اقلیتوں کوہراساں کرنے کی کوشش اور حکومتوں کا رویہ

عادل فراز
تقسیم کے المیہ کے بعد ملک میں یرقانی تنظیموں کا وجود میں آنا اور ان تنظیموں کو حاصل حکومتی سرپرستی ہمیشہ اقلیتی فرقہ کے لئے خوف کا باعث رہی ہے ۔ابتدا میں ان تنظیموں کا وجود اتنی اہمیت کا حامل نہیں تھا لہذا خطرات اور اندیشے بھی زیادہ نہیں تھے ۔مگر موجودہ عہد میں ان یرقانی تنظیموں کا بڑھتا دائرہ کار،ادارتی توسیع اور حکومتوں میں انکی نمائندگی ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ بن گئی ہے ۔بلکہ آج تو یہی یرقانی تنظیمیں واسطہ یا بالاواسطہ ملک کے اقتدار پر قابض ہیں ۔حکومتوں کی سرپرستی اور اقتدا کے نشہ میں دھت یہ تنظیمیں اب اقلیتوں کو ہراساں کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں ۔کبھی ’’ لو جہاد‘‘ کا فرضی نعرہ بلند کرکے مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنایا جاتاہے تو کبھی ’’ گھر واپسی ‘‘ کے نام پر مسلمانوں کو دولت کی لالچ دیکر انکا مذہب تبدیل کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے ۔اقلیتی فرقے کے خلاف حکومتی نمائندے زہر اگلتے ہیں اور انہیں پاکستان جانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ نہ بولنے پر وطن پرستی مشکوک بنادی جاتی ہے اور اس متنازع نعرہ کو ملک پرستی اور وفاداری کی علامت بنادیا جاتاہے ۔بے گناہ مسلم نوجوانوں کو فرضی مقدمات میں پھنساکر جیلوں میں ٹھونس دیاجاتاہے جہاں انکا پرسان حال کوئی نہیں ہوتا۔سالہاسال گذرنے کے بعد جب مقدمات فرضی ثابت ہوتے ہیں تو انکی باعزت رہائی بھی سماج میں انہیں وہ عزت نہیں دلاپاتی جسکے وہ صحیح حقدار ہیں ۔اسکے بعد بھی مسلسل فرضی انکاؤنٹر ہوتے رہتے ہیں اور فرضی مقدموں میں گرفتاریاں جاری ہیں ۔سابق وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے مسلم نوجوانوں کی فرضی گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے نوجوانوں کے مقدمات کا جائزہ لینے کے لئے ایک سکریننگ کمیٹی بنائی جائے تاکہ حقیقت واضح ہو ۔مگر اس وقت بھی نہ جانے کس مصلحت کے پیش نظر انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ان پولس والوں پر بھی کاروائی ہو کہ جن کی وجہ سے فرضی گرفتاریاں عمل میں آتی ہیں ۔یہی حال موجودہ حکومتوں کا ہے ۔وہ مسلم نوجوانوں کی فرضی گرفتاریوں پر تشویش کا اظہارتو کرتی ہیں مگر کوئی مناسب اقدام نہیں کرتیں اور نہ ملک کی عدلیہ ان پولس والوں پر کاروائی کا مطالبہ کرتی ہے کہ جو ان گرفتاریوں کے ذمہ دار رہے ہیں۔افسوس یہ ہے کہ مسلم نوجوان بے گناہ چھوٹ رہے ہیں اور متشدد ہندؤں کے نام دہشت گردانہ واقعات میں سامنے آرہے ہیں مگر پھر بھی مسلمانوں کی وطن پر ستی پر سوال کھڑے کئے جاتے ہیں اور ہندو ہر غلط کاری کے بعد بھی وطن پر ست ہے ۔
المیہ یہ نہیں ہے کہ سیکولر ملک میں ایسی ’’ نان سیکولر‘‘ متشدد اور جنونی تنظیموں کا بول بالا ہے بلکہ المیہ یہ ہے کہ ہندوستان کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں ان تنظیموں کی زہر افشانی اور فکری و نظریاتی دہشت گردی پر ’’ مون برت‘‘ رکھے ہوئے ہیں ۔ایسا لگتاہے کہ جیسے یہ اقتدار انہی تنظیموں کا مرہون منت ہے ۔اگر انکے نظریات کی تردید یا متشدد رویوں پر پابندی عائد کی گئی تو انکی کرسی خطرہ میں پڑ جائیگی ۔شاید یہ بات بڑی حد تک درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ آج ہر سیاسی پارٹی ان تنظیموں کے کارکنان سے بھری پڑی ہے ۔کسی پارٹی میں انکے چہرے پہچانے ہوئے ہیں اور کسی پارٹی میں یہ لوگ خاموشی کے ساتھ اپنے منصوبوں کی تکمیل میں مصروف عمل ہیں ۔انہی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی فکر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ کے اقلیتی کردار پر سوال کھڑے کئے جاتے ہیں اور عدم تحفظ اور عدم رواداری کے ماحول کو فروغ دیا جاتاہے ۔وہ سیاسی جماعتیں جو خود کو سیکولر کہتی ہیں وہ بھی اقلیتوں کو ڈراکر ووٹ حاصل کرتی رہی ہیں ۔انکا نعرہ یہی ہوتاہے کہ اقلیتوں کے ساتھ جو نا انصافیاں ہورہی ہیں انکا مداوا کیا جائیگا جبکہ انکازیادہ استحصال ایسی ہی ’’نان سیکولر‘‘ جماعتیں کررہی ہیں ۔
ڈریس کوڈ میں غیر معمولی تبدیلی اور تنظیموں کی توسیع کے بعد بھگوا بریگیڈ میں نئی بھرتی کے دروازے کھول دیے گئے ۔ظاہر ہے ہر نئی تنظیم کو سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں کارکنان کی ضرورت ہوتی ہے ۔مگر ان کارکنان کو پولس کی طرح مسلح کرنے اور فوج کی طرح ٹرینگ دینے کا کیا مقصد ہے ؟۔تربیت لینے والوں میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں ۔ملک میں پولس اور فوج کے ہوتے ہوئے ان تنظیموں کو آخر کس بات کا خطرہ ہے کہ کھلے عام مہلک ہتھیاروں کی ٹرینگ دی جارہی ہے ؟اگر کہیں مسلمان کسی علاقے میں اس طرح کی مسلح ٹرینگ کا اہتمام کرتے تو انہیں دہشت گردی اور فسادی ثابت کرکے جیلیں بھردی جاتیں اور میڈیا حکومتوں کے اس اقدام کی دل کھول کر تعریف کرتا ۔حد یہ ہے کہ ٹرینگ میں نشانہ کے لئے پتلوں کو مسلم لباس پہنایا گیا تھا اورانکے سروں پر ٹوپی تھی ۔جبکہ کرتا پائجامہ اور جالی دار ٹوپی مسلمانوں کا مخصو ص لباس نہیں ہے اور نہ موجودہ دہشت گرد تنظیموں کا حلیہ ایسا ہے، یہ قدم فقط خوف و ہراس پھیلانے کا ذریعہ ہے اور بس!اس ٹرینگ کیمپ کے تربیت یافتہ اقلیتوں کے لئے نہیں بلکہ ملک کی سلامتی اور امن کے لئے خطرہ ہیں۔ایسے ہی تربیت یافتہ افراد فسادات کے موقعوں پر اہم کردار نبھاتے ہیں اور ان یرقانی تنظیموں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں مذہب کے نام پرجی جان کی بازی لگاتے ہیں ۔فسادات میں کس طرح اس تربیت یافتہ بریگیڈ نے اقلیتوں کا خون پانی کی طرح بہایا ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن آج تک ان فسادات کے اصل مجرموں کی نشاندہی نہیں ہوسکی ہے یہ بڑا سوال ہے۔ایسے موقعوں پر پولس اور قانون کے سربرآوردہ افراد بھی اس بریگیڈ سے ہاتھ ملالیتے ہیں تاکہ انکی جان و مال سلامت رہے ۔جس ملک کا قانون اور سپاہی ملک مخالفوں کے ساتھ ہوں وہاں جان و مال کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ۔دادری میں اخلاق کا بہیمانہ قتل ،گجرات اور مظفر نگر جیسے دیگر واقعات ملک کے قانون کو ٹھینگا دکھانے کے لئے کافی ہیں۔مذکورہ تمام واقعات میں ایسی ہی متشدد تنظیموں کے تربیت یافتہ افراد نے قتل و خون کا بازار گرم کیاتھا اور مستقبل میں بھی یہی تربیت یافتہ بریگیڈ ملک کی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ بن کر سامنے آئے گی ۔بقو ل شاعر ؂
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
حکومتوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ آج کا مسلمان انکی ہر سازش اور ہر منصوبے کو بخوبی جانتاہے ۔ہاشم پورہ ،بھاگلپور،مظفرنگر اور گجرات جیسے واقعات اسکے دل و دماغ میں ہمہ وقت تازہ رہتے ہیں ۔مسلمان جانتا ہے کہ آخر کس فساد میں یرقانی تنظیموں کو حکومتوں کی کتنی سرپرستی حاصل رہی ہے اور فسادات کے بعد حکومتیں انہیں انصاف دلانے کے لئے کتنی پر عزم رہی ہیں ۔انکا سب سے بڑا مسئلہ قیادت کا فقدان ہے ۔اپنی اس کمزور ی کو مسلمان بخوبی پہچانتا ہے ۔سیاسی جماعتیں جن مسلم نمائندوں کو مہرہ بناکر انکے درمیان بھیجتی ہیں مسلمان ان چہروں پر کتنا اعتماد کرتاہے یہ سیاسی جماعتوں سے بہتر کون جانتا ہو گا ۔انہیں ووٹ دینا انکی سیاسی مجبور ی ہے ۔اس مجبوری کے دائرے سے مسلمان کو باہر نکلنا ہوگا اور ایسی قیادت کا انتخاب کرنا ضروری ہے جو ملکی سطح پر ہی نہیں عالمی سطح پر انکی آواز بن سکے ۔بغیرکسی مضبوط قیادت کے انکا سیاسی و سماجی مستقبل اندھیرے میں ہے اور سیاسی جماعتیں اسی طرح انکااستحصال کرتی رہینگی ۔ساتھ ہی متشدد مذہبی جماعتیں اور یرقانی تنظیمیں انکی کمزور ی کا فائدہ اٹھاکر انہیں مسلسل ہراساں کرنے کی ہر ممکن کوشش کرینگی ۔کیونکہ جس قوم کے پاس قابل اعتبار قیادت نہیں ہوتی وہ صحرا میں بھٹکتے جانوروں کی طرح ہے جنکا کوئی نگہبان اور پرسان حال نہیں ہوتا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔