متھرا شہر کی حالت زار، یوپی کا جنگل راج

عبدالعزیز
گزشتہ 2جون کو یوپی کے متھرا شہر کے مرکزی علاقہ کے ایک پارک جواہر باغ میں پولس اور رام بریکش یادو کی ’سوابھین دھین سبھا سینا کی مڈبھیڑ میں جو کچھ ہوا وہ کسی جنگل ہی میں ممکن ہوسکتاہے۔ 27 افراد ہلاک ہوئے جس میں ایک ڈی ایس پی اورتھانہ کا افسر انچارج اور کئی پولس اہلکار شامل ہیں۔ اس پارک کی زمین جو 280 ایکڑ پر محیط ہے، جس پر گزشتہ دو سال سے نام نہاد سینا کا غاصبانہ قبضہ ہے۔ مدھیہ پردیش سے لوگ دہلی کی ایک ریلی سے واپس آتے ہوئے تین ہزار افراد دو دن کیلئے پڑاؤ ڈالے تھے اورپھر آہستہ آہستہ جواہر باغ کو نہ صرف اپنا ٹھکانا یا اڈہ بنالیا بلکہ اسکول، دکان، اور مارکیٹ تک کھول دیا۔ بم فیکٹری بھی شروع کر دی۔ اس طرح اتر پردیش میں ایک متوازی حکومت قائم ہوگئی۔ پولس، انتظامیہ ، حکومت سب نے اپنی آنکھیں اور کان بند رکھے اور دھڑلے سے جواہر باغ میں جرائم کی آماجگاہ بن گئی۔ متھرا کے ایک وکیل تومر اگر عدالت کا سہارا نہ لیتے تو یہ کاروبار اکھلیش حکومت میں یونہی چلتا رہتا۔ یہ سب کسی پاگل حکومت میں ہی ممکن ہوتا ہے۔ جمہوری حکومتوں میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسے انٹلیجنس ایجنسی (خفیہ اہلکار کا شعبہ) کی ناکامی ہر گز نہیں کہی جاسکتی ہے۔
ہر ضلع میں لوکل انٹلیجنس یونٹ (LIU) ہوتا ہے جو ڈپٹی ایس پی یا ایس پی رینک کے افسرکی ماتحتی میں کام کرتا ہے جو ضلع کے ایس پی کی آنکھ اور کان کا کام انجام دیتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ خفیہ محکمہ کی آنکھ سے جرائم کا اتنا بڑا اڈہ چھپا ر ہے۔ خفیہ یونٹ کی ہر روز ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ اپنے سے بڑے افسر کو رپورٹ پیش کرے۔ کہا جارہا ہے کہ محکمہ خفیہ اپنی رپورٹ روزانہ بھیجتا رہتا تھا۔ تقریباً بیس خطوط اور درخواستیں بھی پولس افسران اور حکومت کے ذمہ داروں کو متھرا کے تعلیم یافتہ افراد بھیجتے رہے مگر کسی قسم کی کارروائی نہیں ہوتی تھی۔ پولس کا کہنا ہے کہ جب بھی وہ پارک کی سینا پر انگشت نمائی کرتے یا ان سب کو گرفت میں لینے کی کوشش کرتے تو لکھنؤ سے فون آجاتا کہ ان کے ساتھ نرم رویہ اپنایا جائے۔ جب مقامی انتظامیہ نے پانی کی سپلائی روک دی اور بجلی کنکشن کاٹ دیا تو فوراً لکھنؤ سے فون آیا کہ بجلی کی لائن جوڑ دی جائے اور پانی کی سپلائی میں رخنہ نہ ڈالا جائے۔ ان باتوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جواہر باغ میں جو سینا تھی وہ ملائم سنگھ کی سینا تھی جو اپنے کسی خاص کام کیلئے پال رکھا تھا۔ ملائم سنگھ بھی یادو ہیں اور سینا کے سینا پتی بھی یادو تھے اور انھیں بھگوان کا روپ بھی دے دیا گیا تھا۔ یادو جی کو ’’جے گرو‘‘ کہا جاتا تھا اور ان کی سینا کے ممبروں کا نام تھا ’ستیہ گرہی‘ یہ سینا کے ممبر تین ہزار کی تعداد میں تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کرایہ کے سپاہی تھے جو ہر فساد کے موقع پر استعمال کئے جاتے تھے یا الیکشن کے موقع پر کام آتے تھے۔
بہر حال پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا کورٹ آڈر سے پہلے حکومت نے اس پارک کو دہشت مچانے والوں کو خالی کرنے کا حکم دیا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ پولس نہتے ہوکر بغیر کسی تیاری کے جواہر باغ میں کس مقصد کیلئے بھیجی گئی تھی؟ ان سوالوں کا جواب ایسی حکومت کے پاس نہیں ہے جسے بار بار عوام کی چتاؤنی اور درخواست کے باوجود سینا کو حکومت کے زیر سایہ رہنے کا موقع دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایس پی کے دفتر کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہورہا تھا۔ ڈی ایم ملائم سنگھ یادو کے اشارے کے بغیر ٹس سے مس نہیں ہوسکتے تھے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سینا کس کے کنٹرول میں تھی کیونکہ اتنی بڑی دہشت گردی کا ماحول تیار کر رکھا تھا کہ پولس افسران پر دن دہاڑے حملہ بول دیا۔ دو سال سے سینا کی تربیت اور ٹریننگ ہورہی تھی۔ اتر پردیش کی حکومت اسے ختم کرنے کے بجائے اس کی سرپرستی کر رہی تھی۔ اتر پردیش میں تقریباً 250 فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں۔ جب سے اکھلیش کی حکومت قائم ہوئی ہے 250فسادات رونما ہوئے۔ضلع مظفر نگر کے مسلمانوں کے تیس گاؤں نیست و نابود کر دیئے گئے۔ مصیبت زدگان کئی سال تک کیمپوں میں زندگی گزارتے رہے۔ جاڑے اور بارش کے موسم میں کئی چھوٹے بچے جاں بحق ہوگئے مگر نیتا جی (ملائم سنگھ) کی سالگرہ ہر سال دھوم دھام سے منائی جاتی تھی جس کی شان و شوکت کو برقرار رکھنے کیلئے پانی کی طرح عوام کے پیسے کو بہایا جاتا تھا۔ یوپی کا الیکشن قریب آرہا ہے۔ بی جے پی کو ایسی سیناؤں کی تلاش رہتی ہے جو فساد پھیلا سکیں۔ اب آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ملائم سنگھ کا بی جے پی سے کیا لگاؤ ہے۔ بہار کے الیکشن میں ان کا نعرہ تھا کہ ’بہار میں بی جے پی کی حکومت ہوگی عظیم اتحاد ہارے گا۔ اتر پردیش میں اکھلیش یادو کی حکومت کے رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اسے 2017ء کے الیکشن میں عوام ہٹانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔