محبت رسول کامیابی کا ضامن!

محمد خان مصباح الدین عالیاوی

محسنِ انسانیت، سرکارِدوعالم جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سرزمین عرب میں ایسے جاہلی ماحول میں ہوئی کہ انسانیت پستی کی انتہا کو پہنچ چکی تھی اور یہ حالت صرف عرب ہی کی نہیں تھی؛ بلکہ اکثر خطے کی زبوں حالی قابلِ رحم تھی، ہر طرف سماجی ومعاشرتی بدنظمی اور معاشی واقتصادی بے چینی تھی، اخلاقی گراوٹ روز افزوں تھی، مزید برآں بت پرستی عروج پر تھی، قبائلی وخاندانی عصبیت بڑی سخت تھی اور شدید ترین نفرتوں، انتقامی جذبات، انتہا پسندانہ خیالات، لاقانونیت، سودخوری، شراب نوشی، خدافراموشی، عیش پرستی وعیاشی، مال وزر کی ہوس، سنگ دلی اور سفاکی وبے رحمی سے پورا عالم متاثر تھا؛ الغرض چہار سُو تاریکی ہی تاریکی تھی، خلاصہ یہ کہ اسوقت روئے زمین پر کوئی قوم ایسی نظر نہیں آتی تھی، جو مزاج کے اعتبار سے صالح کہی جاسکے ، اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں کہیں کہیں عبادت گاہوں اور خانقاہوں میں اگر کبھی کبھی کچھ روشنی نظر آجاتی تھی تو اس کی حیثیت ایسی ہی تھی، جیسے برسات کی اندھیری رات میں جگنو چمکتا ہے․

جب انسانی ذہنیت مکمل طور پر طاغوتی پھندوں کا شکار ہوگئی اور برائیاں ختم ہونے کے بجائے نئے نئے انداز میں اور نئی نئی شکلیں لے رونما پونے لگیں اس وقت سب سے پہلے وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ  کا پیغام دے کر اللہ نے ہمارے آخری نبی محمد کو بھیجا اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم وہی دین لے کر آئے جو دیگر انبیاء کرام لے کر آئے تھے جو ابتدا آفرینش سے تمام رسولوں کا دین تھا اسی دین کو تمام آمیزیشوں سے پاک کرکے اس کی اصل خالص صورت میں پیش کیا اب خدا کا حکم اس کا دین اس کا قانون وہ ہے جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا يَا أَيّهَا الّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرّسُولَ وَأُوْلِي الأمْرِ مِنْكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرّسُولِ إِن كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الاَخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے کلمہ طیبہ کی استدلالی و منطقی توجیہ یہ ہے کہ اس میں پہلے تمام خداؤں کا انکار پھر ایک خدائے وحدہ لاشریک لہ کا اقرار ہے اسی طرح تمام انبیاء کی سابقہ شریعتوں  پر عمل کرنے کا انکار ہے

اور ساتھ ہی ساتھ نبی سے محبت فرض عین ہے  نبی اکرم صلی اللہعلیہ وسلم کا ارشاد  ہے”لایومن احدکم حتی اکون احب الی من والدہ وولدہ والناس اجمعین۔  اللہ تعالی محبت کے اسی جذبہ کو ابھرنے کے لئے بارہا قرآن میں فرماتا ہے کہیں استجیبواللہ ولرسول اذا دعاکم ْ اے ایمان والو!اللہ اور اسکے رسول جب بلائیں فوراً دوڑ پڑو۔کہیں ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی اور اسی طرح جگہ جگہ ارشادِ ربّانی ہوتا ہے کہ اے ایمان والو!میرے رسول کی اطاعت کرو اور اطاعت محبت کے بغیر نا مکمل ہے۔ گویا محبت واطاعتِ رسول ہی اصل ایمان ہے اور جس کے دل میں محبت کا جذبہ نہیں و ہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں۔

 سامعین کرام صحابہء کرام کی نبی کے ساتھ الفت ومحبت کے واقعات ہزاروں صفحات پر منتشر ہیں جنکا احاطہ ممکن نہیں پر اتنی بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ اصحاب رسول کو رضی اللہ عنھم ورضواعنہ کا سرٹیفکٹ ابسی محبت کی مرھون منت ہے

حاضرینِ کرام!

پرچم اسلام کیوں کرسربلند ہوا ؟

ہماری عزت و حشمت کو کیوں چار چاند لگ گیا؟ہمارا کارواں نیل کے ساحل سے لیکر کاشغر کی خاک تک کیوں کامیابی و سرفرازی کے جھنڈے گاڑتا ہوا بڑھتا ہی رہا؟ہماری شان و شوکت کیوں نقطۂ عروج تک پہونچ گئی؟کیا سبب تھا ان عظمتوں اور رفعتوں کا ؟کیا وجہ تھی ان سربلندیوں اور کامیابیوں کی؟صرف ایک سبب تھا صرف ایک وجہ تھی…اور وہ تھی …صحابۂ کرام کی رسول عربی سے بے پناہ محبت و الفت اور ا نکی بارگاہ کے تئیں کامل وفاشعاری.

وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی پامردی اور استقلال تھا،جو صحرا کی تپتی ہوئی ریت پر ننگی پیٹھ اور سینے پر پتھر رکھے ہوئے مجسم زبان سے اشہدن محمد الرسول اللہ کی گردان جاری رکھے ہوئے تھے…وہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کا شبابِ وفا ہی تھا، جو جلتے ہوئے انگاروں پر محمد الرسول اللہ کا ورد جاری رکھے ہوئے تھا…سمیہ (رضی اللہ عنہا )  کا وہ حب صادق ہی تھا، جو ظالم کے نت نئے مظالم کے بعد بھی مزید شدت اختیار کرتا جارہا تھا…وہ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک فرمایش پر حضرت ابوبکر(رضی اللہ عنہ) کا گھر کا ساراسامان لے آنا…وہ حضرتِ عمر (رضی اللہ عنہ) کا فیصلۂ سرکار نہ ماننے والے کا تلوار سے فیصلہ فرمانا…وہ حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)کا رسیوں سے باندھ کر مارا جانا،پھر بھی محبت رسول میں سرشار رہنا…وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا در خیبر اکھاڑپھینکنا…یہ تھی ان کی محبت رسول…اور یہ تھی ان کی وفاکی تصویر …جس کی وجہ سے اسلام سربلند ہوا… اسلامی حکومت کی توسیع ہوئی …تین سو تیرہ بے سروسامان سرفروشان اسلام نے کافروں کے جملہ اسلحوں سے لیس لشکر جرار کو شکست فاش دی تھی… اور کون کون سے واقعات کی یاد تازہ کروں ؟اور کیسی کیسی داستان ایمان افروز بیان کروں ؟؟​، ان کی شان و شوکت،ان کا جاہ وجلال مرہون منت تھا وفاے مصطفوی کا…اور آج؟ …ہم ساری دنیا میں ذلیل و خوار ہیں کیوں ؟…آخر کیوں ؟ کیوں کہ

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر​

اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر​

ہم میں وہ صدیق سی صداقت نہیں، عمر سا استقلال نہیں، عثمان سی سخاوت نہیں، علی سی شجاعت نہیں، بلال سے مؤذن نہیں، سعد سی جرأت نہیں، زبیر سا ایثار، خالد سی سپہ سالاری، حسان سی وارفتگی، خباب سی سپردگی، صہیب سی شیفتگی اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سی محبت رسول اور وفاے پیغمبری نہ رہی۔ قرآن حکیم میں واضح طور پر اللہ کا فیصلہ سامنے آتا ہے اور وہ اللہ جو جھوٹا نہیں ہے، صاف صاف اعلان فرماتا ہےوَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

 تو کیا جذبۂ ایمانی کی روح،محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اطاعت نبوی اور وفاے مصطفوی نہیں ہے،وہ قلت میں …بے سروسامانی میں …غربت و فاقہ کشی میں بھی دشمنان اسلام کے لیے شمشیر بے نیام تھے،مگر آج قومی اور بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کی حالت زار اظہر من الشمس ہے…کہیں قومی سطح پر مسلمان ذلیل و خوار ہیں، تعصب وتنگ نظری کا شکار ہیں، ان کا مذہب،ان کی زبان، ان کاتمدن،ان کی معیشت،ان کی عزت،ان کی عصمت اور ان کی عفت کو تاراج کیا جارہا ہے …توکہیں بین الاقوامی سطح پر بیت المقدس چھن چکا ہے،دشمنان اسلام نعوذ باللہ اب مکۂ معظمہ اور مدینۂ منورہ کی تاک میں ہیں،الغرض سارے عالم میں مسلمان قہر خداوندی کے  لپیٹ میں ہیں۔ جب کہ اکثر مسلم ممالک خانہ جنگی کے دہانے پر۔

آج قوم مسلم سائنس، ٹیکنالوجی، تعلیم، ترقی،سیاست،معیشت گویا ہر چیز میں پیچھے ہے مگر غربت جہالت اور اخلاقی گراوٹ میں سرفہرست ہے۔ اور یہ کرڑوی حقیقت ہے مسلم قوم تباہ ہوتی ہوتو ہو،مہاجرین بے گھر سڑتے ہوں تو سڑتے رہیں، افغانستان و عراق کے بے سرو پا مسلمان پناہ گزین کیمپ میں پڑے ہیں تو پڑے رہیں، سری لنکا اور جنوبی افریقہ کے مسلمان علاقائی سیاست اور لسانی تعصب کے شکار ہوتے رہیں تو ہوتے رہیں، قبلۂ اول اور فلسطین کے مظلوم مسلمان سسک سسک کر آواز دیتے رہیں لیکن ہم صرف یہی کہتے ہیں کہ ؎​

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر​

برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر​

لیکن ہم کسی کو الزام کیوں دیں ؟جنگ بدر میں ٹوٹے پھوٹے ہتھیاروں ہی سے تین سو تیرہ سر بکف مجاہدین اسلام نے دشمنان اسلام کے لشکرجرار کو ہزیمت دی اور اسلام کو سر بلند کیا،اس دنیامیں، اس ملک میں، اس شہر میں یا اس سماج میں ہیں ایسے تین سو تیرہ مجاہد؟… اگر ہیں … تو آج پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرانے کے لیے بے قرار ہے مگر شرط یہ ہے وہی جذبہء محبت وہی اطاعت ان کے اندر موجود ہو رسول پر جانثاری کی وہی تڑپ موجود ہو  اقبال نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے کہ ؎​

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں ​

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں ​

تبصرے بند ہیں۔