اور عزت مآب جج صاحب کا احترام کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس کیس میں ملزمین میں سے ایک ’وعدہ معاف گواہ ‘ کا جو معاملہ ہوا وہ بتاتا ہے کہ اس میں ایٹی ایس نے جان بوجھ کر ان ملزمین کو پھنسا یا جیسا کہ اس وعدہ معاف گواہ نے ممبئی ہائی کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کر کے مہاراشٹر پولس کے ایک سپرینٹینڈنٹ پر الزام لگایا تھا کہ اس نے اسے قید کیا اور پیسوں (کی لالچ )کے ذریعہ بقیہ ملزمین کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے پر آمادہ کیا۔اسی طرح اس نے اے ٹی ایس اور سی بی آئی کے بھی کچھ افسروں پر یہی الزام لگایا تھا ( ہندوستان ٹائمز آن لائن 3،اکتوبر 2009) اسی طرح اس نے اے ٹی ایس کے کچھ افسروں پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے اس کے سسرال والوں کے ساتھ مل کر بلاسٹ کیس میں مسلم نوجوانوں کو پھنسا نے کی سازش کی ہے ( امید ڈاٹ کام 25،اپریل 2009)۔ہمارے خیال سے اس کیس میں مکمل انصاف اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اس وعدہ معاف گواہ کے ذریعہ پولس اور اے ٹی ایس پر لگائے گئے مذکورہ الزامات کی مکمل تفتیش نہ ہوتاکہ یہ معلوم ہو کہ آیاپولس نے اس معاملہ میں محض اندازے کی غلطی سے ان مسلم نوجوانوں کو بلی کا بکرا بنایا تھا یا جان بوجھ کر اپنے فرائض سے کوتاہی کرتے ہوئے اور مسلمانوں کے تئیں تعصب کی وجہ سے یا کسی اعلی سرکاری یا سیاسی قائد کے حکم پر ایسا کیا تھا ۔اگر یہ پولس کی محض اندازے کی غلطی ہے تو بھی کوئی معمولی غلطی نہیں ہے اس غلطی نے بے قصوروں کی زندگی برباد کردی ہے اور اگر پولس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تو اسے تو قانونی سزا ملنی ہی چاہئے یہی انصاف کا تقاضہ ہے اور اس کے بغیر انصاف مکمل بھی نہیں ہوگا۔ اسی طرح اس معاملہ میں سی بی آئی کے رول کی بھی جانچ ہونی چاہئے کہ اس معاملہ میں اسکا رویہ بھی کافی غیر ذمہ دارانہ رہا ہے ۔سی بی آئی نے بھی پہلے تو اس معاملہ میں اے ٹی ایس ہی کی تحقیق کو درست قرار دیتے ہوئے ملزمین کو جوں کے توں باقی رکھا لیکن اسیمانندکے اعتراف کے بعداس نے اس معاملہ کی دوبارہ تحقیق کی اوردعویٰ کیا ’کہ اس وقت کے اے ٹی ایس افسر وں نے چشم دید گواہوں کو نظر انداز کر کے اسی تھیوری پر عمل کر نے کی کوشش کی جو کچھ افسروں نے بظاہر اس لئے گڑھ لی تھی تا کہ اس کیس کو جلدی سے حل کر کے بند کر لیا جائے۔سی بی آئی کچھ افسروں سے بھی پوچھ تاچھ کرنے والی ہے جن میں اس وقت کے ناسک (دیہی علاقے) کے ایس پی راج وردھن اور اے ٹی ایس کے افسر بھی شامل ہیں(آؤٹ لک آن لائن ،6 مارچ 2011 )‘ہمارے خیال سے مکمل انصاف کے لئے پہلے تو سی بی آئی سے یہ معلوم کیا جانا چاہئے اس نے ابتداء ہی سے آزادانہ تفتیش کی بجائے اے ٹی ایس کی لائن پر ہی تفتیش کیوں کی تھی؟ اور دوسرے یہ کہ ملک کی باوقار اور پیشہ ور تفتیشی ایجنسی ہونے کے باوجود اسے صحیح تفتیش کے لئے اسیمانند کے اعتراف کی ضرورت کیوں پڑی ؟ یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا سی بی آئی کی صلاحیتیں ماند پڑ گئیں؟اسی طرح سی بی آئی نے دوسری تفتیش میں پولس اور اے ٹی ایس کے جن افسروں پر کوتاہی کا الزام لگایا تھا اور جن سے پوچھ تاچھ کر نے کا عندیہ دیا تھا ان سے پوچھ گچھ بھی ہونی چاہئے تاکہ مسلم ملزمین کی گرفتاری میں انکی نیت اور رول کا پتہ چل سکے۔اسی طرح مسلم ملزمین کے ڈسچارج کے معاملہ میں این آئی اے نے اپنا جو رویہ بدلا ہے اس کی بھی جانچ ہونی چاہئے کہ آیا یہ کسی قانونی پہلو کی وجہ سے ہے یا حکومت یا کسی اعلی سطحی دباؤ کی وجہ سے۔ خاص طور سے پچھلے دنوں مالیگاؤں 2008 ،بم دھماکہ کیس میں نرم رویہ اپنانے کے مشورہ یا حکم پر سرکاری وکیل محترمہ روہینی سالیان کے ذریعہ این آئی اے افسر پر لگائے الزام کے بعداس معاملہ میں بھی این آئی اے کے یو ٹرن کی جانچ ضروری ہے ۔واضح رہے کہ شروعات یعنی اپریل 2014 میں این آئی نے اس معاملہ میں ملزمین کی ڈسچارج اپیل کی یہ کہتے ہوئے حمایت کی تھی کہ اے ٹی ایس اور سی بی آئی کے ذریعہ اخذ کئے گئے نتیجے کی حمایت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔لیکن دو سال بعدیعنی اپریل 2016 میں این آئی اے نے خود اپنی ہی تفتیش کو اے ٹی ایس اور سی بی آئی سے متضاد کہتے ہوئے ملزمین کے ڈسچارج کی مخالفت پر اتر آئی۔اسی طرح ان ملزمین کو مکمل انصاف کی فراہمی کے لئے ان کی جسمانی ذہنی نفسیاتی اور معاشی نقصان کی بھرپائی بھی ضروری ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ معزز عدالت نے مذکورہ تمام نکات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔