مت جوڑو آتنک واد کا نام مدرسوں سے!

عبد الباری شفیق

اللہ تعالیٰ کی اس مقدس سرزمین پر سب سے محبوب وپسندیدہ جگہ مساجدومدارس ہیں اورسب سےمبغوض جگہ بازاراورمارکیٹ۔ مساجدومدارس وہ متبرک جگہیں ہیں جہاں اللہ کی عبادت وبندگی کےساتھ ساتھ قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں بلندکی جاتی ہیں۔ جہاں اللہ کی وحدانیت وربوبیت کی تعلیم دی جاتی ہے، جہاں شرک وبدعات کی غلاظتوں سےروکااورمنع کیاجاتاہے، جہاں محاسن اسلام کےساتھ اخلاق کی بھی تربیت دی جاتی ہے۔غرض یہ مدارس اسلام کےوہ پاور ہاؤس ہیں جہاں سےپورےعالم اسلام میں مفت بجلی تقسیم کی جاتی ہےیہ اسلام کے ایسے مضبوط ستون اورPiller ہیں جہاں سےاسلام کی شعائیں پوری دنیامیں پھیلتی ہیں، اسی لیےان کی حفاظت واستقامت میں دین کااستحکام مضمرہے۔

یہی مدارس ومساجدانسانی زندگی کےتمام شعبوں میں کامیابی کےمراکزہیں جہاں سےہمیں سب سےپہلادرس تقویٰ کاملتاہے جودنیا کے کسی بھی عصری تعلیمی نصاب میں مفقودنظرآتاہے، یہیں سےہماری زندگی کےرہنمااصول وضوابط کی ابتداءہوتی ہےیہیں سےہم اپنےتمام دنیاوآخرت کے معاملات کےبارےمیں آگاہی حاصل کرتےہیں، اٹھنےبیٹھنے، چلنےپھرنے، کام کاج، لین دین، نیزتجارت وبزنس کرنےوغیرہ کےآداب سیکھتےہیں۔ اگریہ مدارس نہ ہوتےتویقیناانسان اس دنیاکےاندران دینی وشرعی علوم سےنابلدہوتاجوایک انسان کےلیےلازم وضروری ہے۔کیونکہ انہیں مدارس اسلامیہ میں اسلام کاآفاقی پیغام پڑھ کرسنایاجاتاہےانہی میں قرآن وحدیث کی تعلیم دی جاتی ہےجس میں پوری انسانیت کےلیےالفت ومحبت، امن وسکون کاپیغام نیزظلم وتشدداوردہشت گردی سےنجات کاراستہ ہےانہی مدارس کی اہمیت کےپیش نظرنبی اکرم ﷺنےاپنی بعثت کےبعدسب سےپہلےلوگوں کودارارقم میں اکٹھاکرکےکتاب وسنت کی تعلیم دی اورہجرت کےبعدمسجدقبا، مسجدنبوی اوراصحاب صفہ کاچبوترہ قائم کرکےصحابہ کرام کی تعلیم وتربیت کاانتظام اوران کےقلوب واذہان کی اصلاح کااہتمام کیا۔چنانچہ بعدمیں انہیں اصحاب صفہ میں سےبہت سےفارغین کودعوت وتبلیغ اوردین کی نشرواشاعت کےلیےدوردرازعلاقوں میں بھیجاگیااورایک زمانہ کےبعد صحابہ کی یہی مقدس جماعت سرزمین عرب سےنکل کربیرون ممالک اورخصوصاہند میں مالابارکےساحل پرلنگراندازہوئےاورتجارت کےساتھ ساتھ دعوت وتبلیغ میں بھی مشغول ہوگئے۔اسی طرح خلافت راشدہ میں کئی ملکوں میں اسلامی حکومتیں اورمدارس قائم ہوچکےتھےگرچہ آج کی طرح ان اسلامی مراکزومدارس کی شکلیں مختلف تھیں لیکن دین اسلام کی نشرواشاعت کےلیےیہی اہم ادارےتھے۔تاریخ شاہدہےکہ ساتویں آٹھویں صدی ہجری تک بغداد، سمرقند، بخارا، شیراز، اصفہان وغیرہ میں بڑےبڑےدینی ادارےقائم ہوچکےتھے۔جہاں سےعالم اسلام کی ناموراورمعتبرشخصیت پیداہوئیں جنہوں نےنہ صرف علوم وفنون کوحاصل کیابلکہ علوم اسلامیہ پربیش بہاکتابیں بھی تصنیف کیا، جوآج بھی ہماری دینی درسگاہوں میں شامل نصاب ہیں اس سےقبل دوسری صدی کےاواخراورتیسری صدی کےآغازہی میں قرآنی شروحات وتفاسیر، حدیث کی ترتیب وتدوین ہوکرجامع وسنن ہمارےسامنےآچکےتھے۔فقہ مدون ومرتب ہوکرممالک اسلامیہ میں مروج ومقبول ہوچکی تھی۔ انہیں مدارس کے فارغین حضرات میں امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام احمدبن حنبل، امام مالک، امام شافعی، امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام نسائی، امام بغوی، علامہ جلال الدین سیوطی، علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم، علامہ ابن باز، علامہ ابن عثیمین، اورعلامہ البانی رحمہم اللہ وغیرہ جیسی عظیم المرتبت ہستیاں پیداہوئیں جن کی دینی وعلمی خدمات ہمارےلیےسرمایۂ افتخار ہیں جن پردنیاآج بھی رشک کررہی ہے۔یہ سب انہی مدارس اسلامیہ کےتربیت یافتہ تھے۔ جہاں آج بھی اسی قرآن وحدیث کی تعلیم دی جاتی ہےجن کےقیام کامقصدآج بھی وہی ہےکہ جہاں سےاسلام کےنمائندے، صحیح داعی، مبلغ اورخطیب نکلیں، معتبرصحافی، قلمکاراورمصنف ومؤلف نکلیں جواپنے زبان وقلم کےذریعہ اسلام کی صاف وشفاف تعلیمات کولوگوں کےسامنےپیش کریں اورکتاب وسنت کی تعلیمات کوپوری دنیامیں عام کریں، لوگوں کوضلالت وگمراہی اورشیطان لعین کےراستہ سےبچاکرصراط مستقیم پرگامزن کریں، انہیں اللہ اور رسول کی صحیح معرفت عطاکریں، لوگوں کےدلوں میں اللہ اوراسکےرسول کی محبت جاگزیں کریں۔ اخوت وبھائی چارگی، الفت ومحبت کا درس دیں، اورآپس میں سب کومل کررہنےکی تلقین کریں تاکہ ملک وسماج میں امن وامان اورالفت ومحبت کی فضاہموارہو۔آپسی چپقلس، بغض وحسد، اوردنیاوی خرافات کاخاتمہ ہوسکے، تاکہ ہم سب ملک وسماج میں رہتےہوئےبھائی بھائی بن کررہیں۔

لیکن افسوس کہ اسلام کی ان واضح اورروشن تعلیمات کےباوجودہمیشہ ہی سےکچھ نام نہاد، شکم پروراورضمیرفروش افرادنےاس آفاقی دین کودہشت گردی وانتہاپسندی سےجوڑنےکی ناپاک کوششیں کی ہیں، اس کی شفاف تعلیمات کوداغدارکرنےکی سعیٔ ناپیہم کی ہیں خاص طورسےجب سےوطن عزیزمیں بی جےپی پارٹی برسراقتدارہوئی ہےاس کےبعدسےمدارس ومساجداورمسلمانوں کےکردارکوکھل عام مسخ کیاجارہاہے۔ان پرطعن وتشنیع کےتیربرسائے جاتےہیں، ان کےشناخت کومجروح کرنےکی مہم میں زبردست شدت اورتبدیلی آئی ہے، فرقہ پرست لیڈروں کےاشتعال انگیزبیانات نےمدرسوں کےوجودکیلئےخطرہ پیداکردیاہے۔ابھی حالیہ دنوں مدارس اسلامیہ جیسےتبرک جگہوں شیعہ وقف بورڈ کےنام نہادچیرمین وسیم رضوی کایہ گھناؤنا بیان آیاہےکہ مدرسوں کاوجودملک کی سالمیت کےلیےخطرہ ہےوہاں دہشت گردوں کوپناہ دی جاتی ہےاوران کےتعلیم وتربیت کاانتظام کیاجاتاہے انھیں جہادمیں شرکت کیلئےان کی ذہن سازی کی جاتی اورماحول تیارکیاجارہاہےلہذااسےفورابندکیاجاناچاہئےاوروہاں کلی طورپرسرکاری اکیڈمیوں اورسنگھ کےشیشہ مندرجیسےنظامہائےتعلیمات نافذکئےجانےچاہئےاوراس میں غیرمسلم طلباکوبھی پڑھانےکی اجازت دی جانی چاہئے۔اس طرح کےبےشمارالزامات عائدکرکےوسیم رضوی نےاپنےآپ کوسنگھ آقاؤں کوخوش کرنےکاایک اچھاحربہ استعمال کیاہے۔لیکن یہ بات اٹل ہےکہ وہ اپنےاس رذیل مقصدمیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتاکیونکہ بھارتیہ جنتاپارٹی کےکارکنان اس بات سےبخوبی واقف ہیں کہ جوشخص آج عہدہ اورمنصب کیلئےاپنےقوم سےغداری کرسکتاہےوہ کل اپنی کرسی کیلئےآرایس ایس کےساتھ بھی فراڈکرنےمیں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرےگا۔

وسیم رضوی دراصل ایسےملت فروش اورغدارقوم ووطن ہیں کہ جنہیں شہرت اورکرسی کی ہوس نےاپنےضمیرکوبیچ دیاہے۔انہوں نےمدارس کے خلاف ایسےگھناؤنےوبےبنیادبیانات والزام عائدکرکےکروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری کی ہے، ان مدارس اسلامیہ کےخلاف زہرافشانی کی ہےجہاں امن وشانتی اورصلح وآشتی کی درس دی جاتی ہےجہاں کےعلماءوفقہاٹوٹی پھوٹی چٹائی پربیٹھ کرملت کے نونہالوں کی اصلاح میں ہمیشہ سرگرداں رہتے ہیں ان کےروشن مستقبل کےسلسلےمیں ہمیشہ  آرزومند رہتے ہیں، ایسےمدارس کےخلاف زہرافشانی کرنابددیانتی اورقوم وسماج نیزملک وملت کےساتھ غداری ہے۔ایسےباطل پرستوں کو اپنے گریباں میں جھانک کردیکھناچاہئےاوراپنےاعمال کاجائزہ لیناچاہئے، اورملک کےماضی وحال کےحالات کاجائزہ لیناچاہئےکہ انہی مدارس اسلامیہ کےعلماءوفقہاءنےملک کی آزادی کی خاطرکتنی قربانیاں دی ہیں ۱۸۵۷کی جنگ آزادی میں مفتی محمدعباس جیسامردمجاہدانگریزوں کےناک میں دم کردیااورکبھی بھی ظالم وجابرانگریزوں کی غلامی کوقبول نہ کیا۔گاندی جی کےشانہ بشانہ چلنےوالےمولاناابوالکلام آزاداورمولاناحسرت موہانی کی قربانیوں کوکون فراموش کرسکتاہےجنہوں نےملک کی آزادی کےلیے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن ان کےپائے ثبات میں ذرہ برابربھی لغزش نہ آئی اس کےعلاوہ اوربہت سارے ایسے نام ہیں جوانہیں مدارس اسلامیہ کےفارغین یاطالب علم تھے۔جنہوں نےہمیشہ ملک وملت کی خیرخواہی چاہی ہے۔لیکن افسوس کہ آج وسیم رضوی جیسےنام نہاداورشہرت کےبھوکےافرادنےاسلام اورمدارس کوبدنام کرکےرکھ دیاہےجنہیں اللہ کاخوف کھاتے ہوئے اخلاص کےساتھ اپنےقلوب واذہان کی اصلاح کرنی چاہئےاوراپنےدلی سکون کےلیےان مدارس کاجائزہ لیناچاہئےجن کےبارےمیں ان کاوہم ہےکہ وہاں دہشت گردوں کوپناہ دی جارتی ہےیاجہادوغیرہ کی ٹریننگ دی جاتی ہے، ایسےہی ناہنجارقسم کےلوگوں کےبارےمیں عالمی شہرت یافتہ شاعرعمران پرتاپ گڑھی نےکہاتھااورمدارس کی حقیقت حال سےلوگوں کوآگاہ کیاتھاکہ

ملا ہمیشہ چاہت کا پیغام مدرسوں سے

مت جوڑو آتنک واد کا نام مدرسوں سے 

یہاں قران پاک کی ہر لمحہ ہے تلاوت ہوتی

ذرے ذرے میں ہمدردی اور محبت ہوتی

کبھی نہیں ہو سکتا قتل عام مدرسوں سے

مت جوڑو آتنک واد کا نام مدرسوں سے 

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔