مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ

 سرزمین ہند پر 950 سال مسلمانوں  نے حکومت کی ان کی طاقت و قوت، جنگ و جدل کی داستانیں ، پیار و محبت کے قصے آج بھی ذہنوں  میں  موجود اور قلوب میں  راسخ ہیں ، مگر یہ طویل دور حکومت دعوت وتبلیغ کا مبارک عمل اپنے دامن میں  نہیں  رکھتا اور اس دولت عظمی سے محروم، وقت کی ستم ظریفی اور مسلمانوں  کی حرماں  نصیبی ہے کہ طویل ترین دور ایک انتہائی ضروری عمل سے خالی گذر گیا۔ زمین و آسماں  ان قلندروں  کی راہ تکتے رہے، جو اسلامی احکامات کے تعارف کا منشاء و مقصد لے کر زمین کے سینہ کو روندنے میں  کوئی کسر باقی نہیں  رکھتے، آبلہ پاء ان کے بڑھتے قدموں  کو نہیں  روک پاتی، وطن اور اقربا کی محبت حب نبویؐ سے مقابلہ نہیں  کرپاتی اور وہ دعوت دین کی ذمہ داری ادا کرنے میں  لمحہ بھر بھی فرو گذاشت نہیں  کرتے اور دعوت دین کے لئے منظر نامہ پر ابھرنے والے ہر فتنہ اور ہر روکاوٹ کو وہ ریت کا محل ثابت کرتے ہیں  اور اپنے قدموں  سے روندھتے چلے جاتے ہیں ، ان اوصاف کے حامل افراد ہندوستانی تاریخ کے صفحات پر آٹے میں  نمک کے مثل ہی نظر آتے ہیں ، البتہ اس مقدس دھرتی پر تصوف و سلوک کی بیش بہا خدمات انجام دی گئیں ۔

اس راستہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہندوستان کے لاکھوں  لوگوں  کو ہدایت سے سرفراز کیا اور انہیں  اسلام کی دولت سے مالامال کردیا، ہندوستان میں  روحانیت مادیت کے مقابلے میں  ہمیشہ فتح کا پرچم لہراتی رہی،روحانیت یہاں  کے باشندوں  کے رگ و پے میں  سمائی ہوئی تھی، وہ رام اور کرشن کے محیر العقول واقعات کو جپنے والے اور خرق عادت واقعات کے تسلیم کرنے والے تھے، وہ عقل اور مادہ کے پجاری نہیں  تھے، اس لئے صوفیاء کرام نے اپنا کام بحسن خوبی انجام دیا اور ان کی ایڑیوں  کی رگڑ نے ہدایت کے چشمے جاری کردئے، مگر عام دعوتی مزاج اس سرزمین کو نصیب نہیں  ہوا،چوں کہ بھارت میں  آنے والے مسلمان اور یہاں  حکومت کرنے والے بادشاہوں  کا تعلق ایران سے تھا، ان کے مزاج میں  دعوت نہیں  ہے، عربوں  کا دعوتی مزاج ہے،عجمیوں  کامزاج خاص طور پر اس نوعیت کا نہیں  ہے، حالات بدلتے رہے، وقت کی گردش جاری رہی، رات و دن کا آنا جانا اور کرۂ ارضی کا نظام اپنی سابقہ روایات کے مطابق گردش کرتا ہے مگر اس گردش لیل و نہار اور انقلاب زمانہ نے کچھ ایسے در نایاب عطا کئے، جن کی چمک دمک اور روشنی سے ہندوستان روشن ہو گیا اور باطل کے قلعوں  میں  اندھیرا چھا گیا   اور بہت سی ایسی شخصیات پیدا ہوئیں  جن کے علم و زہد ورع و تقوی میں  کوئی شک نہیں  کیا جاسکتا،  انہوں  نے وقت کی نزاکت اور حالات کے تقاضوں  کا پورا خیال کیا اور خدمت دین میں  کوئی کسر نہیں  چھوڑی، لیکن ان کا ایسے حالات  سے سابقہ پڑتا رہا، وہ پوری طاقت و توانائی کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کرتے رہے اور موجودہ وقت میں  سر ابھارنے والے فتنوں  کی سرکوبی کرتے رہے۔

 انہوں  نے وہ بے مثال اور لازوال کارنامے انجام دئے،جن سے تاریخ کا ورق ورق روشن اور لفظ لفظ سنہرا محسوس ہوتا ہے، مذہب اسلام میں  ایک نقطہ کا بھی ردو بدل نہیں  ہونے دیااور فتنوں  کو فنا کے گھاٹ اتار دیا، حضرت شاہ اسمعیل شہید رحمتہ اللہ علیہ 26 اپریل 1779 میں  پیدا ہوئے، یہ وہ زمانہ ہے جب سکھوں  کا فتنہ سر ابھار رہا تھا آپ نے وقت کے تقاضے کو بھانپتے ہوئے علم جہاد بلند کیا اور شہادت کا جام نوش کیا آپ سرخ رو ہوگئے، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ آپ نے علوم قرآن و حدیث میں  بلند وبالا خدمات انجام دیں  اور سرزمین ہند کو قال اللہ قال الرسول کا روح پرور ماحول بخشا اور مسلمانوں  کی سیاسی کمزوریوں  پر کام کیا، یہاں  تک احمد شاہ ابدالی نے آپ کے خط پر پانی پت کی تیسری لڑائی میں  مرہٹوں  کوشکست دی اس طرح آپ نے وقت کی موزوں  اور مناسب خدمات انجام دیں ۔

حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ 1833میں  آپ کی پیدائش ہوئی، یہ وہ زمانہ ہے، جب ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں  اپنے قدم جما چکی ہے اور تقسیم کرو حکومت کرو کے فارمولے پر عمل پیرا ہے۔یوں  تو 1608سے1857 پورے ڈھائی سو سال یہ کوشش جاری رہی،  مگر یہ عالم شباب ہے پادری بلائے جارہے ہیں ، اسلام پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے،مناظرہ اور مباہلہ کے لئے پکارا جارہا ہے،شریعت میں  تنسیخ و ترمیم اور ملی وحدت کا شیرازہ منتشر کرنے کے لئے فرقوں  کو جنم دیا جارہا ہے،انگریزوں  سے ملک کو آزاد بھی کرانا ہے اور ان فتنوں  سے کو دھول بھی چٹانی ہے۔

حضرت نانوتوی ان تمام فتنوں  کا پوری محنت سے مقابلہ کرتے رہے اور تمام فتنوں  کی بیخ کنی کرتے رہے، وہیں  پر آپ نے جنگ آزادی میں  بھی بھرپور حصہ لیا اور دارالعلوم دیوبند نامی تحریک کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح حضرت علامہ انور شاہ کشمیری نوراللہ مرقدہ آپ کے علم کا شباب ہے مگر فتنہ قادنیت دین و مذہب کی جڑ اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کررہا ہے اور مسلمان ارتداد کا شکار ہورہیں ، آپ نے وقت اور حالات کو پرکھتے ہوئے  ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور فتنہ قادنیت کا قلع قمع کرڈالا۔

حضرت مولانا الیاس رحمتہ اللہ علیہ مسلمانوں  کی دین و مذہب بیزاری نے آپ کو مجبور کیا کہ کوئی ایسا پلیٹ فارم ہو جو مسلمانوں  کو ضروری علم سے آراستہ کرے اور مسجد کے پاکیزہ ماحول میں  ان کی تربیت کی جائے۔ چنانچہ 1926تبلیغی تحریک کا جنم ہوا، گردش دوراں  نے اتنی مہلت میسر نہیں  آنے دی کہ دعوت و تبلیغ کے تعلق سے عملی اقدام کیا جائے، تصوف سلوک میں  غرق اور روحانیت سے سرشار غیر مسلموں  کے دروازوں  کو کھٹکھٹایا جا سکے، ان کے قلوب پر دستک دی جاسکے اور ان کو صحیح سمت اور راہ سے آشنا کرایا جاسکے، ان کی آنکھوں  پر پڑے کفر و شرک کے پردے کو چاک کیا جا سکے،  اگر چہ بعض اصحاب فکر نے اپنے قلم کے ذریعے اس جانب توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی، ان میں  علامہ ابوالحسن علی حسنی ندوی کا نام سر فہرست ہے، مگر باضابطہ تحریک کی شکل میں  دعوت وتبلیغ کا کام سرزمین ہند میں  نہیں  ہوپایا۔

 ہندوستان کا 70 فی صد طبقہ دلت ہے، جو اپنے حقوق کی تلاش میں  در در بھٹک رہا ہے کبھی بودھ ایزم، کبھی عیسائیت، کبھی دہریت  دھمکیاں  دیتا ہے کہ ہمارے حقوق نہ ملے تو اسلام قبول کر لیں گے، حصار گاؤں  کا واقعہ ان حقائق کی منھ بولتی تصویر ہے اور سینکڑوں  اس قسم کے واقعات ہمارے حوصلوں  کو پروان چڑھانے کے لئے کافی ہیں ۔ جب ہم اخبارات کی سرخیوں  میں  دیکھتے ہیں ، فلاں  شخص نے حقوق نہ ملنے کی وجہ سے اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا، ہماری نگاہوں  پر شیطان نے پردہ ڈال رکھا ہے اور اس پر اپنی منشاء ومرضی کے مطابق تصویریں  دکھا رہا ہے، ہمارے حوصلوں  کو توڑ رہا ہے، ہمیں  خوف و ہراس میں  مبتلا کررہا ہے، اور حالات کی سختی کو ہمارے ذہنوں  پر تھوپ رہا ہے اور ہم اس مکر و فریب میں  الجھے ہوئے ہیں ، ورنہ در حقیقت منظرنامے پر ابھرنامہ والے نقوش اور تاریخ کے صفحات پر ابھرنے واقعات کچھ اور ہی بیاں  کرتے ہیں ، ہندوستان میں  تصوف کو ہمیشہ سراہا جاتا رہا، مادیت کبھی غالب نہ ہوسکی، اکیسوی صدیی کا جائزہ بھی اس قول کی تصدیق کرے گا، اس سرزمین پر ہمارا مقابلہ مادہ سے نہیں  ہے، عقل اور منطق سے نہیں  ہے، بلکہ ان لوگوں  سے ہے، جو غیب کو مانتے ہیں  روحانیت کو مانتے ہیں ، بس غلط سمت اور غلط راہ پر دوڑ پڑے ہیں  انہیں  محبت، پیار، عاجزی اور نرمی کے ساتھ صحیح راہ پر لانے کی کوشش کرنا ہماری ذمہ داری ہے، بحیثیت مسلمان بھی اور بحیثیت انسان بھی اور حقائق کو دیکھتے ہوئے، صورت حال کو پرکھتے ہوئے یہ کوئی مشکل امر نہیں  ہے، بظاہر مشکلات محسوس ہوتی ہے۔

 در حقیقت ایسا کچھ بھی نہیں  ہے، یوں  سمجھئے تصورات کی دنیا اور کیفیت الگ ہے اور تصدیقات کی دنیا کچھ اور ہے، کون جان سکتا ہے کہ لکڑی کے بدصورت خول کو توڑنے کے بعد میٹھا اور خوبصورت پھل میسر آئے گا، بس یہی صورت حال ہندوستان کی ہے۔ ارادوں  کو مضبوط کیجئے، پاؤں  کو حرکت دیجئے، میدان عمل میں  قدم رکھ کردیکھئے، شیطان کا بنایا ہوا خول ٹوٹ جائے گا اور حقیقت نظر آنے لگے گی، جو ہماری سوچ و فکر سے بالکل جدا اور مختلف ہے، بدصورت نہیں  خوبصورت ہے، ہمیں  دعوت نظارہ دے رہی ہے اور ہمارا استقبال کرنے کو بے چین ہے، بس ضرورت ہے نگاہوں  پر پڑے پردوں  کو چاک کر اس کیفیت کو محسوس کرنے کی، بہت ہی موزوں  اور مناسب وقت میں  یہ تحریک آگے بڑھ رہی ہے،اللہ تعالیٰ بازیاب فرمائے۔

خدا نخواستہ اگر یقینا حالات خراب ہوتے، تو کیا حالات نام کی زنجیر ہمارے قدموں  کو روک سکتی ہے، ہمارے حوصلوں  کو مضمحل کرسکتی ہے، ہمارے خیالات کے دھارے کی سمت تبدیل کر سکتی ہے، ہمارے مقصد و منصب کو تبدیل کر سکتی ہے، جواب سے آپ کا ذہن بخوبی واقف ہے اور ہمارا کام کیا ہے قرآن نے اس کو واضح کردیا: کنتم خیر امۃ اخرجت للناس،مکہ ہے یا مدینہ، تنگ دستی ہے یا خوش حالی، ایران  ہے یا انگلستان حکم یہی ہے،

اگر چہ بت ہیں  جماعت کی آستینوں  میں

مجھے ہے حکم اذاں  لا الہ الا اللہ

تبصرے بند ہیں۔