زخم گنجان ہو گئے دل کے

امجدعادِس

زخم گنجان ہو گئے دل کے
ختم امکان ہو گئے دل کے

آنکھ بھی تعزیت کو آئی نہیں
خواب نقصان ہو گئے دل کے

ہم بھی اس کی لگن سے واقف تھے
ساتھ نادان ہو گئے دل کے

تیرے معیار تک نہیں پہنچے
خاک ارمان ہو گئے دل کے

لوگ پہلو بدل کے اُٹھتے گئے
شہر سنسان ہو گئے دل کے

کون اب میرے دُکھ اٹھائے گا
ہاتھ بے جان ہو گئے دل کے

بزم کے لوگ تو نہیں عادِس
کیسے مہمان ہو گئے دل کے

تبصرے بند ہیں۔