آگسٹاویسٹ لینڈ تنازعہ کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں؟

اس سے پہلے کہ ہم پارلیمنٹ میں مچے گھمسان پر لب کشائی کریں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایوان کاروائی کی تھوڑی سی جھلک پیش کردی جائے ،اس کے بعد اصل صورت حال کاتجزیہ سامنے لایا جائے۔ چناں چہ یو پی اے کے دور حکومت میں آگسٹا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹر سودے میں رشوت کے انکشاف پر آج راجیہ سبھا میں زبردست شور و غل کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ کانگریس کے ارکان احتجاج کرتے ہوئے ایوان کے وسط میں جمع ہوگئے۔ انہو ں نے ایوان کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالی، جس کی وجہ سے دوپہر کے کھانے سے پہلے تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے دوبار کارروائی ملتوی کی گئی۔ کانگریس کے ارکان نامزد ممبر ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کی طرف سے ہیلی کاپٹر سود ے میں کانگریس صدر سونیا گاندھی کا نام لئے جانے پر اعتراض کررہے تھیکہ اسی دوران کانگریس کے سبھی ارکان سوامی کی مذمت کرتے ہوئے چیئرمین کی کرسی کے سامنے جمع ہوگئے۔ ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے کہا تھا کہ اٹلی کے ایک ایجنٹ نے اٹلی میں میلان کی ایک عدالت میں اپنے بیان میں ہندوستان کے ان لوگوں کے ناموں کا انکشاف کیا ہے جنہوں نے اس سودے میں رشوت لی تھی۔بہرحال اس وقت تک اس الزام کی حیثیت مشکوک رہے گی جب تک سوامی ان ناموں کو عام نہ کریں ،جن کے بارے انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سودے کیلئے موٹی رشوت کس نے لی تھی۔اگر سوامی کا یہ الزام دلیل کی کسوٹی پر پورا اتر تا تو شاید وہ پارلیمنٹ ناموں کو سامنے لانے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔یہیں سے یہ اندیشہ تقویت پاتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔تقریباً2013سے ہی جانچ کے دائرے میں چل رہے اس تنازع پر پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کے دوسرے مرحلے میں جبکہ بی جے پی کو ملک میں قیامت ڈھارہی خشک سالی ،اتراکھنڈ میں منمانے طریقے سے ایک جمہوری حکومت کو گرانے اورسرکاری مشنریز کا اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے جیسے ڈھیروں مسئلے پر جواب دینے کا خوف مسلط تھا،علاوہ ازیں راست طور پر عوامی مفادات سے وابستہ کئی قیمتی بلوں کی منظور کیلئے مثبت قدم اٹھانے ضروری تھے۔ایسے میں سارے مثبت امورکو پس پشت ڈال کر ایک ایسے تنازعے کو پارلیمنٹ میں ہوادینے کی روش بتا رہی ہے کہ بی جے پی اور این ڈی اے سرکار اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے اورمتنازعہ امور پر پارلیمنٹ میں جواب دینے سے بچنے کی غرض سے گڑے مردے اکھاڑنے کا کام کررہی ہے۔یہ کسی کانگریسی لیڈر کی تشویش نہیں ہے،بلکہ حالیہ برس ملک میں جو ہنگامی کیفیات پیداکی گئی ہیں ،مہنگائی کے جن کو بے مہار چھوڑ دیا گیا ہے،اورغریبوں کی جیبوں پرڈاکے ڈالنے کیلئے انہیں روزی روٹی سے محروم کرنے کیلئے کارپوریٹ گھرانوں کو سبزی ترکاری کی وی آئی پی دکانیں آراستہ کرنے کی جوعام اجازت دی گئی ہے ،یہ ساری بے چینیاں عوام کو بی جے پی کیخلاف متنفر کررہی ہیں۔ظاہر سی بات ہے راست طور پر ملک کے 85فیصد غریب اور متوسط طبقہ کے مہنگائی سے اضطراب کے مسئلہ کو بھی حزب اختلاف پارلیمنٹ میں اٹھا سکتا تھا۔شاید وہی اسباب ہیں جنہوں نے بی جے پی کو آگسٹا ویسٹ لینڈ جیسے زیر سماعت مسئلے کو اچھالنے پر مجبور کیا ہے۔
سوامی نے جس مسئلہ کو ابھی پارلیمنٹ میں داخل ہوتے اچھالا ہے یہ موقع اس لئے بھی غیر مناسب تھا کہ کسی رکن کے ایوان میں آنے کا پہلا دوسرا دن مبارکبادیوں ،خیرسگالیوں اوراظہار اعتماد کا تقاضہ کرتا ہے ۔مگر سبرامنیم سوامی کے تیور نے یہ پیغام دیاکہ یہ ساراکھیل بالکل منظم طریقے رچا گیا تھا اورہیرو کے طور پر سوامی کو پیش کیا گیا۔
اسی ہنگامہ خیز بیان بازی کے دوران بی جے کورین نے ارکان سے پرسکون رہنے اور کارروائی چلنے دینے کی اپیل کی۔ پارلیمانی امور کے وزیر مملکت مختار عباس نقوی نے کہا کہ یہ افراتفری ہے اورسوامی کو اس کے بولنے کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ہنگامہ تھمتے نہ دیکھ کرکورین نے پانچ منٹ کے اندر ہی اجلاس کی کارروائی دوپہر بارہ بجے تک کیلئے ملتوی کر دیی۔اس سے پہلے جب اجلاس دس منٹ کے لئے ملتوی ہوا تو بی جے پی رکن کانگریسکوسخت رد عمل کے واسطے اکسانے کے لئے سبرامنیم سوامی کو مبارکباد دیتے ہوئے دیکھے گئے۔کیا مبارکباد دینے کا یہ عمل اس بات کی غمازی نہیں کررہا ہے اس وقت ہماری پارلیمنٹ میں عوام کے مفادات کیلئے این ڈی اے سنجیدہ نہیں ہے؟
اس کاثبوت کل خود ایوان کے اندر بی جے پی کے مؤقر مرکزی وزراء نے پیش کیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ اسی ہنگامہ آرائی کے دوران وزیر دفاع منوہر پاریکر نے سبرامنیم کے پاس جا کر ان سے بات کی۔فروغ انسانی وسائل کی وزیراسمرتی ایرانی نے بھی سوامیسے بات کی۔ اس دوران کانگریس کے سینئر لیڈر آنند شرما اور ایوان کے لیڈر اور وزیر خزانہ ارون جیٹلی چیئرمین کے کمرے میں گئے۔ اجلاس شروع ہونے سے کچھ پہلے پارلیمانی امور کے وزیر مملکت مختار عباس نقوی سوامی کو الگ لے جا کر ان سے کچھ کہتے دیکھے گئے۔ دوسری بار اجلاس ملتوی ہونے کے بعد جیٹلیبھی سبرامنیم کے ساتھ بات کرتے دیکھے گئے۔ ہنگامے کے دوران سابق وزیر دفاع اے کے انٹونی نے کہا کہ سوامی اپنی بات پوری کر لیں، پھر وہ اپنا موقف رکھنا چاہیں گے۔مگر انہیں موقع نہیں دیا گیا اوروضاحت پیش کرنے سے پہلے ہی بی جے پی کی جانب سے ہنگامہ شروع کردیا گیا۔
قابل ذکر ہے کہ وی وی آئی پی ہیلی کاپٹر سودا جب ہوا تھا تب انٹونی ہی وزیر دفاع تھے۔ اجلاس شروع ہونے پر اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد نے ایک انگریزی اخبار میں آئی خبر کا ذکر کرتے ہوئے حکومت سے جاننا چاہا کہ کیا وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ سال ستمبر میں اپنے اطالوی ہم منصب کے ساتھ کوئی میٹنگ کی تھی۔ انہوں نے پوچھا کہ اگر میٹنگ ہوئی تھی تو کیا وزیر اعظم نے ہیلی کاپٹر سودے میں گاندھی خاندان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بدلے میں دو اطالوی مرینوں کو رہا کرنے کی پیشکش کی تھی۔آزاد نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ آ گیا ہے اور اب این ڈی اے حکومت اطالوی مرینوں کو وطن جانے کی اجازت دے رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اطالوی حکومت کے ساتھ وزیر اعظم نے کوئی سودا ضرور کیاہے۔ایوان میں اپوزیشن کے لیڈر نے کہا کہ کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت نے ہیلی کاپٹر سودے میں رکاوٹ کی خبریں آنے کے بعد سال 2013 میں اس سودے کو منسوخ کر دیا تھا اور سی بی آئی اور ای ڈی کو بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا جو تادم تحریر جاری بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت حکومت نے بنک گارنٹی ضبط کر لی تھی اور ادا کی جا چکی رقم بھی واپس کر لی تھی۔ تب تک معاہدے کے تحت تین ہیلی کاپٹر مل چکے تھے، جنہیں واپس نہیں لوٹایا گیا۔آزاد نے یہ بھی کہا کہ اس وقت یو پی اے حکومت نے اطالویکمپنیکو بلیک لسٹ میں ڈال دیا تھا، لیکن مودی حکومت نے اسے اس فہرست سے باہر کر دیا۔انہوں نے الزام لگایا کہ اب یہ کمپنی مودی حکومت کی ‘میک ان انڈیا’ مہم کا حصہ ہے۔ جیٹلی نے آزاد کے سوال کے جواب میں کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے اطالوی ہم منصب کے درمیان ملاقات کی خبریں پوری طرح غلط اور حقیقت سے پرے ہیں۔ وزیر خزانہ جیٹلی نے کہا کہ ایسی کوئی ملاقات، کبھی نہیں ہوئی۔جیٹلی نے میڈیا کی اس خبر کو غلط بتایا کہ گاندھی خاندان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بدلے میں مودی نے اطالوی مرینوں کو جانے دینے کی پیشکش کی تھی۔مگر ارون جیٹلی نے اس انکشاف کی تردید میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جس میں کہا گیا ہے کہ مودی نے اطالوی حکومت سے ڈیل کی تھی اور ان کے مرینوں کے چھوڑ دینے کے عوض آگسٹا لینڈ معاملے میں سونیا گاندھی کا نام شامل کرنے کی شرط رکھی تھی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دفاع سودا حاصل کرنے کے لئے رشوت دیے جانے کے سنگین الزامات ہیں اور رشوت دینے والے کو مجرم بھی ٹھہرایا جا چکا ہے اور اب رشوت لینے والے کی شناخت کی جانی ہے۔مگر این ڈی اے تقریباًدوبرسوں سے برسر اقتدار ہے ،اس دوران اس نے سی بی آئی ،ای ڈی اوراس جیسی سبھی تحقیقاتی ایجنسیوں پر کمانڈ حاصل کرلیا ہے ۔ایسے میں تو ایک اشارے میں ہی سی بی آ ئی سے رشوت لینے والے کا نام حاصل کیا جاسکتا تھا۔دریں اثنا کانگریس کو آگسٹا ویسٹ لینڈ معاملے میں کرپشن کے الزامات پر حاشیہ پر کرنے کی کوشش میں بی جے پی نے آج اپوزیشن پارٹی سے وضاحت طلب کی، جبکہ کانگریس نے جوابی وار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیوں مودی حکومت نے اس فرم کو بلیک لسٹ پر ڈالنے کے عمل کو منسوخ کردیا۔ کانگریس پر لفظی حملہ کرتے ہوئے پرکاش جاوڈیکر نے کہا کہ آگسٹا ویسٹ لینڈ کیس میں جو کچھ انکشاف ہوا، وہ ’’بہت اہم اور نہایت سنگین‘‘ ہے اور یہ کہ کانگریس کی طرف سے وضاحت ہونی چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کو درہم برہم کرنے کی بجائے کانگریس کو احتساب کرنا چاہئے کہ انھوں نے اس ملک کیلئے کیا کیا ہے اور وضاحت کرنی چاہئے کہ اس کیس میں اْن کے قائدین کا کیا رول ہے۔ تاہم، کانگریس ترجمان رندیپ سرجے والا نے جواباً کہا کہ اگر اس معاملے پر کسی کو سوالات کے جواب دینا ہے تو وہ مودی حکومت ہے۔سرجے والا کے دعوے میں اس لئے بھی دم خم ہے کہ کسی مجرمانہ معاملے میں ثبوت یاوضاحت ملزم سے نہیں مانگے جاتے ،بلکہ جس کے ہاتھ میں اقتدار کی باگ ڈور ہوتی ہے انہیں ہی اپنی جانچ ایجنسیوں کے ذریعہ سچ یا جھوٹ کا پتہ لگا نا ہوتاہے۔مگر یہ غیرآئینی اور سیاسی الزام تراشی تو اسی جانب ہی اشارہ کرتی ہے کہ حکومت عوام کے سوالوں سے جان چھڑانے کیلئے ہی پارلیمنٹ میں مثبت کام کرنے کا رادہ نہیں رکھتی۔
مرکزی حکومت سے بڑھتے ہوئے تصادم کے درمیان کانگریس نے اعلان کیا ہے کہ وہ چھ مئی کو پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرے گی تاکہ اتراکھنڈ کے سیاسی بحران، خشک سالی کے حالات اور اپوزیشن کے خلاف چلائے جا رہے فراڈ اور جان بوجھ کر جھوٹ سے بھری مہم کو عوام کے سامنے بے نقاب کیاجاسکے۔کانگریس سربراہ سونیا گاندھی، نائب صدرراہل گاندھی اورکئی لیڈر اورکارکن اگلے جمعہ کو جنتر منتر سے مارچ شروع کر پارلیمنٹ کا گھیراؤ کریں گے۔پارٹی کے ترجمان رندیپ سرجیوالا نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’جمہوریت بچاؤ مارچ ‘‘ میں پارلیمنٹ کاگھیراؤ کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ عوام کی جانب سے منتخب کی گئی حکومتوں کوگرانے کی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کی کوششوں،جیسا کہ اروناچل پردیش اور اتراکھنڈ کی’’سازشوں‘‘میں دیکھا گیا، کے پیش نظر یہ فیصلہ کیاگیاہے۔سرجے والا نے کہا کہ خشک سالی کے حالات اور زراعت بحران کی طرف توجہ دلانے کے لئے بھی یہ مارچ کیاجارہاہے۔انہوں نے کہا کہ زراعتی بحران کی وجہ سے کسانوں کی خودکشی میں کافی اضافہ ہو گیا ہے اورتقریباََ40کروڑلوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں۔اس قیامت خیزی میں متاثرین کے آنسو پونچھنے کیلئے حکومت کو کچھ انقلابی اور مستحکم قدم اجلاس میں ہی اٹھانے کی ضرورت تھی۔مگر مثبت پالیسی کے فقدان نے حکومت کو گڑے مردے اکھاڑ نے پر مجبور کردیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔