مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ

رفیع الدین حنیف قاسمی

ہمارے ملک ہندوستان جس میں مسلمانوں کا وجودیہاں اسلام کے آمد کے بعد ہی سے ہے ، انہوں نے اسلام کی خوبی اور مذہب اسلام کی رواداری اور اخوت وبھائی چارہ او ر اسلام کی کریمانہ اور رحیمانہ اخلاق وکردار سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے، ہند کی اس دھرتی پر مسلمانوں نے آٹھ نو سو سال تک حکمرانی کی ہے ، یہاں کے مذہب اور روایات نہ جانے کتنے پرانے ہیں ،مسلمانوں کو جس طرح اپنے مذہب پر عمل کی آزادی حاصل تھی؛ اسی طرح ہندؤوں کو ان کے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی چھوٹ تھی۔

موجودہ دور میں مسلمانوں سے متعلق ایک ایک مسئلہ اور اور ایک ایک روایت اور اسلام اور مسلمانوں کی ایک ایک شناخت غیروں کی آنکھوں کی کانٹا بنتی جارہی ہے ، کبھی طلاق ثلاثہ کے مسئلہ کو اٹھایا جاتا ہے تو کبھی مسجد کے نام پر واویلا کھڑا کیاجاتا ہے اور کبھی گاؤ گوشت کے استعمال کے حوالہ سے مسلمانوں کو ہراساں اور پریشان کیا جاتا ہے ، ابھی اذان جو کہ ایک مذہبی شعار ہے اور جو اسلام کی اور مسلمانوں کی ایک شناخت ہے اس کے حوالے سے گلور کار سونو نگم نے بد زبانی کی ہے ، کہ لاؤڈ اسپیکر پرفجر کی اذان، مسلمانوں کو غنڈہ کردی کہا، جس کے بعد مسلمانوں کا طیش میں آنا اور آگ بگولہ ہونا ایک فطری اور مسلمہ بات بھی تھی اور اس بیان بازی کا مقصود بھی یہی تھا کہ کسی طرح کچھ اس قسم مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے ا لفاظ بول کر شہرت اور واہ واہ حاصل کی جائے ، سو وہ حاصل ہوگئی، جس کے بعد اس گلوکار کار خ بدل گیا جب یہ کہا گیا کہ مسجد سے اذان ہی کی کیا تخصیص ہے۔

مندر اور گردواروں سے بھی تو اسی قسم کی آوازیں لاؤ ڈاسپیکر سے آتی ہیں ، تو اس نے کہا کہ وہ اذان پر معترض نہیں ہیں ، بلکہ لاؤڈاسپیکر کے استعمال پر معترض ہیں ، تو سیاسی لیڈران اور گلی کوچوں میں بچنے والے ڈیجے اور گانے اور باجے اور مندروں اور گردواروں سے مذہب کے نام پر ہونے والے جاپ وغیرہ سب صوتی آلودگی اور نیند میں خلل کاباعث ہوتے ہیں ، اگرصرف دو سے تین منٹ میں ختم ہوجانے والی اذان باعث اذیت اور نیند میں خلل اور خرابی کا باعث ہوتی ہے توبحیثیت ایکٹر کے یہ بتائیں یہ جو گانے گائے جاتے ہیں ، جس کو ڈی جے پر لگایا کر نوجوان شادی بیاہ اور دوسری تقریبات کے موقع سے بستیوں اور محلوں میں ہربونگ مچائے رہتے ہیں ، ان گانوں اور اس کی دھن اور میوزک کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟کیا ان گانوں پر بھی پابندی لگنی چاہئے ؟ صرف اذان بہانہ ہے ، شریعت نشانہ کے مصداق ، مسئلہ لاؤڈ اسپیکر یا نیند میں خلل واقع ہونے اور صوتی آلودگی کا نہیں ہے۔

مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرو اور مسلمانوں کے خلاف اول فول بک دو اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاؤ، اگر اذان باعث اذیت ہے تو ہر قسم کی صوتی آلودگی اور شدت کی آواز اذیت کی باعث ہے ، اذان کی تخصیص کا مقصود ہی اذان سے چڑ کا عندیہ دیتی ہے ، ایک طرف تو صورتحال یہ ہے ا ور دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ ملک کے وزیر اعظم بنگال میں اپنی ریالی کے دوران اور اسی طرح امیت شاہ اپنی ریالی کے دوران اور سلمان خان سمیت کئی ایک فلم اکٹرس اپنے شوز کے دوران اذان کی آواز پر تھوڑی دیر کے لئے رک جاتے ہیں اور اذان کے احترام کی طرف لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں اور ایک فلم ایکٹر پرینکا چوپڑا کا ایک ویڈیو وائرل ہوا ہے جس میں وہ کہتی ہے کہ ان کو سب سے اچھا وقت وہ لگتا ہے جب وہ شہر بھوپھال میں اپنے گھر کے اوپر عشاء کی آواز کو سنتی ہے تو وہ ان کی زندگی کا نہایت خوش کن اور بہترین لمحہ ہوتا ہے ۔

 حقیقت بھی ہے یہی ہے کہ اذان ایک نہایت میٹھی رس گھولنی والی اور پیاری آواز اور ندا ہوتی ہے ، ویسے بھی پرانے زمانے میں ہندو کیا مسلم مسجد کی اذان کی آواز پر  اٹھ جاتے تھے اوراس وقت کے اٹھنے کو خیر ووبرکت اور رحمت کا باعث تصور کرتے تھے اور کام ودھندوں میں لگ جاتے تھے، اور اس اذان کو اپنی نیندسے بیماری اور جاگنے کا ذریعہ اور باعث خیر وبرکت شمار کرتے تھے،اور خود اذان یہ انسان کو ڈسپلن کاپابند بناتی ہے ، پنچ وقتہ اذان سے اوقات کی تعیین میں مدد ملتی ہے اور انسان کو اپنے وقت کے تقسیم کار میں سہولت ہوتی ہے ، اور بہت سارے ہندو اب بھی اذان کا احترام کرتے ہیں اور اس کی مٹھاس اور رس گھولنے والی اور شیرینی آواز کئی لوگوں کو اپنے اسیر کئے ہوئے ہیں ، اذان کی آواز کوسن کر جو کہ در حقیقت فطرت کی آواز ہے ۔

 کئی لوگ اس کے سحر میں گرفتار ہوجاتے ہیں ، کچھ لوگ اپنی سیاسی دوکان چمکانے اور اپنی امیج بنانے کے لئے کے لئے اس طرح کی بکواس کرتے ہیں ، بعض لوگوں کا کہنا ہے سونگم کے گھر تک اذان کی آواز مسجد کے دوری پر واقعے ہونے کی وجہ سے جاتی ہی نہیں ، بس یہ ایک سستی شہرت کا ذریعہ ہے ، نہ جانے کتنے واقعات ہم نے ایسے پڑھے ہیں کہ کتنے لوگوں نے اذان کی مسحور کن آواز کو سن کر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ہیں ، اور اذان جیسی سریلی اور میٹھی آواز ان کے قبول اسلام کی وجہ بنی ، بلکہ بعض امریکی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بعض پھول ایسے ہیں جو صرف اذان کی آواز پر ہی کھلتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ اذان یہ ایک فطرت کی آواز ہے ، حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کی مندرو ں اور چرچوں اور گرجاگھروں سے آنے والی آوازیں ، یا بستیوں میں گانوں پر بجنے والے ڈیجے یہ سب اگر چہ شور اور ہنگامے کا باعث ہوتے ہیں ، اس لئے ہمیں برا نہیں لگتے کہ ہمارا ملک ایک آزاد اور جمہوری ملک ہے ۔

 ہر شخص کو قانون کے دائرہ میں رہ کر جینے کا حق ہے ، کسی کے بھی مذہبی امور میں خصوصا دخل اندازی در اصل ’’ آ بیل مجھے مار ‘‘ کے مصداق اپنے کو ٹھہرانا ہے ، لیکن اب جب مسلمانوں کو ہر طرف سے ہراساں اور پریشان کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، ایسے میں اس طرح کے ایشوز کو اچھال بہت جلد شہرت کی بلندیوں پر پہنچا جاسکتا ہے اور اپنے آپ کو مقبول اور محبوب بنایا جاسکتا ہے ، اس لئے اس طرح کے مذہبی ایشوز اٹھا کر سستی شہرت حاصل کی جاتی ہے ، ورنہ اذان کی مشروعیت کا جو پس منظر ہے ، اس پر ہی غور کریں کہ اذان کی حقیقت کیا ہے ؟ کیا یہ کسی کو ہراساں اور پریشان کرنے کے لئے جاتی ہے ؟ بالکل نہیں ، مقصود یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو نماز کے لئے مدعو کیاجائے ، لاؤڈاسپیکر کے ذریعے آواز آسانی سے پہنچ جاتی ہے اس لئے اس کا استعمال ہوتا ہے ، صرف وہ بھی ایک دو منٹ کی بات ہوتی ہے ، ورنہ اذان کے علاوہ دیگر پروگراموں میں لاؤ ڈ اسپیکر بے ہنگام اور بے تحاشا استعمال پر علماء اسلام نے ہمیشہ نکیر کی ہے اور اس کی سخت مذمت ہے اور اس کو مخلوق خدا کے لئے اذیت کا باعث کہاہے ، اس لئے یہ حقیقت جاننے کی ضرورت ہے کہ مسئلہ لاؤڈ اسپیکر پر اذان کیا ہے یا اذان کو نشانہ بنانا مقصود ہے؟

ہر طرح لاؤڈ ا سپیکر اور بے ہنگامہ باجے اور گانے پر پابندی لگائی اس طرح اذان بھی لاؤڈ اسپیکر پر نہ دی جائے گی ،اسلام میں اذان کے معنی ہیں خبر دینے کے ، یہ پنج وقتہ نمازوں اور جمعہ کے لئے مخصوص الفاظ سے اعلان کرنے کو اذان کہاجاتا ہے ، اسلام میں عبادت کے بلانے کاطریقہ دیگر اقوام وملل کے مقابل کچھ یوں ہے کہ وہ بجائے خود عبادت ہے ، دیگر اقوام کے یہاں گھنٹے ، ناقوس وغیرہ کا سہارا لیاجاتا ہے ، اذان میں نہ گھنٹہ ، نہ ناقوس وبابا نہ گانا، نہ قومی نغمہ اور نہ ملی ترانہ نہ سیٹی نہ سنکھ ، بس سادے الفاظ میں اللہ کی کی کبرائی وبڑائی ، اللہ کی توحید وربوبیت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور نماز میں کامیابی بتلا کر مسجد نمازکے لئے بلایا جاتا ہے ، یہ ہے اذان کی حقیقت ہے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔