30 اپریل کا کلکتہ کتنا مختلف تھا

پُر امن ماحول اور چہل پہل کا دن 

اپریل کے دوسرے ہفتہ میں جب راجیو کمار کو کلکتہ پولس کمشنر کی حیثیت سے الیکشن کمشنر نے ہٹایا تو ممتا حکومت کے چیف سکریٹری نے الیکشن کمشنر کو نہایت عامیانہ خط لکھا کہ ’’پولس کمشنر کلکتہ کا ٹرانسفر کا اثر پولس کے مورل (اخلاق) پر بہت برا پڑے گا اور اس سے جو گراوٹ اور خرابی پیدا ہوگی اس کی ذمہ داری ریاستی حکومت پر نہیں ہوگی‘‘۔ چیف سکریٹری باسو دیب بنرجی نے جو کچھ لکھا تھا بالکل اس کے برخلاف ہوا۔ پولس کا مورل بلند تھا۔ پولس نڈر ہوکر اپنے فرائض کو پورا کر رہی تھی۔ جانب داری اور طرف داری کو برطرف کر دیا تھا جس کی وجہ سے حکمراں جماعت کو کسی قسم کے تشدد کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس طرح کلکتہ پولس کے چیف سکریٹری کے خدشات کو عملاً باطل ٹھہرایا اور یہ دکھا دیا کہ اگر پولس کمشنر غیر جانبدار ہو نظم و نسق کو نافذ کرنا چاہتا ہو اور حکومت کے لوگوں کی مداخلت نہ ہو تو حالات کیسے پر امن رہ سکتے ہیں اور رائے دہندگان بلا خوف و تردد کیسے اپنی رائے کا آزادانہ استعمال کرسکتے ہیں۔ 
محترمہ ممتا بنرجی کے بھتیجے اور حکومت اور حکمراں جماعت میں نمبر 2 مسٹر ابھیشیک بنرجی نے مرکزی فورسز پر الزام عائد کیا تھا کہ فورسز کی طرف سے حالات کو بگاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی وجہ سے یہاں الیکشن میں لوگوں کا جو جو ش و خروش کا مزاج (Festive mood) ہوتا ہے اس کا ستیا ناس ہورہا ہے۔ ابھیشیک بنرجی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے سب سے قریبی سمجھے جاتے ہیں اور حکومت یا حکمراں جماعت کے معاملات میں بے خوف و خطر مداخلت کرتے ہیں۔ ترنمول کانگریس کے پرانے لیڈر یا حکومت کے سینئر وزراء ان کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ بڑے سے بڑے ان کے اشارہ کے محتاج ہوتے ہیں۔ چیف سکریٹری کی طرح ابھیشیک بنرجی کی بات بھی غلط ثابت ہوئی۔ سڑکوں پر اس قدر چہل پہل تھی کہ بعض مقامات پر نوجوان کرکٹ کھیلتے نظر آئے۔ جس فیسٹیو موڈ(Festive mood)کی بات موصوف چارہے تھے وہ تو نہیں ہوا یعنی دنگا فساد، بوتھ پر قبضہ یا دھاندلی، مستانی یا غنڈہ گردی مگر لوگ بیحد خوش تھے اور کلکتہ کو اسی روپ میں دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ چیف سکریٹری اور ابھیشیک بنرجی نے بھی گھوم پھر کر دیکھا ہوگا کہ کلکتہ بالکل بدلا ہوا تھا۔ 
* محترمہ ممتا بنرجی کی رہائش گاہ سے 300 میٹر کی دوری پر ہریش مکھرجی روڈ پر ایک پولس افسر نے دلیری اور ہمت سے کام لیتے ہوئے ترنمول کانگریس کے ایک آفس کو جو پولنگ بوتھ سے قریب تھا ہٹایا اور کسی کی پرواہ نہیں کی۔ 
* ایک ہوم گارڈ نے گارڈن ریچ میں ترنمول کانگریس کے ایک گروہ (Gang) جو بوتھ کے قریب جمگھٹا لگایا تھا اسے زور دار طریقے سے بھگایا اور بھگاکر ہی دم لیا۔ 
* پورٹ ایریا میں جہاں سے فرہاد حکیم الیکشن لڑ رہے ہیں تشدد پسندوں کا ایک گروپ جو طاقت کا استعمال کرنا چاہتا تھا اسے سادہ لباس میں ملبوس پولس افسر نے ڈانٹ پھٹکار کر بھگایا۔
* جادو پور میں ایک کانسٹبل نے دو چکے والی گاڑی کو پولنگ بوتھ کے قریب رکھنے سے منع کیا۔ ہیلمٹ کے بغیر بائیک چلانے والے سڑکوں سے غائب تھے۔ 
الیکشن کمشنر نے پر امن الیکشن پر زور دیا۔ پولس کمشنر نے ذمہ داری قبول کی اور تھانوں اور پولس افسران کو ایسا حکم دیا کہ سب کے سب بے خوف و خطر ڈیوٹی پر لگ گئے۔ انہونی کو ہونی کرکے دکھایا۔ 
سنٹرل فورسز کی مقامی پولس نے رہنمائی کی اور ان کے کاموں میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی۔ انھیں آزادی سے اپنی ڈیوٹی انجام دینے دیا۔پولس کمشنر سومن مترا کا حکم نامہ یا سرکلر نیچے سے اوپر تک کے لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ کمشنر کسی قسم کی جانبداری برداشت نہیں کرے گا۔ 
ایک پولس افسر نے بتایا کہ پولس کمشنر کا کہنا تھا ’’آپ لوگ اپنے کام کو بے خوف و خطر اور غیر جانبداری کے ساتھ کریں۔ ہمیں دکھانا ہے کہ ہم کلکتہ پولس کے لوگ ہیں اور ہم کلکتہ کو پر امن رکھ سکتے ہیں۔ پر امن انتخاب کراسکتے ہیں‘‘۔ 
عام طور پر حکومت کے دباؤ کی وجہ سے پولس افسران اس قسم سے اپنے ماتحتوں کو نہ کہتے ہیں اور نہ اشارہ کرتے ہیں مگر پولس کمشنر کلکتہ سے جو امید تھی وہ پوری ہوئی۔ کمشنر یا بڑے عہدیداروں کو اسی طرح بے خوف و خطر کام کرنا چاہئے۔ جنوبی کلکتہ کے ایک ایڈیشنل افسر نے بتایا کہ ’’پولس کمشنر نے ہم لوگوں پر واضح کر دیا کہ ہم لوگ الیکشن کمشنر کی ماتحتی میں الیکشن ڈیوٹی انجام دیں گے اور بے خوف و خطر دیں گے اور نتائج سے بھی بالکل بے پروا ہوکر دیں گے‘‘۔ 
’’کمشنر کی ہدایت اور ان کا انداز و بیان اور باڈی لنگویج (Bodey Language) اور سنجیدگی ایسی تھی کہ ہم سب کو یقین ہوگیا کہ وہ ہماری پشت پر رہیں گے، اگر کوئی سیاسی انتقام لینے کی کوشش کی گئی‘‘ افسر نے کہا۔ کمشنر کی ہدایت پر پولس افسران نے تھانوں میں میٹنگیں کیں۔ کانسٹبل یہاں تک کہ ہوم گارڈ نے میٹنگوں میں شرکت کی۔ جمعہ کی رات میں 3,273 بائیکس (Bikes) کو پولس نے اپنے قبضہ میں کرلیا۔ وجہ تھی کہ بائیکس پر سوار ہوکر دہشت پھیلانے والے بہت سے افراد تیار بیٹھے تھے۔ یہ سب کچھ دوسری جگہوں میں جب کوئی بڑا پروگرام یا تقریب ہوتی ہے تو کیا جاتا ہے مگر یہ سب پولس کو مغربی بنگال میں کرنے کی ممانعت تھی۔ الیکشن کے خاتمہ پر جوائنٹ پولس کمشنر سپرتین سرکار نے کہاکہ ’’ہم لوگوں کا مقصد تھا پُر امن الیکشن کرانا، اس میں ہمیں کامیابی ہوئی۔ اس طرح دیکھا جائے تو 30 اپریل کے دن کا ’مین آف دی میچ‘ پولس کمشنر سومن مترا تھے۔ 
محترمہ ممتا بنرجی نے راجیو کمار کے ہٹانے پر الیکشن کمشنر پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج کمشنر کو ہٹایا جارہا ہے پھر ہم اسے اسی جگہ لائیں گے۔ یہ بات انتہائی غلط تھی۔ ایک تو اس لئے کہ جو ڈیوٹی پر فائز ہوا اس سے اس کی حوصلہ شکنی ہوسکتی تھی۔ دوسری بات یہ تھی کہ راجیو کمار اسٹنگ آپریشن کے معاملے میں ذمہ دار قرار دیئے گئے تھے جو ایک بڑے افسر کی شایان شان نہ تھی۔ راجیو کمار جب مارکسی حکومت کے زمانے میں مرکزی کلکتہ کے ڈی سی تھے تو انھوں نے ایک اچھے پولس افسر ہونے کا مظاہرہ کیا تھا مگر آہستہ آہستہ وہ بھی برے ماحول میں رنگ گئے۔ بدھان نگر میں، شاردا کے معاملے میں جو جانبداری دکھائی اس سے حکومت کی نظر میں اونچے ضرور ہوگئے مگر عوام کی نظر میں گر گئے تھے۔ سرکاری اہلکاروں میں اب بہت کم لوگ ایسے رہ گئے ہیں جو نتائج سے بے پروا ہوکر کام کرتے ہیں۔ سومن مترا نے نتائج سے بے پروا ہوکر کام کیا، خواہ اس کا جو بھی انجام ہو مگر کلکتہ پولس کمشنر کی تاریخ میں ایک اچھے اور ذمہ دار پولس افسر کی حیثیت سے جانے جائیں گے۔ یہی کسی انسان کی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتا ہے جو بڑی مشکل سے اس کے ہاتھ آتا جو خوش نصیب ہوتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔