حقیقی جمہوریت اسلام کی دین ہے!

دورِ جدید کی جمہوریت اپنی اصل کے اعتبار سے اسلامی اقدار سے ہم آہنگ ہے بلکہ صحیح تر الفاظ میں  جن اصولوں  کی یہ پاس دار ہے وہ اسلام کی ابدی تعلیمات سے مستعار لئے گئے ہیں،  مگر نشاۃ ثانیہ کے بعد جو مغربی تہذیب پیدا ہوئی اس نے عیسائی تعصب کی بنا پر اسلام کی عطا کردہ ہر نعمت کو جھٹلانا اپنا شیوہ بنا لیا تھا اور آج تک اس پر قائم ہے۔ اس نے علم و سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا رشتہ یونانی تہذیب سے اس طرح جوڑا کہ از منہ وسطی نظر انداز ہوجائے جبکہ اسلامی تہذیب غالب تھی۔ اسی طرح جمہوریت اور عام انسانی حقوق کیلئے یونان اور ارسطو و افلاطون کے دفتر کھنگالے اور نہایت دیدہ دلیر سے جدید اقدار جمہوریت کو یونان کی شہری ریاستوں  اور ارسطو و افلاطون کی تحریروں  کی بازیافت قرار دیا جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ انسانیت کو چھوٹے بڑے میں  تقسیم کرنے کا سند جواز انھیں  فلاسفہ نے عطا کیا۔ آزادی رائے کا حق معاشرے کے مخصوص طبقات اور افراد تک انھوں  نے ہی مختص کیا تھا۔ مغرب نے جن ادیان کی گود میں  پرورش پائی تھی وہ مساوات انسانی کے تصور سے نا آشنا تھے اور جن افکار سے اس کے ذہن کی آبیاری ہوئی تھی وہ جنس اور رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانوں  کو تقسیم کرتے تھے۔

 سیکولرزم اور عصری جمہوریت: مغربی جمہوریت اصلاً کئی اقدار کی بالاتری کے دعوے اور اعلان سے شروع ہوئی تھی، لیکن اس کی ابتدا میں  منظم چرچ نے مخالفانہ رویہ اختیار کیا۔ ایک طرف چرچ نے علمی اور تحقیقاتی کاوشوں  کو ناپسندیدہ قرار دیا اور دوسری طرف قائم شدہ ملوکیت کی تائید کی۔ اس مخالفت کے رد عمل کے طور پر حریت فکر ونظر اور جمہوریت کے علمبرداروں  نے ان تصورات کو اس حد تک وسعت دی کہ وہ خدائی ہدایات کی بالاتری کے بھی منکر بن گئے۔

اجتماعی اور انفرادی خود اختیاری کو اس حد تک وسعت دے دینا کہ فرد سرے سے خداوند کریم کی ہدایات کی ضرورت اور اس کی بالاتری کا بھی انکار کردے، جمہوریت کی اصل اسپرٹ یا اس کا جوہر نہیں  ہے بلکہ اس کی بلا جواز توسیع ہے جو مغرب میں  چرچ کے رد عمل کے طور پر وجود میں  آئی۔

عصری جمہوریت کا حقیقی ہدف: جمہوریت حاکمیت الٰہ کے انکار سے نہیں  پیدا ہوئی بلکہ اس کا ہدف انسان کی انسان پر بالا تری تھی اور ہے۔ اس کا تصادم ملوکیت، ڈکٹیٹر شپ اور جبر و استحصال سے ہے، اس کا تصادم انسانوں  کے کسی گروہ یا طبقے کے ہاتھوں  عام انسانوں  کے فکر و نظر اور آزادی رائے و عمل کو محصور کرنے سے تھا اور آج بھی ہے۔ وہ اس امر کا انکار کرتی ہے کہ کسی خاص شخص یا گروہ یا طبقہ کو انسان کے اجتماعی معاملات اور انفرادی زندگی کو ان کی مرضی اور مشورے کے بغیر چلانے کا حق ہے، وہ ہر فرد کی تکریم پر قائم ہے۔ وہ آزادی رائے کی علم بردار ہے۔ وہ یہ اختیار تمام انسانوں  کو دیتی ہے کہ وہ جس طرز زندگی کو پسند کریں  اس کے مطابق اپنے سماج کی تعمیر اور اپنی سیاسی ہیئت کی تشکیل کریں۔   یہ اختیار ان کو ان کے خالق اور پروردگار نے عطا کیا ہے۔ اس کو چھین لینے کا جواز کسی کو نہیں  حاصل ہے۔

 اسلام اس حق کی نہ صرف تائید کرتا ہے بلکہ اس کا علمبردار بھی ہے، لہٰذا یہ موقف کہ جمہوریت فی نفسہٖ طاغوت ہے، حقیقت پر مبنی نہیں  ہے۔ سیکولرزم اس جمہوریت کی صفت بن سکتا ہے اور اس وقت اس صفت کو ہمارے ملک نے بھی اختیار کرلیا ہے، لیکن یہ نظام عوام کے فیصلے اور اختیار سے مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں  جمہوریت خلافت بھی بن سکتا ہے۔ اس صفت کا حال ویسا ہی ہے جیسا کہ انسان کے ساتھ کفر اور ایمان دونوں  صفتوں  کو اس کے فکر و عقیدہ اور اعمال کے اعتبار سے مختلف حالتوں  میں  وابستہ کیا جاسکتا۔

عصری جمہوریت کے نقائص: جمہوریت ایک طرزِ حکومت، ایک طریق کار اور رائے اور فیصلے کا ایک نظام ہے۔ اس میں  قائم شدہ نظام کو تقویت پہنچانے کے ذرائع بھی موجود ہیں  اور اس کو بدلنے کے بھی۔ اس نظام کی رو سے اس سے بنیادی اختلاف رکھنے والوں  کو بھی اظہار رائے، تنظیم اور اشاعت فکر کی آزادی حاصل ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عصر حاضر میں  کسی ملک میں  بھی یہ آزادی صحیح معنوں  میں  حاصل نہیں  ہے۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ جمہوریت فی الواقع اکثریت کی حکومت بن جاتی ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ سرمایہ دار اور طاقت ور عناصر عوام پر مسلط ہوگئے ہیں  اور یہ بھی صحیح ہے کہ دور حاضر کی جمہوریت میں  آزادی رائے کے ابلاغ عامہ کے غلبہ کی وجہ سے محض ایک موہوم تصور بن گئی ہے۔ یہ سب باتیں  صحیح اور درست ہیں  لیکن ان میں  کسی کو جمہوریت کی صفات نہیں  بلکہ ان کا نقص بتایا جاتا ہے۔  ان نقائص کو دور کرنے کی تمام کوششوں  کو بنظر تحسین دیکھا جاتا ہے۔ یہ صورت حال کا ایک جوہری فرق ہے جس کو نظر انداز کرنا ہٹ دھرمی ہوگی۔

 واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت اپنی حقیقی اسپرٹ کے اعتبار سے اخلاق فاضلہ کی محتاج ہے۔ اخلاق کے بغیر نہ اسلام قائم ہوسکتا ہے اور نہ جمہوریت؛ اور جمہوریت کیلئے ایک معاشرے میں  اخلاقی اوصاف درکار ہیں۔ اس کے بارے میں  مولانا مودودیؒ نے کہاکہ جمہوریت کے نام میں  کوئی معجزہ نہیں  ہے جو آپ سے آپ اس انتخاب کو صحیح بنادے۔ جمہوریت خود اپنی کامیابی کیلئے چند اخلاقی اوصاف کی محتاج ہے۔

 لیکن ان تمام نقائص کے باوجود اس نظام میں  حریت و فکر و نظر اور اختیار و ارادہ کی آزادی ہر شخص کو حاصل ہے۔ اس وجہ سے تحریک اقامت دین اس جمہوری نظام کے اپنی اصل کے اعتبار سے قائم رہنے میں  دلچسپی رکھتی ہے۔ اس کی تائید کرتی ہے۔ اس کا موقف یہ ہے کہ عوام کو اپنے فیصلے کرنے کا حق ہے لیکن انھوں  نے اپنی آزادی کا استعمال غلط کیا ہے۔ غلط مقاصد منتخب کئے ہیں۔  غلط اقدار اپنائی ہیں  جو انسان کیلئے خسران اور ہلاکت کی موجب ہیں۔  انھیں  جس طرح یہ حق تھا کہ وہ موجودہ سیکولرزم کو اختیار کریں  اسی طرح ان کو یہ حق بھی ہونا چاہئے کہ وہ خدا پرستی کی راہ اختیار کریں۔  فاشزم، کمیونزم، ملوکیت اور جارحانہ فرقہ پرستی اس حق کو سلب کرتے ہیں۔  وہ اپنے نتائج کے اعتبار سے انسان سے اس حق کو چھین لینا چاہتے ہیں۔  اس لئے ان کا سد باب ہمارے لئے لازم ہے۔ یہاں  حاکمیت الٰہ کی نفی کے فیصلہ کی تائید یا تردید نفس مسئلہ نہیں  ہے اور نہ جمہوریت اپنے جوہر کے اعتبار سے حاکمیت الٰہ سے متصادم ہے؛ لکہ یہاں  مسئلہ انسان کی انسان پر بالاتری ہے۔ اس کے حق خود ارادی اور آزادی رائے کا ہے جس کے بغیر اقامت دین کی تحریک کا چلانا دشوار ترین کام ہوگا۔

جمہوری اقدار تک انسانیت بہت دشوار گزار راہوں  سے سفر کرتے کرتے پہنچی ہے۔ وہ اعلیٰ انسانی اقدار جو دین حق کی دین ہیں،  اس نے بہت دیر میں  پہچانا ہے۔ تعصب اور حمیت جاہلیت اور عقل پرستی کے زعم نے اس کو دین حق کے بیش بہا عطایا سے محروم رکھا، لیکن اب اگر بعد از خرابی بسیار ان اقدار کو پہچان گئی ہے تو ہمیں  اس کو محض عملی خرابیوں  کی وجہ سے یکسر رد نہیں  کرنا چاہئے۔ جن نقائص کا ہم نے اوپر تذکرہ کیا ہے وہ درحقیقت عمومی فکری فساد اور اخلاق سے محرومی کا نتیجہ ہیں۔  ان کے ازالہ کی فکر ہمیں  کرنا چاہئے، لیکن اس کے جوہر کے تحفظ کی بھی کوشش ضروری ہے۔ حکمت تو مومن کی متاع گم شدہ ہے۔ وہ جہاں  بھی ملے اس کو اپنانا چاہئے اور اس کا اعتراف کرنا چاہئے۔  صحیح اسلامی نقطہ نظع یہی ہے۔

   تاریخ اسلامی اور سیاسی جمہوریت: اسلام نے جو جمہوری اقدار عطا کی تھیں  بدقسمتی سے مسلم سماج میں  اس کے سیاسی متضمنات کو بہت جلد پامال کر دیا گیا۔ معاشرتی جمہوریت تو ایک طویل عرصہ تک قائم رہی۔ دینی زندگی میں  بھی جمہوری اقدار پھلتی پھولتی رہیں،  لیکن سیاست میں  خلافت راشدہ کے بعد جمہوریت ختم ہوگئی اور ملوکیت جلوہ افروز ہوگئی۔ امیر المومنین کی جگہ سلطان نے لے لی۔ پھر وہ ظل اللہ اور ظل الرحمن بن گئے۔ انتخاب کے بجائے وراثت کی بنا پر ملوک اور بادشاہوں  کا چلن ہوگیا۔ تخت اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے اختیار کئے جانے لگے۔ بے کردار اور ظالم حکمراں  امت کی گردن پر سوار ہوگئے۔ بادشاہ کے حکم سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جمعہ کے خطبات میں  سب و شتم سے نوازا گیا۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو فتنہ خلق قرآن کے جرم میں  قید کیا گیا۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ بھی قید کئے گئے اور کتنے حق پرست اور حق گو علماء گردن زدنی قرار دیئے گئے۔ حجاج بن یوسف جیسے ظالم حکمرا وجود میں  آئے، معصوموں  کی گردن کاٹنے کا رواج ہوگیا۔ زعم سلطانی میں  کعبۃ اللہ پر گولا باری کی گئی، رعایا کے مال کو اپنا سمجھنے والے پیدا ہوگئے۔ عباسی دور میں  جب دولت کا سیلاب آیا تو رقص و شراب کی محفلوں  کا رواج عام ہوگیا۔ شاہی مصارف کا یہ حال ہوا کہ مامون کے دسترخوان کا روزانہ صرف 10 ہزار درہم تھا۔ مامون کی شادی کا خرچ 5 کروڑ درہم تھا۔ خلیفہ المتوکل کے ارد گرد چار ہزار کنیزیں  جمع ہوگئیں۔  ملکہ کے ایک لباس کا تھان ڈیڑھ لاکھ اشرفی میں  تیار کیا گیا۔ مقتدر کی ماں  نے اپنے ننھے پوتے کیلئے ایک پورے گاؤں  کا ماڈل چاندی سے بنوایا جس میں  مکانات، آدمی اور تمام سامان چاندی کے تھے۔ مطلق انسان اقتدار جمہور کے بجائے محدود طبقے کے ہاتھ میں  آنے کی وجہ سے رشوتوں  کا بازار اتنا گرم ہوا کہ قضا جیسے عہدے بھی فروخت ہونے لگے۔ نت نئی بغاوتوں  اور سازشوں  کے سلسلے شروع ہوگئے۔ ابن المقفع کے رسالہ الصحابہ میں  لکھا ہے کہ عمائدین سلطنت بدترین حرکات کے مرتکب تھے۔ اشرار کو مقرب بناتے تھے اور اخیار کو دور ہٹاتے تھے۔ فوج کا نشہ قوت بے انتہا بڑھ گیا۔ سپاہی کھلے بندوں  قانون کو پامال کرتے، لوگوں  کو گھوڑے تلے روندتے، مال لوٹ لے جاتے، عورتوں  اور بچوں  کو اٹھا لے جاتے۔

 معاشرتی جمہوریت اور اسلام: اسلام نے جراحت و حوصلہ اور بے جگری کی جو تخم ریزی کی تھی، اس نے اگر علمائے حق کا ایک درخشاں  سلسلہ نہ قائم کیا ہوتا اور اسلامی اخلاق اور عدل و انصاف کے محکم اصولوں  پر معاشرے کی تعمیر نہ کی ہوتی تو سیاسی حکمرانوں  نے اسلام کا مثلہ کردیا ہوتا۔ یہ اسلام کی معاشرتی جمہوریت تھی، جس نے ایک طویل عرصے تک اعلیٰ اسلامی اقدار کی آبیاری کی۔ اس دین نے آزادی فکر و نظر کی روح پھونک دی تھی۔ اس لئے زندگی کے تمام گوشوں  میں  عدل و مساوات، ایثار و تعاون، خیر خواہی اور غربا پروی کے چشمے ایک طویل عرصہ تک ملت اسلامیہ کی کھیتی کو سیراب کرتے رہے مگر آج تک سیاسی جمہوریت بحال نہ کرسکی۔ اب جلالۃ الملک ہیں  اور ملٹری ڈکٹیٹر جن کے تحت ہم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔  دین حق نے معاشرتی جمہوریت کا ایسا درس دیا تھا جس نے مال و دولت کو اللہ تعالیٰ کی امانت قرار دیا اور فقراء و مساکین، کمزوروں،  ضعیفوں  کی خبر گیری کو دینی زندگی کا جزو لاینفک بنا دیا۔ چنانچہ زکوٰۃ اور صدقات عبادت بنادیئے گئے۔ پڑوسیوں  کی خبر گیری کو جنت کی ضمانت قرار دیا گیا۔ صلہ رحمی کو مومن کے کردار کا لازمی عنصر قرار دیا گیا۔ کسب مال میں  دیانت اور پاکیزگی کو لازم کیا گیا تھا۔ اس لئے معاشی زندگی بھی ایک طویل عرصے تک اعلیٰ جمہوری اقدار سے آشنا رہی۔

 اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ جمہوریت اپنی روح کے اعتبار سے اسلامی طرز زندگی سے متغایر نہیں  ہے بلکہ عین مطلوب ہے۔ یہ رد کرنے کے لائق نہیں  ہے بلکہ اختیار کرنے والی چیز ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ اس کو خدا کے باغی بننے سے بچاکر اس کو اس کی اطاعت کی طرف موڑا جائے۔ یہ دعوت دین کیلئے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔ فرد کو آزادی رائے کا حق دیتی ہے اور اشاعت فکر کی سہولت بہم پہنچاتی ہے۔

 جمہوریت نفس انسانی کی عمومی تکریم پر قائم ہے۔ یہ انسان کو محکوم اور محصور نہیں  بلکہ آزادی قرار دیتی ہے۔ یہ قدریں  خیر ہیں۔  ان کا تحفظ دین حق کو مطلوب ہے۔ ترغیب، تلقین اور اشاعت فکر تحریک اقامت دین کے وسائل ہیں۔  جمہوریت ان کو پروان چڑھانے کا اعلان کرتی ہے اور انھیں  اصولاً صحیح قرار دیتی ہے۔ یہ سیاسی یا ثقافتی جبر کو رد کرتی ہے۔ عقل و فہم کے آزادانہ استعمال کا اختیار دیتی ہے۔ یہ ایسے امور خیر ہیں  جن کا استحکام اسی نصب العین کیلئے ضروری ہے جس کے ہم داعی ہیں۔

تحریر:ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی… ترتیب: عبدالعزیز

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔